• Sun, 07 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

مدرسہ بورڈ کا صد سالہ جشن یامسلمانوں کی نبض شناسی!

Updated: September 18, 2025, 5:05 PM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai

مدرسہ بورڈ کے صد سالہ جشن کا واحد مقصد مسلمانوں کی سیاسی نبض شناسی تھا لیکن یہاں کچھ ایسی بد نظمی ہوئی جس سے وزیر اعلیٰ نتیش کمار جلسہ چھوڑ کر چلے گئے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

بہار ان دنوں نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی سرخیوں میں ہے اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ سالِ رواں کے نومبر ماہ میں یہاں بہار قانون ساز اسمبلی کا انتخاب ہونا ہے اس لئے ایک طرف بر سرِ اقتدار قومی جمہوری اتحاد کی طرف سے جی توڑ کوشش ہورہی ہے کہ وہ اقتدار میں قائم رہے تو دوسری طرف اپوزیشن سیاسی جماعتوں کا اتحاد ’’انڈیا‘‘ نے بھی اقتدار کی تبدیلی کے لئے دن رات ایک کر رکھا ہے۔ قومی جمہوری اتحاد کی طرف سے مرکزی حکومت کے وزراء کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی کا بھی مسلسل بہار دورہ ہو رہاہے اور مختلف طرح کی سرکاری اسکیموں کا اعلان، سنگِ بنیاد اور افتتاحی جلسے کے ذریعہ یہ پیغام دینے کی کوشش ہو رہی ہے کہ قومی جمہوری اتحاد کی حکومت میں بہار میں چہار طرفہ ترقی ہوئی ہے اور قومی جمہوری اتحاد کو قدرے بڑھا چڑھا کر قومی میڈیا میں جگہ بھی دی جا رہی ہے جب کہ اپوزیشن کی آواز کو خاطر خواہ جگہ نہیں مل رہی ہے جس کی شکایت بہار کے اپوزیشن لیڈر تیجسوی یادو نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں بھی کی ہے کہ حزب اختلاف کے لیڈر راہل گاندھی کا ریاست گیر دورہ ہو ا لیکن اسے بھی جگہ نہیں دی گئی۔ البتہ سوشل میڈیا میں راہل گاندھی اور تیجسوی یادو کے دورہ کو نہ صرف جگہ دی گئی بلکہ اس کی مقبولیت بھی ہوئی۔ 
یہ تلخ حقیقت اپنی جگہ مسلّم ہے کہ ریاست بہار میں مسلمانوں کی سترہ فیصد سے زیادہ آبادی ہے اور بہار اسمبلی کے تقریباً ۷۰؍ ایسے حلقے ہیں جہاں مسلم ووٹر فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں ۔ اس لئے ہر ایک سیاسی جماعت کی نگاہ مسلم ووٹروں پر ہے۔ ظاہر ہے کہ بہار میں جب سے ذات شماری کا ڈیٹا شائع ہوا ہے اس کے بعد سے بہار میں ہر ایک سیاسی جماعت کی نگاہ مختلف ذات کی جماعتوں پر ہے۔ بر سر اقتدار نتیش کمار بھی اس زمینی حقیقت سے خوب خوب واقف ہیں اس لئے وہ بھی اپنی سیاسی زمین کو کسی طرح بھی کھسکنے دینا نہیں چاہتے اور وہ ذات برادری کی سیاست کے تقاضوں کو خوب خوب سمجھتے ہیں اس لئے ان کی طرف سے بھی یہ کوشش ہو رہی ہے کہ مختلف طبقوں کو اپنی طرف جوڑے رکھیں۔ اسی سلسلے میں گزشتہ دنوں بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کی انتظامیہ کی طرف سے جشنِ صد سالہ تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ 
واضح رہے کہ بہار میں موجودہ بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کا قیام ۱۹۲۲ء میں ہوا تھا اور اس وقت اس کا نام صرف مدرسہ اکزامنیشن بورڈ بہار تھا اس لئے اگر جشن صد سالہ تقریب منائی جاتی تو۲۰۲۲ء میں ہی منایاجانا چاہئے تھا لیکن اُس سال کوئی بھی سرگرمی نظر نہیں آئی۔ اب چونکہ اسمبلی انتخاب ہونا ہے اور مسلمانوں کے ووٹوں پر سب کی نگاہ ہے اس لئے شاید مدرسہ بورڈ کو اپنے صد سالہ جشن کا خیال آیا اور موجودہ چیئر مین سلیم پرویز نے یہ اہتمام کیا اور اس میں پورے بہارکے مدرسہ اساتذہ کو پٹنہ میں جمع بھی کیا۔ اگرچہ سلیم پرویز کی شخصیت ان دنوں متنازع فیہ ہے کہ ان کا ایک ویڈیو خوب گردش کر رہا ہے جس میں وہ ریاست بہار کے اعلیٰ طبقے یعنی اشرافیہ کو غیر مہذب اور ناشائستہ الفاظ سے مخاطب کر رہے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ نتیش کمار کی حکومت میں انتہائی پسماندہ طبقے کی سیاست قدرے زیادہ پروان چڑھی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ اس طرح کی ماحول سازی ہو رہی ہے۔ جہاں تک مدرسہ بورڈ کے صد سالہ جشن کا سوال ہے تو اس کا واحد مقصد مسلمانوں کی سیاسی نبض شناسی تھا لیکن یہاں کچھ ایسی بد نظمی ہوئی جس سے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نہ صرف بد دل ہوئے بلکہ وہ درمیان میں ہی جلسہ کو چھوڑ کر چلے گئے۔ جلسہ کے آغاز میں بھی کچھ اسی طرح کا منظر سامنے آیا جس سے بھی یہ ثابت ہوا کہ نتیش کمار اب نظریاتی سطح پر بھی کتنے محتاط ہیں کہ جب ان کی شال پوشی ہوئی اور بہار کے اقلیت طبقے کے وزیر نے انہیں ٹوپی پہنانے کی کوشش کی تو انہوں نے پہننے سے انکار کردیا۔ ظاہر ہے کہ نتیش کمار جس اتحادی حکومت کے قائد ہیں اس کا نظریہ کیا ہے وہ جگ ظاہر ہے اس لئے اس پر تبصرہ کرنا ہی فضول ہے۔ 
واضح رہے کہ بہار میں ایسے ۱۶۳۷؍ دارس ہیں جنہیں حکومت سے منظوری حاصل ہے لیکن ان میں ۹۸۲۲؍ اساتذہ وملازمین کو ۲۰۱۳ء سے ہی تنخواہ نہیں مل رہی ہے اور وہ سبھی ضلع ایجوکیشن دفاتر کا دن رات چکّر لگاتے رہتے ہیں کہ جانچ کے نام پر ہی ان کی تنخواہیں بند ہیں ۔ یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ بہار میں تین اقسام کے مدارس ہیں ۔ اول جس میں وسطانیہ یعنی آٹھویں درجے تک کی پڑھائی ہوتی ہے، دوئم جہاں فوقانیہ یعنی میٹرک تک کی پڑھائی کا نظم ہے اور سوئم جہاں مولوی، عالم وفاضل تک کی پڑھائی ہوتی ہے۔ بہار میں مدارس کے اساتذہ کے مسائل موجودہ حکومت کے پیدا شدہ نہیں ہیں بلکہ ۱۹۸۷ء میں حکومت نے ۲۴۶۰؍ مدارس کو منظوری دی تھی لیکن ان میں ۸۲۳؍ مدارس کے اساتذہ کو ہی تنخواہ جاری کی گئی۔ ۱۵؍ فروری ۲۰۱۱ء کو یعنی موجودہ نتیش کمار کی حکومت نے اپنی کابینہ منظوری کے ساتھ ان تمام مدرسوں کی جانچ کے لئے ضلع ایجوکیشن آفیسر کو ذمہ داری دی۔ 
ضلع ایجوکیشن آفیسر کی جانچ کےبعد ۲۰۱۳ء میں ۲۰۵؍ مدارس کے اساتذہ کو پھر ۲۰۱۵ء میں ۶۰۹؍ مدرسوں کو اورکچھ سال بعد ۹؍ مدرسوں کے اساتذہ کی تنخواہوں کا مسئلہ حل ہو سکالیکن بقیہ مدرسوں کے مسائل ہنوز بر قرار ہیں۔ اسی طرح مدارس کے طلباء کو سائنس کی تعلیم دینے کے لئے ۱۰۰؍ مدرسوں میں ۲۲۶؍ سائنس اساتذہ کی بحالی ہوئی لیکن انہیں بھی اتنی کم تنخواہیں دی جا رہی ہیں کہ وہ پریشان حال ہیں ۔ اساتذہ تنظیموں کا کہنا ہے کہ مدرسہ بورڈ کے جشن صد سالہ تقریب کا اہتمام صرف اور صرف سیاسی مفاد کے لئے کیا گیا تھا اور طرح طرح کے وعدے کرکے بھیڑ جمع کرنے کی کوشش کی گئی اور حکومت کو مدارس کے اساتذہ کے مسائل سے آگاہ نہیں کیا گیا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ جشن صد سالہ صرف اور صرف سیاسی مفاد کے لئے منعقد کیا گیا تھااور جب اساتذہ کو یہ احساس ہوا کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے تو وہ سب اپنے غم وغصہ کا اظہار کرنے لگے اور مبینہ جشن صد سالہ ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگیا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK