Inquilab Logo

خدیجہ الکبریٰ ؓ کی دُور بینی نے انہیں ’امّ المومنین‘ بنا دیا

Updated: March 21, 2024, 1:27 PM IST | Afsha naved | Mumbai

وہ جاہ و حشم کی مالک کسی بڑے سردار سے نکاح کرکے باقی زندگی چین و سکون سے بسر کر سکتی تھیں لیکن انہوں نے مکہ کے دریتیم کا انتخاب کیا۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

امّ المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بارے میں ہمیں جو معلومات ہیں اتنی ہی ہیں کہ…
سن پیدائش، سن وفات۔ قریش کی مالدار خاتون تھیں۔ صادق و امین کی حیثیت سے آپﷺ کی شہرت کی وجہ سے انہوں نے اپنا سامان تجارت لے جانے کے لئے آپؐ کا انتخاب کیا۔ غلام میسرہ جو شام کے تجارتی سفر میں ساتھ تھا، اس کی گواہی سے متاثر ہوکر اپنی سہیلی نفیسہ کے ذریعے آپؐ کو نکاح کا پیغام بھیجا … آپؐ کے چچا ابو طالب نے نکاح پڑھایا … پہلی وحی کی بابت کہ آپؓ نے کس طرح حضورؐ کی ہمت افزائی کی۔ ایمان لانے والوں میں آپؓ پہلے نمبر پر ہیں … شعیب ابی طالب کی سختیاں آپ نے بھی برداشت کیں۔ آپ بہت صابر و شاکر اور استقامت والی خاتون تھیں۔ 
افسوس اس بات کا ہے کہ ہم اپنے ہیروز کو اس طرح بیان ہی نہیں کرتے کہ ہماری نئی نسل ان کو رول ماڈل بنائے۔ 
یہ سچ ہے کہ امہات المومنینؓ اور بناتِ رسولؐ کے بارے میں بہت محدود معلومات محفوظ کی جاسکیں، لیکن جو بھی روایات ہم تک پہنچتی ہیں اس سے اللہ کے نبی کے گھرانے کی خواتین کی عزیمت و استقامت کا ایک بہت روشن پہلو ہمارے سامنے آتا ہے۔ 
جہاں تک امہات المومنین کا تعلق ہے تو قرآن کریم میں ارشاد ہے:
” مومنین پر نبی ؐان کی جانوں سے بڑھ کر ہیں اور نبیؐ کی ازواج مومنین کی مائیں ہیں۔ “ (سورۃ الاحزاب:۶)
یہ کتنی بڑی بات ہے کہ اللہ کے نبیؐ کے نکاح میں آنے کے بعد وہ سارے مسلمانوں کی ماں قرار پائیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم ساری عمر اپنی ماؤں کو ہی پکارتے رہتے ہیں۔ ایک طرف ہم میں سے ہر ایک کا دل اپنی ماں کی محبت سے لبریز ہےاوردوسری طرف ہم ان ماؤں کو جانتے تک نہیں جو پوری امت کی مائیں ہیں۔ جیسے ہم اپنی ماں کے احسان کا بدلہ نہیں اتار سکتے اسی طرح بحیثیت امتی ہم امت کی ان عظیم ماؤں کے احسانات کا بدلہ بھی نہیں اتار سکتے۔ اگرچہ ان عظیم ہستیوں کے لئے یہی کافی تھا کہ ان کا تعلق اور نسبت دنیا کے سب سے عظیم انسان کے ساتھ تھی لیکن انہوں نے اپنی بلندکرداری اور استقامت سے بھی اسکی گواہی پیش کی کہ وہ اس کی مستحق ہیں کہ یہ اعلیٰ ترین اعزاز ان کی ذات کے ساتھ وابستہ ہو۔ ہمیں ضرورت ہے بار بار تاریخ کے ان دریچوں میں جھانکنے کی۔ 
حضرت خدیجہؓ کے حوالے سے جو روایات ہم تک پہنچی ہیں ان میں بیان کرنے کی بات یہ ہے کہ چالیس برس کی خاتون آج سے تقریباً ڈیڑھ ہزار برس قبل ایک قدم اٹھاتی ہیں۔ اپنی قوت کو پہچانتی ہیں، سماج میں اپنے مقام سے آگاہ ہیں۔ بیوگی کے باوجود خود پر بےچارگی طاری نہیں کرتیں۔ یہودی علماء سے آپ سن چکی تھیں کہ توریت میں جس نبی کی آمد کی خبر ہے ان کا زمانہ قریب آچکا ہے۔ آپؐ صادق اور امین۔ آپؐ کی شخصیت کی آہٹیں زمانہ محسوس کر رہا تھا۔ حضرت خدیجہؓ اسی سماج کا حصہ تھیں۔ زندہ و بیدار دل رکھنے والی، آنے والے وقت میں اپنا رول ادا کرنے کیلئے آمادہ و تیار تھیں۔ 
ہمارے ہاں ۴۰؍ سال کی بیوہ عورت معاشرے میں ”بےچاری‘‘ ہوتی ہے، لفظ بیوہ خود ہی بے چارگی کا عکاس بن گیا ہے۔ انہوں نے زمانے کو اپنے اوپر ترس کھانے دیا نہ وہ زمانے سے مرعوب ہوئیں کہ لوگ کیا کہیں گے؟
انہوں نے ایک پروایکٹو ایجنڈے پر کام کیا اور بتایا کہ زمانے کو کیسے اپنے پیچھے چلایا جاتا ہے؟
بڑے بڑے سرداروں کے پیغام انہوں نے ٹھکرا دیئے تھے۔ 
وہ جاہ و حشم کی مالک کسی بڑے سردار سے نکاح کرکے باقی زندگی چین و سکون سے بسر کر سکتی تھیں لیکن انہوں نے مکہ کے دریتیم کا انتخاب کیا۔ جن سے وہ معاوضے پر تجارتی خدمات حاصل کر چکی تھیں۔ 
یہاں ان کا ایکسپوژر دیکھنے کی چیز ہے۔ ان کی نظر کہاں تک دیکھ رہی تھی۔ اپنے فیصلوں میں وہ کس قدرمضبوط تھیں۔ اپنا فیصلہ سنا کر انہوں نے سماج کے ردعمل کی پروا نہ کی۔ اور یہ جذباتی فیصلہ نہ تھا۔ فیصلہ بھی ان کا ذاتی تھا اور فیصلہ کی وجہ ایک تو سماج میں آپ ؐ کی نیک نامی دوسرے شام کے سفر سے واپسی پر آپ کے غلام میسرہ کی گواہی تھی۔ 
روایات میں ہے کہ نکاح کے دن حضور ﷺاپنے چچا ابو طالب کے ساتھ حضرت خدیجہؓ کے گھر پہنچے اور ابوطالب نے یہ خطبہ دیا: ’’ سب تعریف اللہ کےلئے ہے جس نے ہمیں ابراہیمؑ کی اولاد اسماعیلؑ کی کھیتی اور سعد کی نسل میں پیدا کیا۔ ہمیں بیت اللہ کا پاسبان اور حرم کا نگہبان بنایا جو حرم اور امن کی جگہ ہے۔ اللہ کا شکر اس نے ہمیں لوگوں پر حاکم بنایا اور ہمارے شہر کو برکت سے نوازا۔ میرے بھتیجے محمد بن عبداللہ وہ شخص ہیں کہ جن کے شرف ووقار، اعلیٰ ظرفی اور فضیلت اور دانائی کا قریش کے کسی بھی آدمی سے موازنہ کیا جائے تو محمد بن عبداللہ کا پلڑہ بھاری نکلے گا۔ ‘‘ 
اس کے بعد ورقہ بن نوفل جو حضرت خدیجہؓ کے چچا زاد بھائی تھے انہوں نے بھی خطبہ دیا نکاح پر اپنی خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ میں خدیجہ بنت خویلد کو چار سو مثقال کے بدلے محمد بن عبداللہ کی زوجیت میں دیتا ہوں۔ 
آپؐ اپنی عمر کے چالیسویں برس غار حراء میں تشریف لے جانے لگے جو مکہ مکرمہ سے تین میل کے فاصلے پر شمال مشرق میں واقع ہے۔ اسی دوران میں پہلی وحی نازل ہوئی اور آپؐ انتہائی اضطراب کی کیفیت میں گھر تشریف لائے اور فرمایا: زملونی زملونی…مجھے اڑھاؤ۔ مجھے اڑھاؤ۔ سیدہ خدیجہ کمبل اڑھاتی ہیں، سرہانے بیٹھتی ہیں، آپؐ فرماتے ہیں : خدیجہ مجھے خدشہ ہے کہ میری جان نہ نکل جائے۔ سیدہ خدیجہؓ سے زیادہ کون آپؓ کا مونس و غمگسار ہوسکتا تھا۔ وہ خلوت اور جلوت کی ہمراز تھیں ۔ اس عظیم تاریخی موقع پر انہوں نے جو گواہی دیں چودہ سو برس سے وہ خوبصورت الفاظ تاریخ سے چھن چھن کر ہم تک پہنچتے ہیں :
” ہرگز نہیں، خدا کی قسم ! خدا آپ کو ضائع نہ کرے گا۔ آپ عزیزوں، رشتے داروں سے حسن سلوک کرتے ہیں، کمزوروں، بےکسوں اور غریبوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ,مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں ، آپ سچے انسان ہیں۔ “

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK