Inquilab Logo

لہوآستیں کا برسوں بعد بھی پکارتا ہے

Updated: January 31, 2023, 11:08 AM IST | Hasan Kamal | MUMBAI

گجرات کی نسل کشی کی کچھ یادیں آج تک دنیا کی نظروںکے آگے نظر آرہی ہیں۔ بلقیس بانو کا نام کس کو یاد نہیں ان لوگوں کے نام بھی لوگوں کو ازبر ہیں جنہیں اس جرم کی سزا دے کر بعد میں انہیں بخش بھی دیا گیا تھا۔ہمیں معلوم نہیں کہ دہلی کی سرکار کو یہ مشورہ کس نے دیا تھا کہ اس ڈاکیو منٹری کو ممنوع قرار دیا جائے ۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

بی بی سی انفارمیشن کی بنائی ہوئی ایک ویڈیو کا ان دنوں بہت چرچا ہے۔ یہ تو کہنے کی کوئی بات ہی نہیں ہے کہ اس ویڈیو کا چرچا ہندوستانی نیشنل میڈیا سے بھی زیادہ ذکر بین الاقوامی میڈیا پر ہے۔ہندوستان کے سوشل میڈیا پر بھی اس کا بہت زیادہ ذکر اس لئے بھی نہیں ہے کہ مودی سرکار نے اسے ممنوع قراردیاہے۔ کہا جا رہا ہے کہ جو بین الاقوامی نشریاتی ادارے اس کا ذکر کریں گے یا اسے دکھائیں گے ان کے خلاف تادیبی کارروائی بھی کی جائے گی۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگراسے دکھایا گیا تو یہ سپریم کورٹ کے خلاف کارروائی بھی سمجھی جائے گی۔ ہمیں معلوم نہیں کہ یہ سپریم کورٹ کے کس حکم نامہ کا ذکر ہے، کیونکہ جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے ہمیں کسی ایسے حکم نامہ کے بارے میں کچھ بھی نہیں پتہ ہے۔ ہم اس ڈاکیومنٹری کے بارے میں بعد میں آئیں گے، پہلے چند ضروری باتوں کو یاد کر لیا جائے۔ جب ۲۰۰۲ء کی گجرات مسلم نسل کشی کی بات کی جائے تو چند بہت سی چیزوں کا ذکر بھی یاد آتا ہے۔ اسے ہم نے مسلم نسل کشی کی بات اس لئے کہی ہے کہ مبینہ طور پر اس ڈاکیو منٹری میں بھی گجرات کے فرقہ وارانہ فسادات کو بھی یہی نام دیا گیا ہے۔ یہ بھی یاد کیجئے کہ ساری دنیا میں اس نسل کشی کے خلاف ایسی تحریکیں اٹھی تھیں کہ ہندوستان کی سخت بدنامی ہو رہی تھی۔ یہ بھی یاد کیجئے کہ یہ فساد کا ذکر ہے جس کے بارے میںاس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے اس وقت کے گجرات کے چیف مسٹر نریندر مودی کو ’راج دھرم ‘نبھانے کہ تلقین کی تھی،وہ چاہتے تھے کہ نریندر مودی چیف منسٹری چھوڑ دیں۔ نریندر مودی نے ظاہر ہے کہ چیف منسٹری نہیں چھوڑی۔ اس کی بھی ایک خاص وجہ تھی۔ اس وقت ملک کے دو سب سے اہم لیڈر اٹل بہاری واجپئی پر یہ دبائو ڈال رہے تھے کہ وہ راج دھرم والی تھیوری پر زیادہ زورنہ دیں ۔ان کا خیال تھا کہ اگر نریندر مودی سے چیف منسٹری چھڑوائی گئی تو گجرات بی جے پی کے ہاتھوں سے بھی نکل جائے گا اور اس کے علاوہ نریندر مودی کی وجہ سے ملک میں جو ووٹ بینک بنا ہے، وہ بھی بری طرح متاثر ہوگا۔ یہ دو لیڈر لال کرشن اڈوانی اور مہاراشٹر کے بال ٹھاکرے تھے۔لال کرشن اڈوانی تو بہت دور نکل گئے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ایسا کچھ ہوا تو بی جے پی میں بھی پھوٹ پڑ جائے گی۔ ہمیں ٹھیک سے تو نہیں معلوم کہ لال کرشن اڈوانی سے آج یہ سوال پوچھے جانے پر کہ آپ کی اس سلسلہ میں کیا پوزیشن ہے تو ظاہر ہے کہ وہ منہ سے کچھ نہ بولیں ، لیکن ان کے دل کا کیا حال ہوگا یہ تصور ہی کیاجاسکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اگر بال ٹھاکرے کے وارث ادھو ٹھاکرے سے بھی یہی پوچھا جائے تو ان کا کیا جواب ہوگا۔ اس کے جواب کی تلاش میں بھی زیادہ دور نہیں جانا پڑے گا۔ صرف پچھلے ہی ہفتہ انہوں نے ایک بیان دیا ہے کہ اگر نریندر مودی واقعی خود کو ملک کاسب سے بڑالیڈر سمجھتے ہیں تو آئیں اور آج مہاراشٹر کے عوام سے ووٹ دینے کی اپیل کریں۔ آئیے اب اس ڈاکیومنٹری پر پھر سے آتے ہیں۔ 
 گجرات کی نسل کشی کے وقت دنیا کے کئی ممالک میں جیک اسٹرا اس وقت برطانیہ کے خارجہ سیکریٹری تھے۔ برطانیہ میں بھی اس نسل کشی کی وجہ سے عوام میں بہت ابال تھا۔ برطانیہ میں ہندوئوں، سکھوں اور مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ہے۔ وہاں کئی مظاہرے بھی ہوئے تھے۔ بر صغیر کے ان باشندوں کی بہت غالب اکثریت اس نسل کشی سے بہت برہم تھی۔ برطانوی سیاسی پارٹیاں ان سے ووٹ بھی لیتی ہیں۔ برطانوی حکومت کو بھی اس معاملے میں کافی تشویش تھی۔ انہوں نے خارجہ سکریٹری جیک اسٹرا کو حکم دیا کہ وہ اس معاملے پر اپنی رپورٹ بھی پیش کریں۔ جیک اسٹرا تحقیقات کرنے خود تو ہندوستان نہیں آئے ، لیکن انہوں نے ہندوستان کے برطانوی سفارت خانہ کی رپورٹیں اور اس نسل کشی کی تمام تحریریں حاصل کی تھیں ۔ انہوں نے عالمی برادری کے نمائندوں سے بھی ملاقات کی تھی۔ ان تمام چیزوں کو ملا کر انہوں نے اس کی رپورٹ پیش کی۔ انہوں نے یہ رپورٹ برطانوی حکومت کو دے تو دی لیکن برطانوی حکومت نے معاملہ کی تدبرانہ حساسیت کو مد نظر رکھتے ہوئے رپورٹ کو عام نہیں کیا۔ بی بی سی نے بھی موجودہ ڈاکیومنٹری کا فیصلہ بھی اسی وقت کیا تھا لیکن بی بی سی کے نمائندوں نے کسی طرح یہ رپورٹ حاصل کی اور پھر مسٹر مودی اینڈکویسچن کے نام سے اس کی تشکیل اب کر لی ہے۔ 
 ظاہر ہے کہ جب برسوں کے بعد بھی لہو آستیں کا پکارتا ہے تو صرف ان کو الجھن نہیں ہوتی جن کی یہ آستین تھی بلکہ ان کو بھی سخت کوفت اور الرجی ہوتی ہے جن کا لہو اس آستین پرچسپاں تھا گجرات کی نسل کشی اب کسی ایک یا دو ڈاکیومنٹریز کا حصہ نہیں ہے یہ تو ہندوستان کی اس تاریخ کا بھی حصہ ہے جس میں گوتم بدھ اورگاندھی اور نہرو کے نام بھی ہیں۔ اس نسل کشی کی کچھ یادیں آج تک دنیا کی نظروںکے آگے نظر آرہی ہیں۔ بلقیس بانو کا نام کس کو یاد نہیں ان لوگوں کے نام بھی لوگوں کو ازبر ہیں جنہیں اس جرم کی سزا دے کر بعد میں انہیں بخش بھی دیا گیا تھا۔ہمیں معلوم نہیں کہ دہلی کی سرکار کو یہ مشورہ کس نے دیا تھا کہ اس ڈاکیو منٹری کو ممنوع قرار دیا جائے کیونکہ ڈاکیو منٹری کی زبان انگریزی تھی اس لئے مودی سرکار کے حامیوں کی اکثریت اس سے غافل بھی رہتی ، لیکن ممنوع کا تمغہ لگتے ہی ہر ممنوع شدہ چیز کی طرح اس کی بھی وہ تشہیر ہوئی ہے جو پہلے نہیں تھی، آج ڈیجیٹل دور ہے،ٹیکنالوجی کے اس دور میں آج کسی بات کو چھپائے رکھنا قابو سے باہر ہو تا ہے۔ ٹیکنکل معاملات جاننے والے نوجوان اسے طرح طرح سے کھوج کر لاتے ہیں ۔ کئی یونیورسٹیو ںکے طالبات اسے دیکھ چکے ہیں۔ ان میں آندھرا کیرل کی کئی یونیورسیٹوںاور جمو یونیورسٹی میں بھی اسے دیکھا جا چکا ہے۔ 
 ممنوع کرنے والی پالیسی نظریاتی ہے، اس کی وجہ سے بین الاقوامی میڈیا کو بھی غیر ضروری طور پر متوجہ کر لیا گیا ہے۔ امریکی ایڈمنسٹریشن کی طرف سے بھی یہ کہہ کر اس ممنوع پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیاہے کہ امریکہ ساری دنیا میں آزاد میڈیا کی حمایت کرتا ہے اور ممنوع پالیسی اسی کی مخالفت کر رہی ہے۔ یہ معاملہ آئندہ اور بھی بڑھنے والا ہے ۔کہا جا رہا ہے کہ لوک سبھا کے بجٹ اجلاس میں بھی اس کا زور دار چرچا ہوگا۔ راہل گاندھی نے اس ممنوع پالیسی کے لئے گیتا کے حوالے سے ایک دلچسپ بات کہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گیتا میں شری کرشن نے کہا ہے کہ سچ کو چاہے جتنا چھپایا جائے وہ کسی نہ کسی طرح دنیا کے سامنے آکر ہی رہتا ہے۔جیسا کہ کہا گیا گجرات کی نسل کشی ایک تاریخی حقیقت ہے، اسے تو عالمی نگاہوں میں آنا ہی ہوگا۔

gujarat Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK