Inquilab Logo

جگت استاد تو نہیں بنے ،جگ اچھوت ضرور بن گئے

Updated: June 21, 2022, 11:14 AM IST | Hassan Kamal | Mumbai

رسول اللہؐ کی اہانت کسی ملک کا اندرونی معاملہ نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کا تعلق تو دنیا کے ۲ ؍ارب کے قریب ہرمسلمان اور اس کی دینی جذبات کا معاملہ تھا، خواہ وہ برائے نام ہی مسلمان کیوں نہ ہو۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

جب سے نریندر مودی وزیر اعظم بنے ہیں، ملک کا ایک خاص طبقہ بالخصوص بی جے پی کا اجرتی انٹر نیٹ سیل دن رات یہی پروپیگنڈہ کر رہا ہے کہ مودی کی وجہ سے ہندوستان’ وِشوگرو‘ بننے جا رہا ہے۔ یعنی اب ہمارا دیش ساری دنیا کی رہنمائی یا قیادت کرے گا۔ حالانکہ اس پروپیگنڈہ یا نعرہ بازی کے تانے بانے ہٹلر اور جرمنی کے آریہ قوم کی برتری کے نعرے سے جڑے ہوئے ہیں، لیکن ہم فی الحال اس بحث سے گریز کرتے ہیں۔ اس وقت ہم اتنا ہی بتانے پر موقوف کریں گے کہ ۳۰؍لاکھ سے کچھ کم آبادی والے ملک قطر نے ایک ارب ۳۰؍کروڑ والے ملک ہندوستان سے، جو ایک ایٹمی طاقت بھی ہے، مطالبہ کیا ہے کہ حضور اکرمؐ کی شان میں جوگستاخی کی گئی ہے۔ اس کے لئے حکومت ہند معافی مانگے۔ معافی تو نہیں مانگی گئی ، لیکن تادم تحریر یہ بھی کہنے کی جرأت بھی نہیں دکھائی گئی کہ معافی نہیں مانگی جائے گی۔ اور صرف قطرہی نہیں تمام اہم عرب ممالک، بلکہ اور مسلم دنیا نے اس مذموم واقعہ پر ہندوستان اور ہندوستانیوں کی طرف جو رویّہ اختیار کر رکھا ہے، اس کی وجہ سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ ہم ’وشو گرو‘ یا جگت استاد بنے ہوں یا نہ بنے ہوں ، لیکن اس وقت جگ اچھوت ضرور دکھائی دے رہے ہیں۔ اور اگر یہ کوئی قابل فخر بات ہے تو اس کا سہرا نریندر مودی کی سرکار اور بی جے پی کے سر باندھا جانا چاہئے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ بی جے پی اور مودی سرکار کے پاس ہندو مسلم اور مندر مسجد کے سوا کوئی اور بیانیہ رہ ہی نہیں گیا ہے تو یہ بیانیہ تو دھوم دھام اور زوروشور سے چل رہاتھا۔ اس کی راہ میں تو کوئی قابل ذکر مزاحمت نظر ہی نہیں آرہی تھی۔ بس کبھی کبھار  مغربی میڈیا میں اس بیانیہ کے خلاف کچھ خبریں آجاتی تھیں ،یا بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے کوئی سرزنش آجاتی تھی، جسے یہ حکومت بہ آسانی سنی ان سنی کر دیتی تھی۔ عرب ممالک کی طرف سے تو کبھی کوئی صدا ہی نہیں اٹھتی تھی۔ آزادی کے بعد سے اس ملک میں سیکڑوںفرقہ وارانہ فسادات ہوئے کبھی آپ نے سنا کہ کسی نام نہاد مسلم ملک نے کوئی احتجاج کیا ہو؟ کوئی آواز آئی بھی تو پاکستان سے آئی تو پاکستان کو تو ہمارے یہاں کسی گنتی میں شمار نہیں کیا جاتا۔بابری مسجد شہید کر دی گئی ، لیکن کہیں سے کوئی آواز بلند نہیں ہوئی۔  پھر گجرات میں مسلم نسل کشی کی گئی۔سونیا گاندھی نے اس کے پیش نظر نریند مودی کو ’’موت کا سوداگر‘‘ کہا۔ اٹل بہاری واجپئی نے اسے راج دھرم نہ نبھائے جانے سے تعبیر کیا، لیکن کیا آپ نے کسی عرب سربراہ مملکت کا کوئی بیان سنا؟ 
    سی اے اے جیسا تفرقہ خیز قانون بنایا گیا۔ اقوام متحدہ نے مخالفت کی، امریکہ کی مذہبی آزادی سے متعلق انجمن نے احتجاج کیا۔ حد یہ ہے کہ نریندر مودی کو، جب تک وہ وزیر اعظم نہیں بن گئے، تب تک امریکہ کا ویزا دینے سے انکار کیا جاتا رہا۔ لیکن کیا کسی عرب ملک سے کوئی آواز سنائی دی؟ الٹے کسی عرب سربراہ نے نریندر مودی کو ملک کے سب سے بڑے شہری اعزاز سے نوازا۔کسی عرب سربراہ نے اپنی ریاست میں بننے والے پہلے ہندو مندر کے افتتاح کے لئے نریندر مودی کو مدعو کر کے انہیں عزت بخشی۔ ہندوستانی مسلمان اور ان کے مسائل کبھی عرب دنیا کے لئے قابل تشویش موضوعات نہیں رہے۔ غرض سب کچھ تو ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا۔ پھر آخر نبی کریمؐ کی اہانت جیسی ’’لکشمن ریکھا‘‘ پار کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ بی جے پی کی قیادت کی سوچ ذہنی افلاس کی سطح کے کافی نیچے ہے۔ نبی کریم ؐ کی اہانت کرکے تو بی جے پی لیڈر شپ نے ان عرب سربراہوں کو منہ کھولنے پر مجبور کر دیا، جو سفارتی آداب اور دوسروں کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی پالیسی کے نام پر چپ کا روزہ رکھے ہوئے تھے۔ رسول اللہؐ کی اہانت کسی ملک کا اندرونی معاملہ نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کا تعلق تو دنیا کے ۲ ؍ارب کے قریب ہرمسلمان اور اس کی دینی جذبات کا معاملہ تھا، خواہ وہ برائے نام ہی مسلمان کیوں نہ ہو۔ اس معاملہ پر تو جو عرب مسلمان نہ بولتا، اس کی مسلمان شناخت اور حیثیت کے آگے سوالیہ نشان کھڑا ہو جاتا۔ غرض عرب حکومتوں کو زبان کھولنا پڑی۔ اور جب زبان کھلی تو پھر ہر معاملہ پر کھلتی گئی۔ پھر تو مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور مذہبی مقامات کی چھین جھپٹ سب پر کھلنے لگی۔ ان ناعاقبت اندیش عناصر کو اس امر کا کوئی اندازہ نہیں کہ عرب سربراہ تو شاید کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد منا لئے جائیں، لیکن عام عرب اب ہندوستانیوں کی طرف سے بہت دل برداشتہ اور بر گشتہ خاطر ہو چکے ہیں، اور یہ نہ بھولئے کہ عرب دنیا میں تجارت اور کاروبار حکومتوں کے ہاتھوں میں نہیں عام عربوں کے ہاتھوں میں ہے، روزگار کے مواقع وہی فراہم کرتے ہیں اور ان کا رویہ ہندوستانیوں کی طرف سےبدل رہا ہے۔ وہاں کام کرنے والے ہندوستانی بھی اب خوف اور عدم تحفظ کا شکار ہو چکے ہیں۔ ظاہر ہے ان تمام باتوں کا اثر  مبینہ طور پر عمان میں کچھ عربوں نے ہندوستانی ملازموں کو بقایا رقم اور واپسی کا ٹکٹ دے کر ملازمت سے فارغ کر دیا ہے۔ہندوستان واپس بھیج دیاہے۔ اس اچانک افتاد نے ذمہ دار اداروں کو حواس باختہ کردیا ہے۔ پہلے ہی سے کنفیوژن کی شکار بی جے پی اور مودی سرکار کا ذہن اب بالکل مائوف نظر آرہا ہے۔ دونوں کو کسی ایسے ایشو کی تلاش تھی، جسے اچھال کر اس بدنامی کی طرف سے عوام کی توجہ ہٹائی جا سکے۔ ایشو تو مل گیا، لیکن بد قسمتی سے وہ اور بھی زیادہ سوہان روح ثابت ہو رہا ہے، کافی عرصہ سے افواہیں گرم تھیں کہ سرکار فوج میں براہ راست بھرتی کے بجائے عارضی بھرتیوں کی اسکیم پر غور کر رہی ہے۔ اچانک وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اعلان کیا کہ حکومت نے ’اگنی پتھ‘ نام کی ایک اسکیم بنائی ہے، جس کے تحت ۴۶ ؍ہزار جوانوں کو چار سال کی مدت کیلئے فوج میں لیا جائے گا، لیکن ان میں سے چار سال بعد صرف ۳۵؍  فیصد کو فوج میں مستقل ملازمت دی جائے گی باقی سے کہا جائے گا کہ کوئی اور نوکری تلاش کریں ۔ انہیں پینشن بھی نہیں دی جائے گی۔ یہ خبر باہر آتے ہی جیسے آگ لگ گئی۔ وہ نوجوان جو فوج میں ملازمت کی آس لے کر دو دو تین تین سال مشقیں اور ورزشیں کرتے تھے، ان کی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا، اچانک وہ سڑکوں پر اتر آئے۔ پہلے مظاہرے بہار میں ہوئے۔ ٹرینیں جلائی گئیں ، پتھرائو ہوا۔ پھر بی جے پی لیڈروں کے دفتروں اور گھروں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ اب یہ مظاہرے یوپی ،بہار، ہریانہ، اترا کھنڈ ، بنگال اور اُدیشہ تک میں پھیل چکے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ کسان آندولن کی طرح ایک اور تحریک کھڑی ہو گئی ہے۔ مودی سرکار بوکھلائی ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا پر کہا جا رہا ہے کہ اہانت رسول ؐ بی جے پی اور مودی جی کو مہنگی پڑ رہی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK