Inquilab Logo

دُکھی ہیں مہاراج!

Updated: August 22, 2023, 1:15 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

 مارچ ۲۰۲۰ء میں جب جیوترادتیہ سندھیا نے کانگریس سے اپنا مضبوط رشتہ توڑ کر بھارتیہ جنتا پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تب مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے ایک مختصر ٹویٹ کے ذریعہ اپنی مسرت کا اظہار کیا تھا۔

Jyotiraditya Scindia. Photo. INN
جیوترادتیہ سندھیا۔ تصویر:آئی این این

 مارچ ۲۰۲۰ء میں جب جیوترادتیہ سندھیا نے کانگریس سے اپنا مضبوط رشتہ توڑ کر بھارتیہ جنتا پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تب مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے ایک مختصر ٹویٹ کے ذریعہ اپنی مسرت کا اظہار کیا تھا۔ ٹویٹ میں وزیر اعلیٰ نے لکھا تھا: ’’ویلکم مہاراج‘‘ جیوترادتیہ، مہاراجہ گھرانے کے چشم و چراغ ہیں اور مہاراج ہی کہلاتے ہیں مگر اس ٹویٹ سے اُنہیں خوشی ہوئی ہوگی کیونکہ مہاراج کہنے والا کوئی اور نہیں ریاست کا وزیر اعلیٰ تھا۔ 
 ہم نہیں جانتے کہ کانگریس چھوڑتے اور دو پشتوں سے چلا آنے والا دیرینہ تعلق توڑتے وقت وہ کتنے دُکھی تھے مگر حالات اور واقعات کے پیش نظر یہ کہہ سکتے ہیں کہ بی جے پی میں اپنے نظر انداز کئے جانے کی وجہ سے وہ فی الحال کافی دُکھی ہیں ۔ اُن پر پے در پے ضرب پڑرہی ہے۔راجیہ سبھا کی رُکنیت اور مرکزی کابینہ میں اہم وزارت جیسا انعام تو اُنہیں مل گیا تھا مگر جو عزت کانگریس میں تھی، بی جے پی میں میسر نہیں ہے۔ کانگریس میں وہ سونیا، پرینکا اور راہل گاندھی کے کافی قریب تھے اور بغیر اپوائنٹمنٹ کے ملاقات کرسکتے تھے۔ بی جے پی میں اُنہیں ملنے کا وقت مانگنا پڑتا ہے اور اس کیلئے درخواست بھیجنی پڑتی ہے۔ وہ کانگریس میں تھے تو مدھیہ پردیش کے اپنے اثرورسوخ کے علاقہ کے اُمیدواروں کی فہرست اعلیٰ کمان کو بھیج دیتے تھے جس میں اکا دکا ناموں کے علاوہ پوری فہرست منظور کرلی جاتی تھی۔ اب اُنہیں اپنے لوگوں کو ٹکٹ دلوانے کیلئے کافی پاپڑ بیلنے پڑرہے ہیں ۔ سال کے آخر میں مدھیہ پردیش میں اسمبلی انتخاب ہونا ہے اور بی جے پی کی جاری کردہ پہلی فہرست میں سندھیا حامیوں کی تعداد معمولی ہے۔ 
 کانگریس میں سندھیا کا جو جلوہ تھا اور بی جے پی میں جو ناقدری ہے اُس کا مشاہدہ کرنے کے بعد جیوترادتیہ کے ’’سمرتھکوں ‘‘ میں بے چینی کا پیدا ہونا فطری ہے۔ یہی بے چینی اُنہیں کانگریس کی طرف ازسرنو ملتفت کررہی ہے اور اُن کے حامی جوق در جوق اپنے پرانی پارٹی کی طرف مراجعت کررہے ہیں ۔ اب تک جن سندھیا سمرتھکوں نے بی جے پی کو چھوڑ کر کانگریس سے اپنا رشتہ استوار کیا ہے اُن میں سمندر پٹیل، بیج ناتھ سنگھ یادو، جے پال سنگھ یادو، یدو راج سنگھ یادو، رگھو راج دھاکڑ، راکیش گپتا اور گگن دکشت کے نام خاص اہمیت کے حامل ہیں ۔ سنا جارہا ہے کہ ابھی اور بھی کئی لیڈران سندھیا اور بی جے پی کو چھوڑ کر کانگریس میں شمولیت حاصل کرینگے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو حامی چاہتا ہے کانگریس میں پناہ ڈھونڈ لیتا ہے مگر سندھیا خود چاہیں کہ کانگریس سے ازسرنو وابستگی کے امکانات تلاش کریں تو فی الحال یہ کافی مشکل ہے۔ بھار ت جوڑو یاترا کے دوران جے رام رمیش نے اُنہیں ۲۴؍ قیراط کا غدار کہا تھا۔
 بلاشبہ سیاست میں کون کب کہاں ہوگا یہ پیش گوئی ممکن نہیں ہے اسلئے ہوسکتا ہے کہ آئندہ کبھی اُن کیلئے کانگریس کا دروازہ کھل جائے مگر اِس وقت بند ہے اور اسے مقفل کیا گیا ہے۔ وہ اپنے بیانات کے ذریعہ کانگریس میں واپسی کی راہ خود پیچیدہ بنارہے ہیں ۔ حالیہ پارلیمانی اجلاس میں اُن کی تقریر کا اہل کانگریس نے کافی بُرا مانا ہے۔ ’’پھر کبھی ہم دوست بن جائیں تو شرمندہ نہ ہوں ‘‘ کی مصلحت کو سندھیا سمجھ نہیں رہے ہیں یا اُن کی پارٹی کے لوگ اُنہیں سمجھنے نہیں دینا چاہتے لہٰذا ہر گزرتے دن کے ساتھ کانگریس سے اُن کے رشتے میں مزید تلخی آرہی ہے اور اُن کے حامی اُنہیں خیرباد کہہ رہے ہیں ۔ سندھیا کا قلعہ تیزی سے ڈھہ رہا ہے ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK