Inquilab Logo

خواجہ اجمیریؒ نے بتایا کہ صفائے قلب، اخلاص ورضا اور للّٰہیت کی معراج کیا ہے

Updated: February 04, 2022, 3:28 PM IST | Mufti Muneeb Rahman | Mumbai

خواجہ صاحب اور تمام صوفیائِ کرام کی خانقاہوں میں لنگر کا نظام اسی وجہ سے چلا کہ یہ خانقاہیں غریب اور نادار طبقات کیلئے دارالکفالت کی حیثیت رکھتی تھیں

 Khawaja Moinuddin Chishti`s Astana is always crowded with pilgrims.Picture:INN
خواجہ معین الدین چشتیؒ کے آستانے پر ہمہ وقت زائرین کا ہجوم رہتا ہے۔ تصویر: آئی این این

 خواجہ معین الدین حسن چشتی سِجزی اجمیری رحمہ اللہ علیہ برصغیر ہند میں تصوف کے سلسلۂ چشتیہ کے بانی ہیں۔ سلسلۂ چشتیہ حضرت ابواسحاق شامی کی طرف منسوب ہے ،جو حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ کے توسط سے حضرت علی رضی اللہ عنہ تک جا پہنچتا ہے۔ کہا جاتاہے کہ ہرات کے قریب چشت نامی ایک گاؤں ہے اور چشتی اسی کی طرف منسوب ہے۔ عام طورپر اُنہیں سَنجری کہاجاتاہے ، لیکن اُن کے وطنِ مالوف سجستان کی طرف نسبت کے حوالے سے صحیح لفظ سَجِزہے۔ خواجہ معین الدین حسن سِجزی کا سلسلۂ بیعت و خلافت خواجہ عثمان ہارونی (بعض روایات میں ہَروَنی) سے ہے۔  ہارون یاہَروَن ایک قصبے کا نام ہے۔ خواجہ اجمیریؒ  نے حضرت سید علی ہجویری رحمہ اللہ تعالیٰ کے مزار پر مراقبہ کیا اور یہ شعر انہی کی طرف منسوب ہے : گنج بخش فیضِ عالَم مَظہرِ نورِ خدا ناقصاں را پیرِ کامل، کاملاں را رہنما خواجہ معین الدین سلطان شہاب الدین محمد غوری، جن کا اصل نام مُعِز الدین محمد غوری تھا، سے پہلے اجمیر پہنچے۔ خواجہ معین الدین چشتی ؒ نے پرتھوی راج کے زمانے میں اپنی خانقاہ بنائی۔ لفظِ خانقاہ کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ یہ ”خوانگاہ‘‘ کا مُعَرَّب ہے اور اس کے معنی ہیں: ”کھانے کی جگہ‘‘   یعنی جہاں فقراء اور مسافروں کے لیے لنگر کا انتظام ہو اور بعض نے اسے ”خان اور قاہ‘‘ سے مُرکب مانا ہے، اس کے معنی ہیں: ”عبادت اور دعا کی جگہ‘‘۔ دراصل ”خانقاہ‘‘ سے مراد وہ جگہ ہے جہاں اللہ تعالیٰ سے لوَ لگانے والے باصفا بندے دنیا کی لذتوں سے کنارہ کش ہوکر اللہ تعالیٰ کے ذکر و فکر میں مشغول رہیں، اسی کو قرآن مجید میں ”تَبَتُّل‘‘سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ”تَبَتُّلْ‘‘کا معنی ہے: سب سے کٹ کر اپنی توجہ خالص اللہ تعالیٰ کی طرف مبذول کیے رکھنا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ”اور آپ اپنے رب کے نام کا ذکر کرتے رہیں اور سب سے منقطع ہوکر اُسی کے ہو رہیں ،(المُزَمِّل:۰۸)‘‘۔ صوفیائے کرام سب سے پہلے توبہ کے ذریعے سالک کے قلب کو پاک کرتے ہیں اور پھر اس پر اللہ تعالیٰ کی جَلالَت اور محبت کانقش ثبت کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی نیا اور پائیدار رنگ چڑھانے کے لیے سب سے پہلے لوحِ قلب کو پاک کرناضرور ی ہے تاکہ دنیا اور عَلائقِ دنیا یعنی ماسِوا  اللہ ہر چیز کی محبت کے غلبے سے دل پاک ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے غلَبۂ محبت کا شائبہ نہ رہے۔ اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے:”اللہ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے، (الاحزاب:۰۴)‘‘، یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی شخص کے دل میں شیطان کا بھی ٹھکانا ہو اور وہ محبتِ الٰہی کا بھی مرکز بنا رہے۔ توبہ کے بعد انسان ایک نئی روحانی زندگی میں داخل ہوتاہے اور ماضی کے گناہوں سے آلودہ زندگی سے رشتہ توڑدیتا ہے، چنانچہ مشائخِ چشت نے توبہ کی تین قسمیں بتائی ہیں: (۱) ”توبۂ ماضی‘‘ یعنی انسان ماضی کی معصیتوں سے صدقِ دل کے ساتھ توبہ کرے اور اُن کی تلافی کے لیے شریعت نے جو طریقہ بتایا ہے، اس پر کاربند ہو۔ الغرض اللہ اور اس کے بندوں کے تمام حقوق جواُس نے پامال کیے ہیں ، اُن پر دل سے نادم ہو اور شریعت کے اَحکام کے مطابق اُن کی تلافی کرے، ورنہ صرف زبانی توبہ کوئی معنی نہیں رکھتی ۔ (۲)”توبۂ حال‘‘ اس سے مراد یہ ہے کہ بندۂ مومن کا حال اِطاعتِ الٰہی اور اِطاعت ِ رسول ﷺ کے سانچے میں ڈھل جائے۔  (۳) ”توبۂ مستقبل‘‘ اس سے مراد یہ ہے کہ اپنی آئندہ زندگی میں اللہ تعالیٰ کی حقیقی بندگی اور اس کے رسولِ مکرّم ﷺ کی تعلیمات پر پورے طریقے سے کاربند رہنے کااپنے خالق سے عہدوپیمان کرے۔  خواجہ معین الدین حسن اجمیری کے مکمل حالات ثقہ اور مستند ذرائع سے دستیاب نہیں ہیں، کچھ اُن کے اقوال ہیں اور زیادہ تر اُن کی کرامات ہیں جو واعظین پُر اثر انداز میں بیان کرتے ہیں اور عامۃ المسلمین انہیں سن کر روحانی سرور حاصل کرتے ہیں ۔ بزرگانِ دین کے تذکرے کا بنیادی مقصد تواُن کی سیرت وکردار اور شِعار سے سیکھنا اور اس پر عمل کرنا ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان اُن کی اتباعِ سنت اور عزیمت و استقامت کی زندگی کواپنے لیے مشعلِ راہ اور نمونۂ عمل بنائیں۔ خواجہ صاحب جب ہندوستان میں وارد ہوئے تو یہاں کے سماج میں ذات پات کا نظام تھا، کچھ لوگ ”اَچھوت‘‘کہلاتے تھے، یعنی انہیں اتنا حقیر اور قابلِ نفرت سمجھا جاتا تھا کہ ان سے خدمت تو لی جاتی تھی، مگر اُن سے بدن کا مَس (Touch) ہونا بھی گوارا نہ تھا۔ ہندو سماج چار ذاتوں میں منقسم تھا، ان میں برہمن سب سے اعلیٰ اور شُودر سب سے حقیر ذات تھی، انگریزوں نے ان کے لیے Scheduled Castکی اصطلاح وضع کی تھی، یعنی پست ذاتوںکے نام ایک الگ فہرست میں درج کر رکھے تھے، آج کل ہندوستان میں انہی کو دَلِت کہا جاتا ہے۔ قرآن نے اِن زیردست اورکمزورطبقات کو ”مُسْتَضْعَفِیْن‘‘(Oppressed Class)  سے تعبیر فرما یا ہے ۔  صوفیائے کرام کا شِعار یہ رہا ہے کہ انہوں نے سماج کے اِن پست طبقات اور دھتکارے ہوئے لوگوں کو انسانیت کا وقار اور احترام عطا کیا، انہیں اپنے ساتھ بٹھایا ، انہیں محبت اور اعتماد عطا کیا   جس کی وجہ سے وہ ان کے گرویدہ ہوگئے۔ خواجہ معین الدین حسن اجمیری اور تمام صوفیائِ کرام کی خانقاہوں میں لنگر کا نظام اسی وجہ سے چلا کہ یہ خانقاہیں غریب اور نادار طبقات کیلئے  دارالکفالت کی حیثیت رکھتی تھیں۔    انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام پر سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں اکثریت انہی کمزور طبقات کے لوگوں کی ہوتی تھی۔ یہ فطری بات ہے کہ باطل مذہب کے نام پر جن طبقات نے اجارہ داری قائم کر رکھی ہوتی ہے، وہ اپنی مراعات اور برتر سماجی حیثیت سے دستبردار ہونے کیلئے آسانی سے آمادہ نہیں ہوتے اور ہمیشہ حق کی مزاحمت کرتے ہیں، یعنی وہ ’’اسٹیٹس کو‘‘ کے محافظ ہوتے ہیں، کیونکہ اس میں ان کا اپنا طبقاتی مفاد ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک موقع پر مکے کے سرداروں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا : چلیے! ہم آپ کی بات سن لیتے ہیں، لیکن آپ کے ارد گرد جو زیردست طبقات کے لوگ ہیں، جب ہم آپ کے پاس آئیں توآپ انہیں اپنے پاس سے اٹھا دیا کریں، کیونکہ اِن کا ہمارے برابر بیٹھنا ہمارے شایانِ شان نہیں ہے، یعنی انہوں نے دین کی بات سننے کیلئے بھی خصوصی سماجی حیثیت کا مطالبہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ کی شدید خواہش تھی کہ لوگ کسی بہانے اللہ کے پیغامِ ہدایت کو سن لیں، سو آپ کے دل میں خیال آیا کہ اِن کی یہ حُجت بھی پوری کردی جائے مگر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:”اور آپ اپنے آپ کو اُن لوگوں کے ساتھ وابستہ رکھیںجو صبح شام اپنے رب کی رضا چاہتے ہوئے اس کی عبادت کرتے ہیںاور آپ اپنی نگاہِ التفات کو اُن سے نہ ہٹائیں ۔  (الکہف:۲۸)‘‘  پس خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کا اندازِ دعوت وتبلیغ اِسی شِعارِ نبوت کے مطابق تھا۔آپ نے ہندو سماج میں انسان کی بے توقیری کے باطل مذہبی نظریے کو دعوتِ اسلام کی ترویج کے لیے اپنی طاقت میں تبدیل کردیا اور اسی باعت مرجعِ خلائق بن گئے۔ خواجہ اجمیریؒ نے فرمایا: صفائے قلب، اخلاص ورضا اور للّٰہیت کی معراج یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں سمندر جیسی سخاوت، آفتاب جیسی شفقت اورزمین جیسی تواضع پیدا ہوجائے، یعنی سمندر اور آفتاب کی طرح اُس کا فیض اعلیٰ وادنیٰ کی تمیز کے بغیر سب کیلئے عام ہواور اس فیض رسانی میں تکبر اور احسان جتلانے کا شائبہ نہ ہو،بلکہ زمین جیسی تواضع ہوجواپناسینہ سب کے لیے کشادہ رکھتی ہے اور کسی کو محروم نہیں رکھتی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK