Inquilab Logo Happiest Places to Work

اسرائیلی بے دردی اور بائیڈن کی ’ہمدردی‘

Updated: March 14, 2024, 10:53 AM IST

دُنیا کے ایک طاقتور ملک کا سربراہ قیامت خیز جنگ اور اس کی لائی ہوئی آفات سے پوری طرح باخبر ہونے کے باوجود جانبداری سے کام لے تو ہمارے خیال میں اہل غزہ کو اظہارِ ہمدردی کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

US President Joe Biden. Photo: INN
امریکی صدر جوبائیڈن۔ تصویر: آئی این این

امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے ’’اِسٹیٹ آف یونین‘‘ خطاب میں درست کہا کہ ’’فلسطینیوں کیلئے یہ رمضان نہایت کربناک وقت میں آیا ہے‘‘ مگر اس بیان میں ہمدردی کم اور اظہار ِ ہمدردی زیادہ ہے۔ دُنیا کے ایک طاقتور ملک کا سربراہ قیامت خیز جنگ اور اس کی لائی ہوئی آفات سے پوری طرح باخبر ہونے کے باوجود جانبداری سے کام لے تو ہمارے خیال میں اہل غزہ کو اظہارِ ہمدردی کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ وہ چو طرفہ تباہی و بربادی کے ملبے میں دبے ہونے کے باوجود اسرائیلی جارحیت کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہورہے ہیں۔ اُن میں سے کسی نے اسرائیلیوں سے رحم کی بھیک نہیں مانگی۔ اُن کا احساس خودی اس کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ وہ کرۂ ارض پر ایک غیور قوم کی حیثیت سے خود کو ہر گزرتے دن کے ساتھ منوا رہے ہیں تاکہ دُنیا دیکھ لے کہ ’’ہم ٹوٹ گئے مگر جھکے نہیں ‘‘۔ بائیڈن کو اہل غزہ کی جانب اُنگلی نہیں ہاتھ بڑھانے کی ضرورت ہے مگر ہر امریکی حکمراں کی طرح وہ بھی اسرائیل کو گود میں بٹھا کر اُس کی اتنے پیار سے گوشمالی کررہے ہیں کہ نیتن یاہو بھی اس لاڈ پیار کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ اس سے اُن کی حوصلہ شکنی نہیں، حوصلہ افزائی ہوگی۔ اس سے پہلے بھی بائیڈن نے سرے سے جنگ کی مخالفت کرنے کے بجائے محدود جنگ کی وکالت کی تھی۔ ہمارا خیال ہے کہ بائیڈن کے دل میں ہمدردی تو کیا پیدا ہوتی، اُنہوں نے سینیٹ کے ڈیموکریٹ ممبران کے دباؤ میں مذکورہ بیان دیا ہے۔ ان ممبران نے اُنہیں یاد دلایا ہے کہ اسرائیل کو اسلحہ کی فراہمی امریکی قانون کے منافی ہے جو اس بات کی قطعی اجازت نہیں دیتا کہ انسانی بنیادوں پر دی جانے والی امداد کا راستہ روکنے والے ملک کو اسلحہ فراہم کیا جائے۔ ’اسٹیٹ آف یونین’ کہلانے والے خطبہ سے قبل تیرہ (۱۳) ڈیموکریٹس نے بائیڈن کو خط لکھ کر مطالبہ کیا تھا کہ اُنہیں اپنے خطبہ میں اسرائیل کی سخت الفاظ میں مذمت کرنی چاہئے۔ بائیڈن پر اس دباؤ کا اثر ہوا مگر صرف اتنا کہ اُن کی زبان سے وہ کھوکھلے الفاظ برآمد ہوئے جن سے اہل غزہ کو راحت مل جائے اس کا امکان نہیں ہے۔ اتنے کھوکھلے الفاظ سے تو امدادی سامان لے جانے والا ایک چھوٹا سا ٹرک بھی گزر نہیں سکتا۔ 
ایک طرف غزہ کی ہولناک تباہی ہے اور دوسری طرف دُنیا کے تمام با اثر ملکوں پر مصلحت پسندی اس قدر حاوی ہے کہ وہ کھل کر کچھ کہنا نہیں چاہتے کیونکہ تل ابیب کی ناراضگی کا احتمال ہے جس کے سبب بہت سے معاشی مفادات پر ضرب لگ سکتی ہے۔ ایک مسئلہ ان ملکوں کا یہ احساس بھی ہے کہ اسرائیل ناراض ہوا تو امریکہ بھی ناراض ہوجائیگا، وہ دوہری ناراضگی مول لینے کو تیار نہیں ہیں اس لئے سچ بولنا، حقوق انسانی کی حفاظت کیلئے دو قدم چلنا اور عالمی امن میں شراکت دار بننا اُنہیں قبول نہیں۔ اس کی وجہ سے اسرائیل کی دھاندلی بدستور ہے۔ اسے ماہِ صیام کا بھی لحاظ نہیں ہے۔ اُصولی طور پر جنگ فوراً بند ہونی چاہئے اور اسرائیل سے اب تک کے تمام جرائم کیلئے جواب طلب کیا جانا چاہئے مگر کوئی نہیں ہے جو نیتن یاہو کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرسکے، اسرائیل کے معاشی بائیکاٹ کی مہم چلائے اور یو این او کو اُس کے فرائض یاد دِلائے۔ اہل غزہ کی مشکلات روز بہ روز بڑھ رہی ہیں۔ سرنگ کے سرے پر اگر روشنی ہے بھی تو فی الحال دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ حالات سخت ہیں اور اہل غزہ کو صرف خدا کی مدد و نصرت کا بھروسہ ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK