Inquilab Logo Happiest Places to Work

روزانہ ایک آیت، ایک سوال، ایک مکالمہ، ہفتہ وار ایک کتاب نوجوانوں کی فکری تربیت کیلئے کافی ہوسکتا ہے

Updated: August 02, 2025, 3:35 PM IST | Tauqeer Rahmani | Mumbai

روزانہ ایک آیت، ایک سوال، ایک مکالمہ، ہفتہ وار ایک کتاب، ایک ویڈیو، ایک مجلس یا ایک تربیتی حلقہ نوجوانوں کی فکری تربیت کیلئے کافی ہوسکتا ہے!

Picture: INN
تصویر: آئی این این

ایک زمانہ تھا جب علم کے افق پر سورج مشرق سے طلوع ہوتا تھا۔ جب عربوں کے خیموں سے نکلتی فکری روشنی اندلس سے بخارا تک پھیلتی تھی۔ جب بغداد کی درسگاہیں، قاہرہ کے کتب خانے، اور قرطبہ کے مدارس دنیا کے اذہان کو مہمیز دیتے تھے۔ اس وقت علم، فلسفہ، سائنس اور روحانیت کا مرکز عالمِ اسلام تھا، اور ’’سفر برائے علم‘‘ ایک فخر تھا، اگر وہ عالمِ عرب کی طرف ہوتا۔ 
مگر آج… وہی قافلۂ علم، جو مکہ و مدینہ کے گلی کوچوں سے گزرتا تھا، اب مغرب کی جامعات کے دریچوں میں کھو چکا ہے۔ اب عالم کا قبلہ تبدیل ہو چکا ہے؛ زبان، لباس، طرزِ فکر، اور حتیٰ کہ روحانی سانچے بھی مغربی ڈھب پر ڈھل چکے ہیں۔۔ یہ فطری ہے؛ تاریخ کی کتاب بتاتی ہے کہ محکوم قومیں حاکم قوموں کی ظاہری اور باطنی روش اپنا کر فخر محسوس کرتی ہیں۔۔ 
آج مغرب کی حکمرانی صرف معیشت، سیاست اور ٹیکنالوجی تک محدود نہیں، بلکہ ایک فکری نوآبادیاتی نظام بھی پوری شدت سے نافذ العمل ہے اور اس نظام کا سب سے بڑا ہتھیار ہے: الحاد و دہریت کا فکری سیلاب، ایک ایسا سیلاب جو صرف ایمان کو نہیں بہاتا، بلکہ انسان کے وجود کی معنویت کو بھی ڈبو دیتا ہے۔ جب کسی قوم میں اپنی تہذیب پر یقین متزلزل ہو جائے تو وہ بالضرورت غالب اقوام کے افکار و اطوار کو برتر سمجھ کر اپنانے لگتی ہے؛ کیونکہ انسان اپنی فطرت میں غلبے کو معیارِ حق ماننے کا میلان رکھتا ہے۔ 
الحاد: عقل پرستی کی آڑ میں روح کا انکار
الحاد، جو سطحی طور پر ایک سادہ سا انکارِ خدا ہے، درحقیقت ایک گہری فکری بیماری ہے۔ ملحد یہ کہتا ہے کہ خدا نہیں ہے مگر اس انکار کے پیچھے جو عقلی مغالطے، روحانی محرومیاں اور وجودی بحران چھپے ہیں، وہ قابلِ غور ہیں۔۔ یہ کہنا کہ کائنات بس ایک اتفاقیہ ہے، ایسا ہی ہے جیسے کوئی دعویٰ کرے کہ ایک عظیم الشان محل خودبخود تعمیر ہو گیا، بغیر معمار اور منصوبہ کے۔ عقل تو فطرت کے قوانین کی تابع ہے مگر الحاد عقل کو آزادی کا نام دے کر بے لگام کر دیتا ہے اور جب عقل وحی کے سائے سے نکلتی ہے، تو وہ نور کے بجائے نار بن جاتی ہے۔ 
دہریت: مادّیت کی بند گلی میں بھٹکتی انسانیت
دہریت کا فکری چہرہ الحاد سے کم مخرب اور مضر نہیں۔۔ دہریہ شخص خدا کا صریح انکار نہیں کرتا، مگر اسے زندگی کے منظرنامے سے غیر ضروری قرار دے دیتا ہے۔ اس کے نزدیک زندگی ایک حیاتیاتی عمل، کائنات ایک کیمیاوی حادثہ، اور انسان محض پروٹین اور نیورون کا مجموعہ ہے۔ ایسا تصور انسان کو اس کی بلندی سے گرا کر حیوانوں کی سطح پر لے آتا ہے۔ 
زندیقیت: جب دل ایمان کا دعویٰ کرے اور دماغ دہریہ ہو جائے
افسوس کہ یہ سیلاب ہمارے گھروں، تعلیمی اداروں اور اذہان میں سرایت کر چکا ہے۔ آج ہم بظاہر مسلمان ہیں نمازی، روزہ دار، حتیٰ کہ واعظ و خطیب مگر ہماری فکر، ہمارا طرزِ جستجو، اور ہماری اقدار مغرب کے سانچے میں ڈھل چکی ہیں۔۔ یہ ہے زندیقیت، ایسا فکری تضاد جس میں انسان نہ خالص مؤمن رہتا ہے نہ صاف کافر۔ وہ عبادت گاہ میں خدا کو پکارتا ہے، اور کلاس روم میں اس کے انکار کو علم سمجھتا ہے۔ زندیق وہ ہے جو کلمہ پڑھ کر بھی خدا کے بجائے سسٹم، مٹیریلزم، اور ہیومنزم میں ایمان رکھتا ہے۔ 
تدارک: فکری طوفان کے مقابل شعوری بیداری کا سفر
الحاد و دہریت کا جو فکری طوفان آج دنیا کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے، اس کے سامنے اگر ہم محض جذباتی نعرے یا سطحی وعظ کا سہارا لیں گے، تو یہ سیلاب ہمارے اذہان، معاشروں اور نسلوں کو نگل جائے گا۔ اس وقت ہمیں ضرورت ہے ایک ایسی مزاحمت کی جو نہ صرف عقیدے کی گہرائیوں سے جنم لے، بلکہ عقل، علم، فہم اور اخلاص کی بنیادوں پر استوار ہو۔ ہمیں ایسا نظامِ تدارک اپنانا ہوگا جو عملی بھی ہو، آسان بھی، اور ہر باشعور فرد کے لئے قابلِ عمل بھی۔ ایسا محسوس ہو کہ: ہاں، یہ میرے بس کی بات ہے، میں یہ کر سکتا ہوں۔۔ 
سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ ہم اپنی فکر کی تعمیر نو کریں۔۔ روزمرہ کی مصروفیات سے ہٹ کر روزانہ چند لمحے نکالیں اور اپنے وجود سے وابستہ بنیادی سوالات پر غور کریں : میں کون ہوں ؟ کہاں سے آیا ہوں ؟ میرے وجود کا مقصد کیا ہے؟ کائنات اتنی باقاعدہ کیوں ہے؟ کیا کوئی خالق ہے جو مجھے دیکھ رہا ہے؟ یہ سوالات صرف فلسفیوں کا موضوع نہیں، بلکہ ہر زندہ دل انسان کے اندر جاگتے رہنے چاہئیں۔۔ 
دوسرا قدم یہ ہے کہ ہم قرآنِ حکیم کے ساتھ اپنا رشتہ صرف تلاوت تک محدود نہ رکھیں بلکہ سوچنے، سمجھنے اور عمل کرنے کی سطح پر استوار کریں۔۔ روزانہ ایک آیت بھی اگر ترجمہ و تفسیر کے ساتھ پڑھی جائے اور اس پر چند منٹ غور کیا جائے کہ یہ میرے حالات یا دل کی کیفیت سے کیسے جڑتی ہے، تو قرآن محض رسم نہیں رہتا بلکہ حیات کا رہنما بن جاتا ہے۔ 
تیسرا اور نہایت اہم قدم ہے: ایمان کو دلیل کے ساتھ سیکھنا۔ آج کا نوجوان صرف جذبات سے نہیں جیتا، بلکہ وہ دلیل مانگتا ہے، تجزیہ چاہتا ہے، اور منطق سے قائل ہوتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم علمِ کلام یا اسلامی عقائد پر مبنی سادہ اور مدلل کتابوں کا مطالعہ کریں، ہفتے میں ایک مختصر باب یا مضمون ہی سہی، مگر ایسا مطالعہ کریں جو ہمارے عقائد کو عقل کی بنیاد پر استوار کرے۔ 
چوتھا مرحلہ سماج میں مکالمے کو فروغ دینا ہے۔ آج کا نوجوان یا بچہ جب سوال کرتا ہے: ’’اللہ کہاں ہے؟، ’’کائنات کیسے بنی؟‘‘، ’’اگر تقدیر طے شدہ ہے تو کوشش کا کیا فائدہ؟‘‘ تو ہمیں اسے خاموش کرانے یا ڈانٹنے کے بجائے اس کے سوال کو سراہنا چاہئے، اور مکالمے کی راہ اختیار کرنی چاہئے۔ اگر ہم جواب نہ جانتے ہوں تو صاف کہہ دیں : ’’آؤ، ہم مل کر تلاش کرتے ہیں۔۔ ‘‘یہی طرزِ مکالمہ زندیقیت کے خلاف سب سے مؤثر ہتھیار ہے، اور یہی نسلوں کو ایمان کی روشنی منتقل کرنے کا نبوی طریقہ بھی ہے۔ 
پانچواں قدم سوشل میڈیا کے میدان کو نظرانداز نہ کرنا ہے۔ آج دنیا کے نظریات انسٹاگرام، یوٹیوب اور فیس بک کے ذریعے پھیلتے ہیں۔۔ ایسے میں ہفتے میں ایک بار ہی سہی، مگر ہم کسی ایک فکری، روحانی یا خدا پرستی سے جُڑی تحریر، اقتباس یا ویڈیو شیئر کریں۔۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ طویل وعظ ہو، بلکہ مختصر مگر فکر انگیز بات ہو، جو کسی کے ذہن میں سوال اُبھار دے، یا کسی کو اپنے سوال کا جواب پانے میں مددگار ہو یا اس کے دل میں چنگاری سلگا دے۔ 
چھٹا اور آخری قدم صالح صحبت ہے۔ ہر انسان کو زندگی میں ایسا دوست، بزرگ یا مربی چاہئے جو فکری اور روحانی رہنمائی کرتا رہے۔ اگر ایسا کوئی شخص میسر نہ ہو، تو ان کے افکار، کتابیں یا تقاریر کو اپنا ساتھی بنا لیجئے۔ 
الغرض، الحاد و دہریت کی اس یلغار کے خلاف ہماری بیداری کا آغاز ایک بہت آسان قدم سے ہو سکتا ہے۔ وہ ہے: روزانہ ایک آیت، ایک سوال، ایک مکالمہ۔ ہفتہ وار ایک کتاب، ایک ویڈیو، ایک مجلس۔ ماہانہ ایک مضمون، ایک فکری نشست، یا ایک تربیتی حلقہ۔ یہی وہ چھوٹے چھوٹے قدم ہیں جو آگے چل کر فکری انقلاب کا پیش خیمہ بنتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK