Inquilab Logo

مہاتما گاندھی، تنازعات اور `’’نیا ہندوستان‘‘

Updated: October 30, 2023, 1:05 PM IST | ram puniyani | Mumbai

آج بھی ملک کے تمام مذاہب کے لوگوں کو متحد رکھنے اور انہیں آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔تصویر:آئی این این

Even today there is a need to unite the people of all the religions of the country and take them forward. Photo: INN
آج بھی ملک کے تمام مذاہب کے لوگوں کو متحد رکھنے اور انہیں آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔تصویر:آئی این این

آج ہندوستان پر جس نظریہ و ذہنیت کا غلبہ ہے، اس کی نظر میں  اسلام اور عیسائیت غیر ملکی مذاہب ہیں ۔ اسی ذہنیت سے اقلیتوں  کے خلاف نفرت اور تشدد کے واقعات میں  اضافہ ہوا ہے۔ ہندوستان میں  مختلف مذاہب کی موجودگی پر گاندھی جی نے کہا تھا کہ `ہندوستان میں  مختلف عظیم مذاہب، عوام کے لئے کافی ہیں ۔ انہوں  نے یہ بھی کہا تھا کہ ` عیسائیت اور یہودیت کے علاوہ ہندوازم اور اس کی شاخیں ، اسلام اور پارسیت زندہ مذاہب ہیں ۔
 آج ہمارے ملک میں  ایسا ماحول پیدا کردیا ہے جس میں  ہندو سماج کی برائیوں  کو مسلمانوں  کی حکومت کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے جبکہ گاندھی جی تاریخ کو الگ نظریہ سے دیکھتے ہیں ۔ مثلاً وہ لکھتے ہیں  کہ  ’’مسلمان حکمرانوں  کے دورحکومت میں  ہندوؤں  نے ترقی کی ہے اور مسلمان بھی ہندو راجاؤں  کی حکومت میں  پھلے پھولے ہیں ۔ دونوں  قومیں  اچھی طرح جانتی ہیں  کہ آپس میں  لڑنا خودکشی کے مترادف ہے اور ہتھیاروں  کی بنا پر زبردستی ایک دوسرے کا مذہب تبدیل نہیں  کیا جا سکتا۔ اس لئے وہ امن و سکون اور دوستی نیز رواداری کے ساتھ رہتے تھے۔ انگریزوں  کی آمد کے بعد ان کے درمیان تنازعات سر ابھارنے لگے لیکن کیا مسلمانوں  کا خدا ہندوؤں  کے خدا سے مختلف ہے؟ دراصل، مذاہب مختلف راستوں  کی مانند ہیں  جو ایک ہی منزل کی طرف لے جاتے ہیں ۔ پھر جھگڑنے کا کیا فائدہ؟‘‘ 
 آج ہندوستان میں  ہندوؤں  کے اسلام اور عیسائیت قبول کرنے پر ہنگامہ کیا جارہا ہے۔ تبدیلی ٔ مذہب کے بارے میں  گاندھی جی نے لکھا تھا کہ ’’ `ہندو اور مسلمان، مسلم سلاطین کے دور حکومت میں  آپس میں  امن کے ساتھ شیر وشکر ہوکر رہتے تھے۔ ہمیں  یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہندوستان میں  مسلمان حکمرانوں  کی آمد سے قبل ہی کافی ہندوؤں  نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ میرا ماننا ہے کہ اگر ہندوستان میں  مسلمانوں  کی حکومت نہ ہوتی تو بھی یہاں  بڑی تعداد میں  مسلمان ہوتے۔ اسی طرح انگریزوں  کے ہندوستان نہ آنے کے باوجود یہاں  عیسائیوں  کی آبادی ہوتی۔‘‘
 گاندھی کے عظیم شاگرد نہرو اپنی کتاب `’’ہندوستان کی کھوج‘‘  (Discovery Of India) میں  لکھتے ہیں  کہ ’’وہ (ملک) ایک ایسی پرانی تختی ہے جس پر خیالات اور افکار کی متعدد تہیں  نقش ہیں ۔ لیکن کوئی اگلی تہہ پچھلی تہہ کو چھپا نہ سکی اور نہ پرانے نقوش کو مٹا سکی۔‘‘ آج کے ہندوستان میں  گاندھی کے تئیں  نفرت پھیلانے میں  شدت آ گئی ہے۔ گاندھی دشمن عناصر، زبانی اور دیگر وسائل کے ذریعے پروپیگنڈا کر رہے ہیں  کہ گاندھی جی نے بھگت سنگھ کی پھانسی کی سزا روکنے کیلئے کوئی پیش قدمی نہیں  کی۔ سچائی یہ ہے کہ اس سلسلے میں  گاندھی نے لارڈ اِرون کو دو خطوط لکھے تھے جن  میں  انہوں  نے بھگت سنگھ کی سزا کو عمر قید میں  بدلنے اور پھانسی کو روکنے کی گزارش کی تھی۔ پنجاب میں  انگریز افسران اجتماعی  سبکدوشی (بذریعہ) استعفیٰ کی دھمکیاں  دے رہے تھے جس کی وجہ سے لارڈ اِرون نے گاندھی کی گزارش کو رد کردیا تھا۔ آپ کو یاد ہونا چاہئے کہ وہ گاندھی جی ہی تھے جنہوں  نے ۱۹۳۱ء کی کراچی کانگریس کا اعلامیہ تیار کیا اور اس کے ذریعہ بھگت سنگھ کی پھانسی کیلئے  انگریز حکومت کی مذمت کی۔
 حالیہ برسوں  میں  یہ جھوٹ بھی پھیلایا جارہا ہے کہ سبھاش چندر بوس کے ساتھ گاندھی کا رویہ اچھا نہیں  تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ عدم تشدد اور دوسری جنگ عظیم کے دوران انگریزوں  کو ملک سے باہر نکالنے جیسے موضوعات پر دونوں  کے نظریات میں  اختلافات تھے جن کے باوجود دونوں  ایک دوسرے کی عزت کرتے تھے۔ بوس نے مہاتما گاندھی کو `بابائے قوم کہا اور آزاد ہند فوج کے پہلے دستہ کا نام `گاندھی بریگیڈ رکھا تھا۔ کیا اس صورت میں  ممکن تھا جس کا پروپیگنڈہ  آج کے ہندوستان میں  کیا جاتا ہے؟ گاندھی جی، جیل میں  قید آزاد ہند فوج کے افسروں  سے ملنے بھی جاتے تھے۔ کتنے لوگ جانتے ہیں  کہ عدالت میں  آزاد ہند فوج کے مقدمے کانگریس نے لڑے؟
 گاندھی اور بابا صاحب امبیڈکر کے اختلافات کو بھی بڑا قضیہ بنا کر پیش کیا جارہاہے۔ بابا صاحب درج فہرست ذاتوں  کیلئے  علاحدہ انتخابات کی مانگ کر رہے تھے۔ دوسری جانب گاندھی ان ذاتوں  کو انتخابی حلقوں  میں  ریزرویشن دینے کے حق میں  تھے کیونکہ ’’استعمار مخالف جدوجہد‘‘ یعنی انگریزوں  کے خلاف لڑائی  میں  سماج کو متحد رکھنا ضروری تھا۔ ان اختلافات کے باوجود بابا صاحب نے گاندھی کو آزادی کی جد وجہد کا سب سے قدآور رہنما قرار دیا تھا۔ اپنی دوسری شادی کے بعد انہوں  نے کہا تھا کہ اگر گاندھی ہوتے تو مجھے بہت خوشی ہوتی۔ گاندھی نے ہی اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ امبیڈکر کو آزاد ہندوستان کی پہلی کابینہ میں  جگہ ملے اور یہ مشورہ بھی انہوں  نے ہی دیا تھا کہ ہندوستانی دستور ساز کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر امبیڈکر کا تقرر ہونا چاہئے۔ 
 آزاد ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پر تنازع کی بات کریں  تو گاندھی جی نے سردار پٹیل اور جواہر لال نہرو میں  آخرالذکر کی حمایت کی تھی۔ دھیان رہے کہ نہرو اور پٹیل دونوں  ہی گاندھی کے مقربین میں  شامل تھے۔ نہرو کی عالمی سیاست پر گرفت خاصی مضبوط تھی جس سے گاندھی جی ازحد متاثر تھے۔ اس کے علاوہ، گاندھی کے بعد نہرو، نوجوانوں  میں  سب سے زیادہ مقبول رہنما تھے اور نوجوان رہنما کے طور پر وہ لمبے عرصہ تک ملک کی ترقی میں  اہم کردار ادا کرسکتے تھے۔ اسی کے سبب بابائے قوم مہاتما گاندھی نے نہرو کو پٹیل پر ترجیح دی۔ میرا اندازہ ہے کہ نہرو اور پٹیل کے درمیان (کچھ معمولی اختلافات کو نظر انداز کردیں  تو) گاڑھی چھنتی تھی۔ پٹیل نے نہرو کے بارے میں  کہا تھا کہ وہ نہرو کو اپنا چھوٹا بھائی اور رہنما مانتے ہیں ۔
 آج کے حالات تاریخی حقائق سے پرے پروپیگنڈے کے زیر اثر ہیں ۔ ان میں  ہمیں  غور کرنا چاہئے کہ نفرت کی جس خطرناک راہ پر ہمارا ملک چل رہا ہے، اس کے سنگین نتائج کیا ہوں  گے؟ آزادی کی جدوجہد میں  گاندھی کا نعرہ تھا: ’’ایشور اللہ تیرو نام‘‘۔ اسی نعرہ  نے ملک کے تمام  مذاہب کو متحد رکھا تھا۔ مَیں  سمجھتا ہوں  کہ آج بھی ملک کے تمام مذاہب کے لوگوں  کو متحد کرنے ، متحد رکھنے اور انہیں  آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ گاندھی کے اصلاح معاشرہ کے پیغام پر عمل کرتے ہوئے ہم سب ذات پات کے نظام کے خلاف جدوجہد کریں  تو اس سے ملک کے ارتقائی سفر کو رفتار ملے گی اور  یہی ان کے لئےبہترین خراجِ عقیدت ہوگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK