Inquilab Logo

جمہوری انداز میں جمہوریت کے تحفظ کیلئے قدم اُٹھانا وقت کا اہم تقاضا

Updated: January 26, 2024, 11:54 AM IST | Muhammad Khalid Habib | Mumbai

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات میں ہم کیا کریں؟ کیا خاموش بیٹھ کرنظارہ کریں؟ خود کو حالات کے رحم و کرم پرچھوڑ دیں یا پھر اپنے اسلاف کی طرح جدوجہد کریں اور جمہوری انداز میں جمہوریت کے تحفظ کیلئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل ترتیب دیں۔ آج کی تاریخ میں ملک کے حالات یقیناً نازک ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم حالات سے مایوس ہو جائیں۔

This day is a trust given to us by our forefathers, so it is our responsibility to protect it. Photo: INN
یہ دن ہمارے اسلاف کی طرف سے ہمیں دی گئی ایک امانت ہے، اسلئے اس کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے۔ تصویر : آئی این این

ایک طویل جنگ کے بعد۱۵؍اگست۱۹۴۷ء کو ہمارا ملک ہندوستان انگریزوں کے تسلط سے آزاد ہوا اور لوگوں نے راحت و چین کا سانس لیا مگر ابھی بھی ملک پر برطانوی سامراج کا بنایا ہوا قانون نافذ العمل تھا۔ ایسے میں ملک کو چلانے کیلئے الگ سے ایک نئے قانون اور دستور کی ضرورت محسوس ہوئی جسے بنانے کیلئے صوبائی اسمبلیوں کے منتخب اراکین نے مجلس دستور ساز کے نام سے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ اس کے صدر مشہور مجاہد آزادی ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر منتخب ہوئے۔ اس دستور کے بننے میں تین سال لگ گئے اور پھر جب ملک کا آئین بن کر تیار ہوا اور مجلس دستور ساز نے۲۶؍نومبر۱۹۴۹ء کو تسلیم کر لیا تو۲۶؍جنوری۱۹۵۰ء کو اسے نافذ کردیا گیا اور۱۹۳۵ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کو بدل کر یوم جمہوریہ کا نام دیا گیا۔ یہی اس ملک کی خوبصورتی اوراس کے ماتھے کا جھومر کہلائی اور یہاں کی گنگا جمنی تہذہب کا آئینہ دار ثابت ہوئی۔ اس آئین میں جمہوریت کے بنیادی، سیاسی نکات اورحکومتی اداروں کے ڈھانچے، طریقہ کار اختیارات وحدود اورذمہ داریاں، نیز یہاں کے ہر شہری کو برابر کے حقوق دیئے گئے اوراس کو اپنے مذہب پر چلنے اور اس کی نشرواشاعت کی مکمل آزادی دی گئی۔ یہاں کے آئین اوردستور کی یہی خوبی ہے جو اسے دیگر ملکوں سے ممتاز بناتی ہے۔ 
 ۲۶؍جنوری درحقیقت خوابوں کی تعبیر کا دن ہے اور خوابوں کی تعبیر کے حوالے سے یہ یوم احتساب بھی ہے یعنی ہم غور کریں کہ ہندوستان کن خوابوں کی تعبیر تھا اور وہ کس حد تک پورے ہوئے؟ تاکہ وہ مقاصد اور اہداف ہماری نگاہوں اور ذہنوں کے قریب رہیں، کبھی اوجھل نہ ہونے پائیں جن کے پیش نظر ہمارے اکابر نے بے شمار قربانیاں دیں، جانوں کا نذرانہ پیش کیااور خون جگرکے ذریعہ چمنستاِن ہند کی آبیاری کی۔ دراصل جہاں بے حسی کا جمود توڑتا ہے وہیں جدوجہد اور حرکت کا جذبہ بھی پیدا کرتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ملک آج ایک طرح سے لاقانونیت کا شکار ہوگیا ہے، غنڈہ عناصر کو چھوٹ ملی ہوئی ہے جس کی وجہ سے نفرت کی گرم بازاری ہے۔ بعض معاملات میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ظالموں، قاتلوں اور فرقہ پرستوں کو حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے۔ وقتاً فوقتاً آئین کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں، اس کا کھلے عام مذاق تک اڑایا جارہاہے اور مسلمانوں کو ختم تک کردینے کی باتیں کھلے عام کی جارہی ہیں۔ 
  ستم ظریفی دیکھئے کہ جس قوم کے اجداد نے اس ملک کی آزادی میں اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کردیا جنہوں نے وطن کے نام پر اپنی جانیں قربان کیں، قید خانوں کی ہوائیں کھائیں اور اپنے گھروں کو ویران کرڈالا، آج انہی کے فرزندوں کو ملک سے نکالنے اور ان کی شہریت کو چھیننے کی سازشیں کی جاتی ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے ؟ کیا ہمارا جمہوری ملک ان حرکتوں کی اجازت دیتا ہے ؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ اب تو جمہوری اقدار کو بھی گویا بالکل ختم کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں، حقوق عامہ کا استحصال کیا جا رہا ہے، شہریوں کے درمیان بڑی تیزی سے نفرتوں کے بیج بوئے جارہے ہیں، مذہب و ملت اور ذات پات کے نام پر امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔ عوام کے درمیان اشتعال انگیزی عام ہوتی جارہی ہے۔ مسجد مندر کے نام پر نفرتیں پھیلائی جارہی ہیں، ہندو مسلم فسادات کرائے جارہے ہیں، بڑے لیڈران نفرت پھیلانے کے مواقع ڈھونڈتے رہتے ہیں اور باتوں کو رائی کا پہاڑ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ایک خاص مقصد کے تحت نفرتوں کے بازار گرم کئے جارہے ہیں۔ 
 سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات میں ہم کیا کریں ؟ کیا خاموش بیٹھ کرنظارہ کریں ؟ خود کو حالات کے رحم و کرم پرچھوڑ دیں یا پھر اپنے اسلاف کی طرح جدوجہد کریں اور جمہوری انداز میں جمہوریت کے تحفظ کیلئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل ترتیب دیں۔ ملک کے حالات یقیناً نازک ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم حالات سے مایوس ہو جائیں۔ ہم وہ قوم نہیں جو حالات سے مایوس ہو کر گھر بیٹھ جائیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK