Inquilab Logo

عوام کی کچھ ایسی ذہن سازی کی گئی گویا اس سے قبل کسی فلاحی اسکیم کا کوئی وجود ہی نہیں تھا

Updated: May 05, 2024, 12:55 PM IST | Ghulam Arif | Mumbai

ہندوستانی سیاست بالخصوص ’مودی دور‘ پر مشہور صحافی پر راج دیپ سردیسائی نے ۲؍ اہم کتابیں ’۲۰۱۴: دی الیکشن دیٹ چینجڈ انڈیا‘ اور ’۲۰۱۹: ہاؤ مودی وون انڈیا‘ تصنیف کی ہیں، زیرنظر کالموں میں انہیں دونوں کتابوں کا اجمالی جائزہ لیا گیا ہے۔

Rajdeep Sardesai, a famous journalist, has written 2 important books on Indian politics, especially the `Modi era`. Photo: INN
ہندوستانی سیاست بالخصوص ’مودی دور‘ پرمشہور صحافی پر راج دیپ سردیسائی نے ۲؍ اہم کتابیں لکھی ہیں۔ تصویر : آئی این این

ملک میں عام انتخابات جاری ہیں۔ پہلے دو مرحلوں میں رائے دہندگان کے جوش و خروش کی کمی واضح اشارہ کرتے ہیں کہ اب کی بار کوئی لہر نہیں ہے۔ البتہ ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ ءکے انتخابات کا معاملہ مختلف تھا۔ ملک و بیرون ملک کے سیاسی مبصرین، ان دو انتخابات سےمتعلق معلومات کی فائلیں کھنگال رہے ہیں تاکہ موجودہ صورتحال سے مشابہت یا عدم مماثلت اور ممکنہ اثرات پر رائے زنی کرسکیں۔ یہ سوال آج بھی تازہ ہے اور بار بار زیر بحث آتا ہے کہ۲۰۱۴ءاور۲۰۱۹ء میں بی جے پی کی زبردست کامیابیاں کیا صرف مودی لہر کا نتیجہ تھیں یا دیگرعوامل بھی کارفرما تھے۔ مشہور صحافی راج دیپ سردیسائی نے مذکورہ دونوں انتخابات کو موضوع بناکر اپنے تجربات کو دو مختلف کتابوں کی شکل میں پیش کیا ہے۔ ’’ الیکشن جس نے ہندوستان کو بدل دیا‘‘ اور’’۲۰۱۹: مودی نے ہندوستان کو کیسے جیتا؟‘‘ مذکورہ انتخابات کے بعد شائع شدہ یہ دونوں کتابیں خوب فروخت ہوئیں۔ دونوں نے قارئین کو تاثرات و تجزیات پر مشتمل بڑا دلچسپ تجرباتی مواد فراہم کیا۔ 
 سردیسائی، ملک کے سیاسی تبصرہ نگاروں میں ممتازمقام رکھتے ہیں۔ ٹیلی ویژن اورسوشل میڈیا پر فعال راج دیپ پرانے وقتوں کے صحافتی اصولوں پر عمل پیرا رہتے ہیں۔ اپنے لِبرل نقطہ نظرکو بیان کرتے وقت اس بات کا بالکل خیال نہیں کرتے کہ ان کے تبصروں کو نظر انداز کردیا جائیگا یا وہ موضوعِ مذاق بن جائیں   گے۔ ابھی گزشتہ ماہ انڈیا ٹوڈے کانکلیو میں انھوں نے مسلمانوں کی سیاسی پسماندگی کیلئے حکومت، پارٹیوں اور میڈیا پر ببانگ دہل تنقید کی تھی۔ ان کی جرأتِ گفتار پر اُس محفل میں موجود سبھی ایڈیٹر، انگشت بدنداں رہ گئے تھے۔ راج دیپ نے ۹۲۔ ۹۳ء میں ممبئی فسادات اور پھر ۲۰۰۲ء میں گجرات فسادات کی حقیقت پسندانہ اور بیباک رپورٹنگ کی تھی۔ اسی وجہ سے بہت سوں کیلئے وہ ایک ناپسندیدہ شخصیت ضرور بنے لیکن انھوں نے اس بات کی کبھی پروا نہیں کی۔ ایئرکنڈیشنڈ اسٹوڈیو اینکر سے زیادہ، سردیسائی نے ہمیشہ خود کو ایک عام رپورٹر کی حیثیت سے زمینی حقائق کی تحصیل میں سرگرداں رکھا۔ ایک تیز سیاسی حِس اور تعلقات بنانے کا فن ان کی ایسی خوبیاں ہیں جن کی مدد سے وہ معاملات کی تہ تک پہنچ گہری بصیرت حاصل کرلیتے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: یوپی ایس سی امتحان میں مسلم طلبہ کی نمایاں کامیابی کا پیغام :ستاروں سےآگے جہاں اور بھی ہیں

میڈیا اور ایک مختلف مودی
راج دیپ چشم دید واقعات اور ذاتی تجربات کی ایک سلسلہ وار داستان پیش کرتے ہیں۔ لمبےعرصے سے ان کے نریندر مودی کے ساتھ بلاواسطہ تعلقات تھے۔ راج دیپ، مودی کی پالیسیوں کے ناقد رہے ہیں۔ اس کے باوجود وہ مودی کی ذاتی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ مودی کے مزاج کے کئی پہلوؤں کو کھول کھول کر بیان کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ اپنے سیاسی کریئر کے آغاز ہی سے نریندر بھائی، ذرائع ابلاغ کی اہمیت کو خوب سمجھتے تھے۔ میڈیا والوں سے تعلقات اورانٹرویو وغیرہ کے معاملے میں وہ آج سے بالکل مختلف تھے۔ سردیسائی روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ پرائم ٹائم کے ٹی وی شو سے کچھ ہی دیر قبل بی جے پی کے نمائندہ وجے ملہوترا نے معذرت کرلی۔ راج دیپ نے مودی کو فون پر یہ معاملہ بتایا اور متبادل کے طور پر شو میں شرکت کی گزارش کی۔ مودی اس زمانے میں ایک پرچارک کی حیثیت سے دہلی میں مُقیم تھے۔ ان کے پاس کار بھی نہیں تھی۔ راج دیپ نے ان سے کرایہ ادا کرنے کے وعدے کے ساتھ، بذریعہ ٹیکسی جلد از جلد آنے کی درخواست کی۔ وقت بہت کم تھا۔ لائیو شو بس شروع ہونے ہی والا تھا۔ شو کے اینکر پریشان تھے کہ چند منٹ قبل ہانپتے ہوئے مودی اسٹوڈیو پہنچے۔ 
 جولائی ۲۰۰۱ء میں جنرل پرویز مشرف آگرہ چوٹی مذاکرات کیلئے ہندوستان آئے تھے۔ اس وقت راج دیپ نے ٹی وی پر مسلسل کئی گھنٹے چلنے والا ایک شو پیش کیا تھا۔ اتنی دیر تک لائیو پینل ڈسکشن میں بی جے پی کا نقطہ نظر بیان کرنے کیلئے ایک ترجمان کی ضرورت پیش آئی۔ راج دیپ نے مودی کو دعوت دی۔ پروگرام، پارلیمنٹ کے قریب وجے چوک سے نشر کیا جانا تھا۔ جب مودی آئے تو بارش ہونے لگی۔ دوگھنٹے موسلا دھار بارش میں ایک چھاتا لئے مودی صبر کے ساتھ انتظار کرتے رہے لیکن یہ سب ۲۰۰۲ء گجرات فسادات سے پہلے کے واقعات ہیں۔ راج دیب نے مسلم مخالف فسادات کی نہایت دیانت داری سے رپورٹنگ کی اور یہی نریندر بھائی کے ساتھ ان کے تعلقات میں دراڑ کی وجہ بنی۔ 
الیکشن جس نے ہندوستان کو بدل دیا
 سردیسائی ۲۰۱۴ء کے تبدیلیٔ اقتدار کی وجوہات کو کئی اسباق میں تقسیم کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ مودی نے خود بی جےپی میں اپنے سخت اور غیر لچکدار رویے کے باوجود کس طرح جگہ بنائی۔ پارٹی میں اپنے مخالفین ہی کو ٹھکانے نہیں لگایا بلکہ سنجے جوشی جیسے سادہ ناقدین تک کو لے کر اَڑ گئے اور ان کو چلتا کردیا۔ آرایس آیس کو قائل کرنا بھی ایک مشکل کام تھا۔ پھر اس حقیقت کا بالکل بروقت ادراک کہ ہندوستان کے ووٹروں میں بڑی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ آبادی کا بہت بڑا حصہ نوجوان ہے، توانائی سے پر اور آگے بڑھنے کی امنگ رکھنے والا ہے۔ اس طبقے کیلئے ٹیکنالوجی کوئی الجھن نہیں اور رفتار زندگی کی اہم ضروت ہے۔ اسی نفسیات پر داؤ کھیلا گیا۔ ایک پرجوش اور مہنگی الیکشن مہم چلائی گئی۔ بطور خاص ہندی بیلٹ پر یلغار کے تفصیلی حکمت عملی تیار کی گئی۔ دوسری جانب کرپشن کے الزامات سے گھری، کمزور، غیر فعال، سست رفتار، پرانے ڈھنگ کی بیمار پارٹی ہونے کی کانگریس کی شبیہ نے مودی کیلئے کام آسان کردیا۔ 

یہ بھی پڑھئے: ’’اب اقتدارکے حصول کیلئے نمائندوں کو انتھک محنت کرنی پڑتی ہے یا کم از کم ایسا دکھانا پڑتا ہے‘‘

۲۰۱۹ء میں مودی نے ہندوستان کیسے جیتا ؟
ہم جیسے ناقدین، مودی جی اور بی جے پی کی فتوحات کیلئے اکثر شارٹ کٹ سازشی وجوہات تلاش کرتے ہیں۔ حصول اقتدار کیلئے ان کی حکمت عملیوں، تنظیمی پختگی اور انتھک محنت جیسے پہلوؤں پر غور کرنے کی ذہن کو تکلیف نہیں دیتے۔ البتہ راج دیپ نے ان عوامل پر بھرپور روشنی ڈالی ہے۔ اقتدار میں آتے ہی اگلے الیکشن کی تیاری کیلئے ایک شبیہ قائم کی گئی کہ مودی کا کوئی متبادل نہیں۔ لوگوں نے ان کو ایک عظیم ہندو سمراٹ کی شکل میں دیکھا جو غریبوں کا مسیحا بھی تھا اورعا لمی سطح پر ہندوستان کو عزت و احترام دلوانے والا بھی۔ ایک دیوتا جیسی تصویر لوگوں کے ذہنوں میں بٹھائی گئی۔ صدارتی طرز حکومت کی طرح صرف وزیراعظم کے نام پر ووٹ مانگے گئے۔ 
 دوسرا اہم عنصر تھا امیت شاہ کے ذریعہ تیار کی گئی انتخابی مشین۔ شاہ کی شخصیت اور ان کے کٹّرمزاج پر بھی مصنف نے لکھا ہے۔ ممبرشپ مہم، اپنے اراکین اور حامیوں کا ڈیٹا بیس، مسلسل مہمات اور بوتھ کی سطح تک ایک مضبوط ڈھانچہ، ۵۰؍ ہزار وہاٹس ایپ گروپوں، آٹی سیل اور انتخابی فہرست کے صفحات تک کی مدد سے، بی جے پی اپنے برانڈ اور پیغام کو جڑوں تک لے جانے میں کامیاب رہی۔ شاہ نے جغرافیائی طور پر پارٹی کو پھیلانے میں بھی کامیابی حاصل کی، خاص طور پر مغربی بنگال میں۔ 
  پیسے کا جادو بھی سر چڑھ کر بولا۔ سب سے مہنگے الیکشن میں بی جے پی تمام پارٹیوں میں سب سے زیادہ دولتمند تھی۔ پھر گیس سلنڈر سے لے کر بیت الخلاء تک، دیہی مکانات سے لے کر بینک کھاتوں تک عوام کی ذہن سازی اس طرح کی گئی جیسے اس سے پہلے ہندوستان میں کسی فلاحی اسکیم کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ نیز یہ نفسیاتی پیغام رسانی کہ غریبوں کو ملنے والے فوائد حکومت نہیں براہ راست مودی جی کی دین ہوں۔ ہندوتوا کے ایجنڈے کو تیزی سے پھیلایا گیا۔ شہری درمیانی کلاس اور اعلیٰ ذاتوں سے آگے بڑھ کر اب بی جے پی، او بی سی اور دلتوں کی بھی پارٹی تھی۔ ۷۰؍ برسوں تک مسلمانوں کی منہ بھرائی جیسے احساس محرومی کے ساتھ لوگوں میں ہندو ہونے ایک نیا احساس کامیابی سے جگایا گیا۔ پھر اپوزیشن کی صفوں میں کسی قومی متبادل کی عدم موجودگی نے باقی کام کیا اور اس طرح ۳۰۳؍ سیٹیں حاصل ہوئیں۔ 
 راج دیپ نے سونیا اور راہل گاندھی، شرد پوار، ممتا بنرجی، اکھلیش یادو، مایاوتی اور دیگر لیڈروں کے رول پر بھی خامہ فرسائی کی ہے۔ الیکشن کمیشن کی عنایتوں کا تذکرہ کرنا شاید بھول گئے ! وہ کئی اہم معاملات کو بالکل نظر انداز کرگئےہیں یا ان پر اِن کتب میں بہت کم لکھا۔ ایجنسیوں کے نامناسب استعمال، اداروں کی بربادی، پارٹیوں میں توڑ پھوڑ، ڈیٹا کا اِخفا اور معیشت سے متعلق معاملات کو بھی شامل تحریر کرتے تو یہ تصنیفات زیادہ متوازن کہلاتیں۔ دونوں کتب انداز بیان کے لحاظ سے سادہ ہیں۔ گپ شپ کے ساتھ منظر کشی کا دلچسپ امتزاج ہیں۔ پڑھتے ہوئے قاری محسوس کرتا ہے جیسے راج دیپ سردیسائی کا شو دیکھ رہا ہو۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK