ہم ’’جی ۔۲۰‘‘ کی میزبانی کررہے ہیں۔ یہ موقع ہے کہ اس پلیٹ فارم کو طبی سیاحت کے فروغ کیلئے استعمال کیا جائے۔
EPAPER
Updated: February 18, 2023, 10:32 AM IST | Mumbai
ہم ’’جی ۔۲۰‘‘ کی میزبانی کررہے ہیں۔ یہ موقع ہے کہ اس پلیٹ فارم کو طبی سیاحت کے فروغ کیلئے استعمال کیا جائے۔
ہم ’’جی ۔۲۰‘‘ کی میزبانی کررہے ہیں۔ یہ موقع ہے کہ اس پلیٹ فارم کو طبی سیاحت کے فروغ کیلئے استعمال کیا جائے۔ یہ ہمارے ملک کی ایسی صلاحیت ہے جس کا لوہا پہلے ہی سے مانا جاتا ہے۔ دُنیا کے بہت سے ملکوں کے لوگ ہندوستان میں علاج کروانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ عالمی طبی سیاحت کا جائزہ لینے والے ادارے (میڈیکل ٹوریزم اسوسی ایشن) کے تیار کردہ ۴۶؍ ملکوں کے جدول میں ہندوستان کا مقام ۱۰؍ واں ہے۔ دُنیا کے ۲۰؍ بڑے طبی مراکز کا جائزہ لیا جائے تو اس میں ہندوستان ۱۲؍ ویں مقام پر ہے جبکہ ایشیاء پیسفک ریجن کے ۱۰؍ طبی مراکز میں ہندوستان ۵؍ ویں مقام پر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وقت کے ساتھ اُن افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جو علاج کیلئے ہندوستان آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ۲۰۲۰ء کے وسط میں ہندوستان کی میڈیکل ٹوریزم انڈسٹری ۵؍ تا ۶؍ ارب ڈالر کے بقدر ہوگئی تھی۔ اس سے قبل کے جو اعدادوشمار ہمیں میسر آئے اُن کے مطابق ۲۰۱۷ء میں کم و بیش پانچ لاکھ غیر ملکی بغرض علاج ہندوستان آئے۔
میڈیکل ٹوریزم انڈسٹری کیوں فروغ پارہی ہے اور اس کی ترقی کا امکان کیوں روشن ہے ان اہم سوالوں کے جواب پر غور کیجئے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں ہونے والا علاج سستا ہے۔ اگر کوئی مریض ترقی یافتہ ملکوں کا رخ کرے تو اول، کرنسی کی قیمت اور دوئم ڈاکٹروں کی فیس نیز اسپتال کا خرچ مریض کی مالی طاقت کیلئے آزمائش بن جاتا ہے۔ ہندوستان میں معیاری علاج کم قیمت اور کم خرچ پر دستیاب ہے اسی لئے بیرونی ملکوں کے لوگ جو کم قیمت میں اچھا اور معیاری علاج چاہتے ہیں، ہندوستان کو ترجیح دیتے ہیں۔
اگر مرکزی حکومت نے ’’جی ۔۲۰‘‘ کے پلیٹ فارم سے خاطر خواہ فائدہ اُٹھایا تو ہما را ملک، ہمارے اطباء اور ہمارا طبی نظام کو انسانیت کی خدمت کا زیادہ موقع ملے گا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہم اپنے ملک کو خدمتِ انسانیت کے مرکز کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارا مطمح نظر یہ نہیں ہے کہ غیر ملکی مریضوں کو پیسے اینٹھنے کیلئے خوش آمدید کہا جائے۔ اس میں شک نہیں کہ ڈاکٹر کی فیس اور اسپتال کا خرچ اہم ہے مگر اسے منافع کی انڈسٹری نہیں سمجھنا چاہئے کیونکہ علاج معالجہ کار خیر ہے اور جس کسی کو اس کا موقع ملے اُسے چاہئے کہ خود کو خوش نصیب تصور کرے۔ صرف منافع کمانے کیلئے اس شعبے کا انتخاب کرنا درست نہیں ہے کیونکہ یہ شعبہ وسیع تر مفاد کے حصول کا موقع دیتا ہے۔
یہ بات اس لئے کہی جارہی ہے کہ ملک کے عوام اپنے طبی نظام سے ناخوش ہیں۔ اس نظام میں شفا خانوں کو نفع خانوں کا درجہ دے دیا گیا ہے لہٰذا شفا خانے اپنی کوتاہ دستی کا گلہ کرتے ہوئے مریضو ںکو نفع خانوں میں بھیج دیتے ہیں جہاں علاج کی ابتداء سے پہلے ہی لین دین کی ابتدا لازمی ہے یعنی پیشگی رقم اسپتال کے خزانے میں جمع کئے بغیر علاج شروع نہیں ہوتا۔ کارپوریٹ اسپتالوں کا حال سب پر عیاں ہے۔ اسی لئے علاج معالجہ کے خرچ سے لوگوں کی روح کانپ جاتی ہے۔ ضروری تھا کہ ہم سرکاری اسپتالوں کو فائیو اسٹار اسپتالوں میں تبدیل کرتے جہاں ہر ممکن رعایتی طریقے سے مریضوں کا علاج کیا جاتا مگر ایسا نہیں ہوا۔ ایک طرف سرکاری اسپتالوں کی جانب سے غفلت برتی گئی اور دوسری جانب فائیو اسٹار اسپتالوں کو پھلنے پھولنے دیا گیا۔ طبی ماحول ہے کہ یکسر بدل چکا ہے۔ اس پس منظر میں لازمی ہے کہ ہم اس نظام کوز یادہ سے زیادہ انسانیت دوست بنائیں ۔