• Wed, 11 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

کائنات، انسان اور آفات

Updated: August 31, 2024, 5:01 PM IST | Dr. Abd al-Bari bin Awad Thabiti | Mumbai

رات جب چھا جاتی ہے تو چاند کی پر لطف، پرسکون اور نرم روشنی عیاں ہو جاتی ہے تاکہ سکون و اطمینان پیدا ہو سکے۔ سورج پوری دنیا کو بے بہا گرم روشنی سے منور کرتا ہے، کائنات کو حیات بخشتا ہے۔

Every particle of the universe invites man to worry. Photo: INN
کائنات کا ہر ذرہ انسان کو دعوت ِ فکر دیتا ہے۔ تصویر : آئی این این

انسان جب اس وسیع و عریض کائنات میں اپنی آنکھوں کو پھیرتا ہے تو اس وقت حیران و ششدر رہ جاتا ہے جب وہ اس کے جمال و کمال، جلالت، نظم و نسق اور توازن کو دیکھتا ہے جس کے عجائب ختم ہونے کو نہیں آتے۔ اس کے خفیہ راز اور اسرار، بے حد و بے انتہا ہیں ۔ تو قرآن مجید آسمان و زمین کی اس بادشاہت کے بارے میں غور و فکر اور تدبر کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے بیان کرتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: اس نے آسمانوں کو اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا۔ وہ رات کو دین پر لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے۔ آپ ہر روز معجزات الٰہیہ اور پختہ کاریگری کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ رات آتی ہے تو دن چلا جاتا ہے۔ دن آتا ہے تو رات چلی جاتی ہے اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے جس میں کوئی تعطل و انقطاع نہیں آتا۔ تخلیق کائنات سے لے کر آج تک کوئی انسان یہ نہیں کہہ سکا کہ رات اپنے وقت سے تاخیر کا شکار ہو گئی ہے یا سورج اپنے مقررہ وقت سے پہلے طلوع ہو چکا ہے۔ تو کون ہے جو اس کی تدبیر کر رہا ہے اور کون ہے جو اس مرتب کارخانے کی تنظیم سازی کر رہا ہے اور بغیر انقطاع کے جگہوں کا تبادلہ کر رہا ہے؟ اگر ساری خلقت مل کر بھی رات کو دن کی جگہ اور دن کو رات کی جگہ لانا چاہے تو نہیں لا سکتی۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :
’’فرما دیجئے: ذرا یہ (بھی) بتاؤ کہ اگر اللہ تمہارے اوپر روزِ قیامت تک ہمیشہ دن طاری فرما دے (تو) اللہ کے سوا کون معبود ہے جو تمہیں رات لا دے کہ تم اس میں آرام کر سکو، کیا تم دیکھتے نہیں ہو۔ ‘‘ (القصص: ۷۲)
 رات جب چھا جاتی ہے تو چاند کی پر لطف اور پرسکون اور پر نرم روشنی عیاں ہو جاتی ہے تاکہ سکون و اطمینان پیدا ہو سکے۔ سورج پوری دنیا کو بے بہا گرم روشنی سے منور کرتا ہے، کائنات کو حیات بخشتا ہے، کام کرنے اور معاش کے حصول کے لئے نفوس میں چستی اور حرکت پیدا کرتا ہے تاکہ زندگی خوشگوار ہو سکے اور لوگ سعادتوں کو سمیٹ سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ’’اور سورج ہمیشہ اپنی مقررہ منزل کیلئے (بغیر رکے) چلتا رہتا ہے۔ ‘‘ (یٰسین:۳۸)۔ کیا ہم ان باتوں پر غور کرنے کی زحمت کرتے ہیں، وقت نکالتے ہیں ؟
سورج غیر محسوس طریقے سے انتہائی پرسکون حالت میں گردش کرتا ہے اس میں نہ تو کوئی اضطراب آتا ہے اور نہ ہی جنبش۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ اور چاند کی ہم نے منزلیں مقرر کر دی ہیں جن سے وہ گزرتا ہے یہاں تک کہ وہ آخر میں کھجور کی پرانی پتلی شاخ کی مانند ہو جاتا ہے۔ ‘‘ (یٰسین:۳۹)

یہ بھی پڑھئے:اہل مکہ کی سازشیں، اہل مدینہ کی نوازشیں اور دین ِ اسلام کا چہار جانب فروغ

چاند کی منزلیں اور اوقات مقرر کر دیئے گئے ہیں جن پر چلتا ہوا یہ اس قدر باریک ہو کر ہلال بن جاتا ہے کہ دیکھنے والوں کو بمشکل نظر آنے لگتا ہے۔ اس کا چھوٹا بڑا ہونا پورے انتظام اور منصوبہ بندی کے ساتھ ہوتا ہے تو کس نے اسے پیدا کیا ہے، اس میں نور و روشنی کی خاصیت رکھنے والا کون ہے، اس کے راستوں اور مدار کو متعین کرنے والا کون ہے، صبح و شام ان کے معاملے کی تدبیر کرنے والا کون ہے؟ کس قدر وہ عظیم ذات ہے جو پاک ہے۔ یہ اس اللہ کی کاریگری ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔ اس کائنات کے دوسری جانب کو بھی دیکھئے جس سے عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں، جو حیرت میں ڈال دیتی ہیں اور سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :’’اور وہی ہے جس نے (فضا و بر کے علاوہ) بحر (یعنی دریاؤں اور سمندروں ) کو بھی مسخر فرما دیا تاکہ تم اس میں سے تازہ (و پسندیدہ) گوشت کھاؤ اور تم اس میں سے موتی (وغیرہ) نکالو جنہیں تم زیبائش کے لئے پہنتے ہو۔ ‘‘ (النحل:۱۴)
 ’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ کشتیاں سمندر میں اﷲ کی نعمت سے چلتی ہیں تاکہ وہ تمہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھا دے۔ بیشک اس میں ہر بڑے صابر و شاکر کیلئے نشانیاں ہیں۔ ‘‘(لقمان:۳۱)

’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اﷲ نے جو کچھ زمین میں ہے تمہارے لئے مسخر فرما دیا ہے اور کشتیوں کو (بھی) جو اس کے اَمر (یعنی قانون) سے سمندر (و دریا) میں چلتی ہیں۔ ‘‘ (الحج:۶۵)
 کشتی کیسے اللہ سبحانہ و تعالی کے حکم سے چلتی ہے؟ اس عظیم خوبی کے ساتھ اللہ تعالی نے سمندر کو پیدا کیا کہ اسے نفع حاصل کرنے کے لئے آسان و ہموار کر دیا ہے، اسے سواریوں کا بوجھ اٹھانے کے قابل بنا دیا ہے، انسان کو الہام کر دیا ہے کہ وہ ایسی سواریاں تیار کرے جو پانی کی موجوں میں غرق نہ ہو سکیں اور سفر میں انہیں سمندری طوفانوں اور موجوں سے بھی محفوظ رکھ سکیں۔ یہ اس قادر اور خالق کائنات کا نظام اور منصوبہ بندی ہے اور آنکھ اس خوبصورت اور سر سبز نظارے کو نظر انداز نہیں کر سکتی جو خشک سالی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ 
 اس پختہ، انوکھی اور معجزانہ کاریگری کے سامنے انسانیت حیران و ششدر ہے۔ ریسرچ سینٹر، ریسرچ کرتے رہتے ہیں اور آئے روز ہمارے لئے اس کائنات کے عجوبے، عجائب و غرائب سے ہمیں آشنا کرواتے رہتے ہیں۔ انسان کے بنائے گئے روبوٹ جو فضا میں گردش کرتے ہیں اور اس کی حقیقت کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور غوطہ خور سمندروں کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہوتے ہیں تو آپ تعجب خیز اشیاء سے متعارف ہوتے ہیں ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ مسلسل لوگوں کیلئے کائنات کے اسرار اور نشانیوں میں سے کچھ نہ کچھ دکھاتا رہتا ہے اور ہر دور میں، ہر امت میں اور ہر جگہ وہ اپنی خوبصورت کاریگری عیاں کرتا رہتا ہے تاکہ حجت قائم ہو سکے اور قیامت کے قائم ہونے تک صراط مستقیم نمایاں رہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:ابلیس کو شکست دینا آسان نہیں مگر اتنا مشکل بھی نہیں ہے!

زمین کی عظیم تخلیق کو تو ہر وہ شخص دیکھتا ہے جو اس پر چلتا اور سکونت اختیار کرتا ہے کہ کتنی نرم، سازگار، وسیع اور مستقل ہے جس پر نہریں، چشمے، بلند و بالا اور مضبوط پہاڑ ہیں، اس پر چلنے والی صاف شفاف ہوا ہے جس کے ذریعے سانس چلتی ہے۔ اگر کچھ لمحات کے لئے وہ رک جائے تو زندگی تباہی کا شکار ہو جائے، مخلوق تباہ و فنا ہو جائے لیکن یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رحمت ہے جو ہمیں گھیرے ہوئے ہے، جو ہماری نیند و بیداری میں ہماری حفاظت کرتی ہے۔ یہ تو وہ ظاہری اشیاء ہیں جنہیں ہم دیکھ رہے ہیں تو ان باطنی اشیاء کا کیا عالم ہو گا جنہیں ہم دیکھ نہیں سکتے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رحمت سے زمین کیسے ہماری حفاظت کرتی ہے اور کیسے مستقر اور پرسکون ہے، یہ جاننے کیلئے ذرا زلزلوں ، آندھیوں اور طوفانوں کے آثار کو دیکھ لیجئے جو چند لمحوں کیلئے ہی رونما ہوتے ہیں۔ پھر زمین پر غورکیجئے کہ زمانے گزر چکے ہیں، پے در پے نسلیں بیت چکی ہیں . پھر بھی وہ تمام زندگی کے مدار میں ثابت اور قائم ہے۔ کس ذات نے اسے جھکنے اور مائل ہونے سے بچا رکھا ہے؟ کس نے اسے ثابت رکھا ہے کہ یہ مضطرب اور حرکت میں نہیں آتی؟ 
کائنات میں یہ زلزلے، آندھیاں اور طوفان اللہ کی سنتوں کے نظام کے تحت جاری ہوتے ہیں جس میں کوئی نہ کوئی ضرور حکمت ہوتی ہے مگر ان کی حقیقت ہمیں معلوم نہیں ہوتی۔ یہ جہانوں کے پالنہار کی رحمت ہوتی ہے اگرچہ بظاہر مخلوق کو کچھ اور ہی محسوس ہو رہا ہو۔ کبھی اس کے کچھ اسباب و اسرار سائنس کے ذریعے بھی معلوم ہو جاتے ہیں اور سائنس جہاں تک بھی پہنچ جائے پھر بھی وہ قاصر ہے اور جس قدر بھی ترقی کر جائے آخر یہ مخلوق ناتواں اور کمزور ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ ‘‘ ( بنی اسرائیل:۸۵)
 کسی خاص قوم پر کسی خاص وقت میں ان حوادث کے نازل ہونے پر یہ کہنا کہ یہ ان پرعذاب اور سزا کے طور پر آئے ہیں، تخمینہ اور اٹکل ہے اور شریعت پر زبان درازی ہے کیونکہ ممکن ہے یہ آزمائش ان کے گناہوں کی پاکی، صفائی ستھرائی اور انتخاب و تکریم میں سے کسی ایک کا ذریعہ بن جائے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ سب ہی چیزیں اس آزمائش میں مقصود ہوں۔ آزمائش کی کئی اقسام اور احوال ہوتے ہیں۔ بعض اوقات کچھ لوگوں کو ان گزشتہ مصائب سے بھی سخت مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے مثلاً: امن و امان کا تباہ ہو جانا، ظلم وستم کا عام ہوجانا، قتل و غارت، بیماریوں اور وباؤں کا بڑھ جانا وغیرہ وغیرہ، بلاشبہ یہ حوادث بڑے مصائب میں سے ہیں اور جن پر نازل ہوتے ہیں ان کیلئے تو آزمائش اور ابتلا ہوتے ہیں اور ان کے علاوہ دیگر مسلمانوں کیلئے بھی کسی آزمائش اور امتحان سے کم نہیں ہوتے جو خوشحال اور آزادانہ زندگی تو بسر کررہے ہوتے ہیں اور ان کے ہاتھ ان کی گرد نوں کے ساتھ بندھے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس مال و دولت کی فراوانی ہے لیکن خرچ نہیں کرتے۔ 
 مسلمانوں کے درمیان رحمت کے مقدار کے لحاظ سے بھی یہ آزمائش ہوتی ہے اور نفوس میں اخوت و بھائی چارہ کس قدر ہے اس لحاظ سے بھی۔ یہ ہر دوسرے مسلمانوں کیلئے آزمائش ہوتی ہے، ایسے وقت میں کوئی فرار نہیں اور ان جیسے حالات میں اور کوئی شے مقدم نہیں، اس وقت یہی لازم ہے کہ ان کی مدد کی جائے، مال خرچ کیا جائے، تعاون کیا جائے، ان کا ہاتھ بٹایا جائے اور بھائی چارہ کی ہر ممکن فضا قائم کی جائے۔ ان تمام لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھا جائے جو تکلیفوں سے کراہ رہے ہیں، ان نفوس کو اطمینان اور تسلی دی جائے جو خوف و ہراس میں مبتلا ہیں۔ 
 (مسجد نبویؐ میں دیئے گئے ایک خطبے سے ماخوذ)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK