Inquilab Logo

آئیے، اس ماہِ مبارک کو احساس کی بیداری کا ذریعہ بنالیں!

Updated: March 15, 2024, 10:54 AM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

احساس کی بیداری بنی نوع انسان کی ترقی اور کامیابی کے لئے بہت ہی ضروری ہے۔ یہ زندگی کا وہ لطیف عنصر ہے جس سے انسان اپنے آپ، اہل خا نہ اور سماج کی کیفیت سے آگاہ رہتا ہے اور ردعمل کے طور پر بھلائی اور خیر وجود میں آتا ہے۔

The sense of man should be awake and he should be aware of the need of himself and the people around him. Photo: INN
انسان کا احساس بیدار رہے اور وہ خود اپنے آپ کی اور آس پاس کے لوگوں کی ضرورت سے بھی آگاہ رہے۔ تصویر : آئی این این

احساس کی بیداری بنی نوع انسان کی ترقی اور کامیابی کے لئے بہت ہی ضروری ہے۔ یہ زندگی کا وہ لطیف عنصر ہے جس سے انسان اپنے آپ، اہل خا نہ اور سماج کی کیفیت سے آگاہ رہتا ہے اور ردعمل کے طور پر بھلائی اور خیر وجود میں آتا ہے۔ چونکہ اسلام سراسر بھلائی اور خیر خواہی کا نام ہے، اس وجہ سے اس کی تعلیمات میں بکثرت ایسی باتوں کی تلقین کی گئی ہے جس سے انسان کا احساس بیدار رہے اور وہ خود اپنے آپ کی اور آس پاس کے لوگوں کی ضرورت سے بھی آگاہ رہے۔ اس تعلق سے اسلام کا کمال یہ ہے کہ اس نے جانوروں اور غیر جاندار چیزوں کے تعلق سے بھی انسان کے احساس کو بیدار کیا ہے اور ان کے حقوق کی بھر پور ترجمانی کی ہے۔ یہاں ہم چار مختلف احادیث کو پیش کر رہے ہیں جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان کا اپنے آپ، آس پاس کے لوگوں ، جانوروں اور غیر جاندار کے تعلق سے بیداری ضروری ہے۔ 
 lپہلی حدیث یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اپنے بندے پر اپنی نعمت کا اثر دیکھنا پسند کرتا ہے۔ “ (ترمذی) 
 lدوسری حدیث حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ”وہ کامل مومن نہیں ہوسکتا جو پیٹ بھر کر کھالے اور اس کا ہمسایہ اس کے پہلو میں بھوکا ہو۔ “(بیہقی) 
 lتیسری حدیث یہ ہے کہ نبی اکر صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو مسلمان کوئی درخت لگاتا ہے، یا کھیتی کرتا ہے اوراس درخت یا کھیتی میں سے کوئی چڑیا، یا آدمی، یا جانور کھاتا ہے تواس لگانے والے یا بونے والے کو صدقہ کا ثواب ملتا ہے۔ “ (بخاری) 
 lاور چوتھی حدیث یہ ہے کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ ہم ایک بار گھر کے سامنے بیٹھ کر باتیں رہے تھے کہ رسولؐ اللہ تشریف لائے اور فرمایا ”تم لوگ راستہ پر کیوں بیٹھ جاتے ہو، اس سے بچو۔ ‘‘ ہم نے عرض کیا کہ ہم ایسے کام کے لئے بیٹھے ہیں جس میں کوئی حرج نہیں ہے، ہم تو آپس میں باتیں اور تبادلہٴ خیال کے لئے بیٹھے ہیں ، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اگر بیٹھنا ہی ہے تو اس کا حق اداکرو، وہ یہ ہے کہ نظر نیچی رکھو، سلام کا جواب دو اور اچھی بات کرو۔ “ (ابو داؤد)

یہ بھی پڑھئے:دوعظیم خوشیاں حاصل کرنے کے لئے تیار ہوجائیے

 مذکورہ احادیث کا مشترکہ پیغام یہ ہے کہ انسان ہمہ وقت مختلف سطحوں اور پہلو ؤں کے اعتبار سے بیدار رہے اور زندگی کا بھر پور ثبوت پیش کرے۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ جس اسلام نے ہمہ جہت احساس کو بیدار رکھنے کی تلقین کی ہے آج اسی کے ماننے والوں کی اکثریت بے حسی کی دبیز چادر تانے سوئی ہوئی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس متاع گراں مایہ کے لٹ جانے کا انہیں کوئی غم بھی نہیں ہے۔ علامہ اقبال نے بہت پہلے اس درد کو یوں بیان کیا تھا:
وائے نادانی متاع کارواں جاتا رہا 
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
 غور کیا جائے تو آج کے اس انقلابی دور میں مسلمانوں کے غیر انقلابی طرز عمل کی ایک اہم وجہ یہی بےحسی ہے۔ آج مسلمانوں کے احساس کا دھاگا اس قدر کمزور ہے کہ ہر مقام اور ہر سطح پر وہ الگ الگ کھڑے نظر آتے ہیں اور دشمن انہیں لقمہ تر سمجھ کر نشانہ بناتے ہیں ۔ مزید تباہی سے بچنے کے لئے مذکورہ مسئلہ کے حل کی کو شش بلا تاخیر ضروری ہے۔ اس کے لئے رمضان المبارک سے بہتر کوئی اور وقت نہیں ہوسکتا ؛ کیونکہ رمضان کے روزوں کے جہاں بہت سارے دینی اور دنیاوی فائدے ہیں وہیں ایک اہم فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے انسان کے اندر احساس کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ قابلِ فکر بات یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سارے لوگ بیداری کے اس موقع کو بھی اِس طرح گزارتے ہیں گویا کہ یہ اُن کی غفلت کی تسکین کے لئے وارد ہوا ہے۔ ایک ایسا موقع جب بھوک اور پیاس کو محسوس کرکے غریبوں اور حاجت مندوں کے لئے ہمیں بیدار ہوجانا چاہئے؛ ہم کوشش یہ کرتے ہیں کہ ہمارا رمضان اس طرح گزرے کہ ہمیں بھوک اور پیاس کا احساس ہی نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ ہم سہل پسند لوگ اپنے اِس طرزِ عمل سے رمضان المبارک کے مقاصد میں سے غمخواری کاا حساس بیدار کرنے والا مقصد گنوا دیتے ہیں اور اس طرح سال در سال آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہوتے جاتے ہیں۔ 
  آئیے ہم اس رمضان کو احساس کو بیدار کرنے والا رمضان بنا لیں اور ایک دوسرے سے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مربوط ہو جائیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK