Inquilab Logo

یہ فلسطینیوں کیلئےزندگی اور موت کا سوال ہے تو ہمارے لئے انسانیت کی آزمائش ہے

Updated: October 29, 2023, 1:31 PM IST | Nadir | Mumbai

اس پرخاموش رہنا، جمہوری ،مذہبی اور انسانی کسی بھی پہلو سے جائز نہیں ہےمگر ضروری نہیں کہ اس کیلئے سڑکوں پر اُترا جائے بلکہ ان نمائندوں کو جنہیں ووٹ دیکر ہم نے ایوانوں میں بھیجا ہے، انہیں آواز بلند کرنے پر مجبور کریں۔

The situation in Gaza is very bad, Israel`s aggression is at its peak but unfortunately the world is not able to stop it. Photo: INN
غزہ میں حالات بہت خراب ہیں، اسرائیل کی جارحیت اپنی انتہا پر ہے لیکن افسوس کہ دنیا اسے روک نہیں پارہی ہے۔ تصویر:آئی این این

امریکہ اور برطانیہ وہ ممالک ہیں جو نہ صرف اسرائیلی جارحیت کی حمایت کرتے ہیں بلکہ غزہ پر حملے کے دوران اس کی مالی اور فوجی مدد بھی کر رہے ہیں لیکن ان دونوں ہی ممالک میں عوام بڑے پیمانے پر فلسطین کی حمایت میں سڑکوں پر اُتر کر احتجاج کر رہے ہیں۔ پولیس یا انتظامیہ ان پر نہ کوئی سختی کر رہا ہے، نہ ہی انہیں روک رہا ہے لیکن ہندوستان جودہائیوں سے فلسطین کا حامی ہے اور جس کا اسرائیل سے کوئی وعدہ تک نہیں ہے وہ اپنے ہی باشندوں کو فلسطین کی حمایت کرنے سے روک رہا ہے۔
یاد رہے کہ اگر خارجہ پالیسی کے اعتبار سے اس جنگ میں ہندوستان اسرائیل کا حامی ہوتا تب بھی یہاں کے عوام کو اسرائیل کے خلاف احتجاج سے نہیں روکا جا سکتا تھا۔ انہیں مظاہروں کی پوری آزادی ہونی چاہئے تھی جیسا کہ۲۰۰۱ء میں  امریکہ کے خلاف تھی جب اس نے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ اس وقت کی اٹل بہاری واجپئی حکومت نے امریکہ کے حملے کی کھل کر حمایت کی تھی لیکن یہاںعوام امریکہ کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ لیکن این ڈی اے کی موجودہ حکومت واجپئی کی  اپنی پیش رفت حکومت کے نقش قدم کو بھول رہی ہے۔
اسرائیل فلسطین جنگ شروع ہونے کے بعد جو پہلا جمعہ آیا، اسی دن پولیس نے مسلم تنظیموں اور مساجد کے ذمہ داروں کو بلاکر تنبیہ کی کہ وہ نماز بعد کوئی احتجاج نہ کریں ورنہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ دیگر سیکولر تنظیموں نے اجازت طلب کی تو انہیں اجازت نہیں دی گئی۔ وجہ بتائی گئی (زبانی) کہ اس کی وجہ سے ماحول خراب ہو سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیل کے خلاف نعرے لگانے سے ماحول کیسے خراب ہوگا؟کیا جن علاقوں میں احتجاج کی اجازت طلب کی گئی وہاں اتنی بڑی تعداد میں یہودی آباد ہیں کہ ان نعروں سے وہ مشتعل ہو جائیں گے اور لڑائی پر آمادہ ہو جائیں گے؟ حالانکہ اس سے کچھ دن قبل ہی دانستہ ماحول خراب کرنے کیلئے نکالے گئے جلوسوں کو پولیس نے نہ صرف اجازت دی بلکہ انہیں سیکوریٹی بھی فراہم کرتی رہی۔ 
سوال یہ ہے کہ کیا اب کسی بھی موضوع پر ہندوستانی عوام کا موقف وہی ہوگا جوحکومت کا ہوگا؟ کیا انہیں انہی باتوں  پر احتجاج کرنے کی اجازت ہوگی جس پر برسراقتدار پارٹی کی مرضی ہوگی؟ بالفاظ دیگر کیا ہندوستان میں عوام سے ان کے احتجاج اور مظاہروں کا حق سلب کرلیا گیا ہے؟ قانونی طور پر تو ایسا نہیں ہوا ہے بس عملی طور پر پولیس انہیں ان کے حقوق کا استعمال کرنے سے روک رہی ہے۔ تو کیا اب دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے عوام اپنے حقوق سے دستبردار ہو جائیں؟ وہ کسی معاملے پر اپنی رائے یا اپنی ناراضگی کا اظہار نہ کریں؟ یاد رہے کہ پولیس وہی کرتی ہے جو اسے ’اوپر‘ سے حکم ہوتا ہے۔ اس کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی۔ اس لئے عوام کو پولیس سے الجھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ عوام کا واسطہ براہ راست ان لوگوں سے ہونا چاہئے جنہیں انہوں نے ووٹ دے کر ایوان میں بھیجا ہے اور جو اس وقت دانستہ طور پر خاموش بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ وہی کر رہے ہیں جو بی جے پی حکومت کی مرضی ہے۔ عوام کو چاہئے کہ وہ اپنے اپنے حلقے سے منتخب کئے گئے اراکین اسمبلی سے  ملاقات کریں اور ان سے کہیں کہ وہ ان کی طرف سے آواز اٹھائیں۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی حلقے میں رکن اسمبلی چاہے اور پولیس کسی احتجاج کی اجازت نہ دے (مراٹھا  ریزرویشن کیلئے ہونے والا احتجاج اس کی مثال ہے حالانکہ یہ براہ راست حکومت کے خلاف ہے) شرد پوار نے تو فلسطین کی حمایت کا باقاعدہ اعلان کیا ہے لیکن این سی پی کے کتنے اراکین اسمبلی نے ان کے اعلان کے بعد فلسطین کی حمایت میں مورچہ نکالا؟ مسلم اکثریتی علاقوں سے محض مسلم ووٹوں کے سبب جیتنے والے نمائندوں نے بھی  ابھی تک کوئی علامتی مظاہرہ تک کرنے کی زحمت نہیں اٹھائی۔
چونکہ آج عوامی نمائندوں کو ( صرف مسلم ووٹ حاصل ہونے کے باوجود) مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہونا خسارے کا سودا معلوم ہوتا ہے اسلئے وہ اب تک اس طرح کے مظاہروں سے دور ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کیلئے جمہوری دروازے بند ہو گئے ہیں۔ ہندوستان میں جمہوری قدریں انتہائی وسیع ہیں۔  ضروری نہیں کہ آپ سڑکوں پر اتر کر احتجاج کریں۔ آپ اپنی بلڈنگ کی سوسائٹی یا کمپائونڈ میں بغیر شور شرابے کے علامتی مظاہرہ بھی کر سکتے ہیں۔ بغیر تقریر اور نعروں کے بھی احتجاج ہو سکتا ہے جیسا کہ یورپ میں ہوتا ہے۔ احتجاج یا مظاہروں کیلئے اجتماعیت بھی شرط نہیں ہے۔ ایک فرد واحد بھی پوری آزادی کے ساتھ اپنی رائے حکومت وقت یا انتظامیہ کے سامنے ظاہر کر سکتا ہے۔ عام طور پر جو تنظیمیں مظاہرہ کر تی ہیں وہ مورچوں اور نعروں کے بعد ضلع کلکٹر کو میمورنڈم پیش کرتی ہیں جس میں ان کے مطالبات درج ہوتے ہیں جو ضلع کلکٹر اعلیٰ حکام تک پہنچاتے ہیں۔ اگر آپ کو مظاہروں کی اجازت نہ ملے تو آپ بغیر احتجاج کے اپنا مکتوب ضلع کلکٹر کو روانہ کر دیں یا براہ راست حکومت ہند کو بھیج دیں جس میں اپنا موقف اور مطالبہ واضح کر دیں۔ ایسا کرکے کم از کم آپ اپنے فرض سے تو سبکدوش ہو جائیں گے!
دعا انسان اور اس کے رب کا باہمی معاملہ ہے۔ اور اس کا تعلق دل سے اور نیت سے ہے لیکن تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی اس طرح کے مواقع آئے ہیں مسلمانوں نے دعائوں کی مجالس کا انعقاد کیا ہے۔ اس کیلئے کسی عوامی مقام کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ مساجد اور مدرسے تک اس کیلئے لازمی نہیں ہیں۔ یہ عمل تو اپنے اپنے گھروں میں بلڈنگ کی چھتوں پر دکان یا گودام تک میں ہو سکتا ہے۔ یہاں ہم اس بات کو دہرا دیں کہ دعا خود ایک عبادت ہے اور اس کا تعلق دل سے ہے’ مظاہروں‘ سے نہیں لیکن  اگر اس طرح کی مجالس مسلسل منعقد ہوتی رہیں ( مغربی ممالک میں اس کا چلن ہے ) تو اس کی رپورٹنگ شروع ہو جائے گی اور آپ کا یہ انفرادی عمل مظاہروں میں شمار ہونے لگے گا۔
ویسے ممبئی اور اطراف میں اس طرح کی مجالس کے انعقاد کا سلسلہ جاری ہے۔  یاد رہے کہ جمہوریت میں کسی بھی عمل کو معمولی نہ سمجھیں۔ ’اس سے کچھ نہیں ہوگا، اس کا کیا فائدہ؟ وہ لوگ نہیں سنیں گے‘ جیسے بہانوں کو اب ترک کر دیں اور فلسطین کے معصوم بچوں اور بے گناہ خواتین کے حقوق کی خاطر آواز اٹھائیں۔ یہ ان کیلئے زندگی اور موت کا سوال ہے تو ہمارے لئے انسانیت کی آزمائش ہے۔ اس  موقع پر خاموش رہنا، جمہوری ،مذہبی اور انسانی کسی بھی پہلو سے جائز نہیں ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK