کیا غزہ کے خلاف کارروائیوں سے، جو انتہا کو پہنچ چکی ہیں، اسرائیل کو روکا جاسکتا ہے؟ کیا بین الاقوامی قوانین میں اس کی گنجائش ہے؟ یہ مضمون اسی موضوع کا احاطہ کرتا ہے۔
EPAPER
Updated: June 02, 2025, 4:55 PM IST | Aakar Patel | Mumbai
کیا غزہ کے خلاف کارروائیوں سے، جو انتہا کو پہنچ چکی ہیں، اسرائیل کو روکا جاسکتا ہے؟ کیا بین الاقوامی قوانین میں اس کی گنجائش ہے؟ یہ مضمون اسی موضوع کا احاطہ کرتا ہے۔
۹؍ فروری کو راجیہ سبھا میں حکومت سے سوال کیا گیا تھا کہ کیا ہندوستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے منظور کردہ نسل کشی کے کنونشن کی توثیق کی ہے جو اس نے ۱۹۴۸ء میں منظور کیا تھا؟ اگر ہاں تو کیا حکومت نے نسل کشی کیخلاف کوئی قانون بنایا ہے؟
اس کے جواب میں مودی حکومت نے کہا: ’’ہندوستان نے نسل کشی کے انسداد اور اس کے مرتکبین کی سزا سے متعلق کنونشن ۱۹۴۸ء پر ۲۹؍ نومبر ۱۹۴۹ء کو دستخط کئے تھے۔ بعد ازاں ۲۷؍ اگست ۱۹۵۹ء کو اس کی توثیق کی اور اس طرح یہ اعتراف کیا کہ نسل کشی بین الاقوامی جرم ہے۔ واضح رہنا چاہئے کہ اس کنونشن میں جو کچھ ہے وہ بین الاقوامی نیز ہندوستان کے عمومی قانون کا حصہ ہے۔ کریمنل پروسیجر کوڈ سمیت ہندوستان کے پینل کوڈ کی شقیں ایسے افراد کو سزا دینے کیلئے کافی ہیں جو اس نوع کے جرم کا ارتکاب کرتے ہیں، اس لئے کہ نسل کشی ایسا جرم ہے جسے کوئی ملک برداشت نہیں کرتا خواہ اس کا اِرتکاب امن کے دور میں کیا جائے یا مسلح شورش کے دور میں۔ اس پس منظر میں اسرائیل اور غزہ کی جنگ کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس کالم میں آپ کو یہی کوشش دکھائی دے گی۔
قطع نظر اس کے کہ فلسطینی افراد اسرائیل میں اسرائیلی شہری کی حیثیت سے رہتے ہیں یا اسرائیلی فوج کے سائے میں فلسطینی علاقوں میں مقیم ہیں یا پناہ گزیں کی حیثیت سے کہیں اور بودوباش اختیار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں، سب اہل فلسطین کہلانے کے حقدار ہیں جن کے ایک دوسرے سے سیاسی، نسلی اور ر ثقافتی رابطے ہیں، جن کی زبان ایک ہے اور جن کی ثقافتی قدریں مشترک ہیں لہٰذا وہ کسی بھی جغرافیائی خطے میں رہیں، ان کی شناخت ایک ایسے قومی اور نسلی گروہ کی ہے جسے نسل کشی کنونشن تحفظ فراہم کرتا ہے۔
اسرائیل نے اکتوبر ۲۰۲۳ء سے غزہ پر ہولناک بمباری کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ تب سے اب تک غزہ کو تباہ و برباد کردیا گیا، زراعتی زمین کا کس بل نکل چکا ہے، اسپتال اور اسکول منہدم ہوچکے ہیں اور وہ مذہبی مقامات بھی اب باقی نہیں ہیں یا شکستہ حالت میں ہیں جو فلسطینیوں کے اجتماعی حافظے کا حصہ ہیں۔ اسرائیلی فوج نے ہزاروں افراد کا قتل عام کیا اور بے شمار لوگوں کو شدید طور پر زخمی کیا۔ ان میں ہزاروں بچے بھی ہیں۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ان گنت خاندان ایسے ہیں جو صفحۂ ہستی سے مٹ گئے یا کسی کسی خاندان کا کوئی ایک آدھ فرد باقی رہ گیا ہے، باقی سب موت کی نیند سلا دیئے گئے ہیں۔
اسرائیل نے غزہ کے ۹۰؍ فیصد سے زائد خاندانوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا جو اپنے گھروں اور محلوں کو چھوڑ کر جانے کے قابل نہیں تھے یا جنہوں نے وہیں رہنا اور کسی بھی طرح کا ظلم سہنے کو ترجیح دی۔ اب وہ اپنے مکانات کے ملبے پر حالات کے رحم و کرم پر شب وروز گزار رہے ہیں، گویا، اُنہیں یہ یقین ہوچلا ہے کہ جس ملبے پر بیٹھے ہیں وہی اُن کی قبر بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ اسرائیل نے جان بچانے والی اشیاء اور انسانی امداد کی درآمد اور ترسیل میں جان بوجھ کر رکاوٹ ڈالی یااس سے انکار کیا۔ اس نے بجلی کی سپلائی کو محدود کر دیا جو نقصان اور تباہی کے ساتھ ساتھ پانی، صفائی اور صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو مکمل طور پر بے اثر کردینے کا باعث ہے۔ اسرائیل نے غزہ سے سیکڑوں اور ممکنہ طور پر ہزاروں فلسطینیوں کو محصور کیا اور اُنہیں حراست اور تشدد اور دیگر ظالمانہ، غیر انسانی یا ذلت آمیز سلوک کا نشانہ بنایا جس سے بہت سے لوگوں کی موت واقع ہوئی۔
سوال یہ ہے کہ اسرائیل غزہ کے عوام کے ساتھ جو کررہا ہے کیا اُسے نسل کشی کہا جاسکتا ہے؟ اس کے جواب سے آپ آگاہ ہیں مگر چونکہ معاملہ بین الاقوامی سطح پر زیر بحث ہے اس لئے اسے نسل کشی کنونشن کی شرطوں کی روشنی میں دیکھا جانا چاہئے۔ ہمارا ادارہ (ایمنیسٹی انٹرنیشنل) تمام شقوں کے مطالعے کے بعد اسے نسل کشی مانتا ہے۔ کئی دوسرے گروپ اور ادارے بھی اسے نسل کشی کا نام دے چکے ہیں جسے نسلی تطہیر بھی کہا جاتا ہے یعنی پوری نسل کا صفایہ کردینا۔ اگر کسی گروہ ِ آبادی کو جزوی طور پر بھی برباد کرنے کا ارادہ ثابت ہو تو اُسے نسل کشی کا مجرم قرار دیا جاسکتا ہے۔ جزوی طور پر برباد کرنے کے ارادہ کا معنی یہ ہے کہ کوئی گروپ کسی گروہِ آبادی کو اتنا نقصان پہنچائے کہ اُس نقصان سے پورا گروہ متاثر ہو۔ غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کی مجموعی تعداد مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی کم و بیش ۵۵؍ لاکھ کی آبادی کا ۴۰؍ فیصد ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ نسل کشی کے مرتکب کو مرتکب اُس وقت کہا جائیگا جب وہ جس گروہ کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے اُس کا بھلے ہی پورا صفایہ نہ کرسکے مگر پورا صفایہ کرنے کا ارادہ ثابت ہو۔ بین الاقوامی قوانین ’’مکمل (نقصان یا صفایہ) یا جزوی‘‘ کی اصطلاح کو اس زاویئے سے تسلیم کرتے ہیں کہ ارادہ مکمل صفایہ کا ہو خواہ جزوی صفایہ کیا گیا ہو، اسے نسل کشی مانا جائیگا۔ اتنا ہی اہم یہ ہے کہ مخصوص ارادہ کو سمجھنے یا اس کا اندازہ لگانے کے لئے کسی ایک یا واحد ارادہ کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کسی ملک کی حکومت کے اقدامات فوجی نتیجہ حاصل کرنے اور اس طرح کسی گروہ کو تباہ کرنے کے دوہرے مقصد کو پورا کر سکتے ہیں۔ نسل کشی بھی فوجی نتیجہ حاصل کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
دوسرے الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ نسل کشی کی گئی یا جو کچھ بھی کیا گیا اُس پر نسل کشی کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں یہ تب ظاہر ہوگا جب کسی ملک کی حکومت کسی خاص فوجی ہدف کو پانے لئے کسی محفوظ گروہ کی تباہی کا ارادہ رکھتی ہو، اسے ختم کرنے کے ایک ذریعہ کے طور پر، یا جب تک وہ اسے حاصل نہ کر لے۔
نہایت اختصار سے بیان کی گئی ان باتوں کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسرائیل نے غزہ میں جو کچھ کیا اور اب بھی کررہا ہے وہ نسل کشی ہے، اس لئے حکومت ِ اسرائیل کو نسل کشی کا ارتکاب کرنے والا ادارہ قرار دیا جانا چاہئے۔
ہندوستان چونکہ نسل کشی کو بین الاقوامی جرم کے طور پر تسلیم کرتا ہے اور اس نے نسل کشی کو روکنے اور مرتکبین کو سزا دینے کے کنونشن پر دستخط بھی کئے ہیں اس لئے ہماری حکومت کو اس جرم کے خلاف بولنا چاہئے اور مناسبت چارہ جوئی نیز کارروائی کرنی چاہئے جو ہماری آنکھوں کے سامنے روزانہ جاری ہے۔