• Fri, 03 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

مودی جی ! کچھ توکہئے کہ لوگ کہتے ہیں

Updated: April 14, 2022, 10:02 AM IST | Khalid Shaikh | Mumbai

اگرآزادی کے بعد ہم ہندوستانی جنگوں، قدرتی آفات ومصائب اوروباؤں کا مقابلہ بلا تفریق ِ مذہب وملت مل جل کرسکتے ہیں تو عام دنوں میں کیوں نہیں مل جل کر رہ سکتے ؟ نیشنلزم سب کو ساتھ لے کر چلنے کا نام ہے سب کا ساتھ سب کا وکاس کے ڈھونگ کا نام نہیں۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

 مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک میں جس طرح عدم رواداری کورواج دیا گیا، جس طرح مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول  پیدا کیا گیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرکاری طورپر نہ سہی غیرسرکاری طور پر انہیں دوسرے درجے کا شہری مان لیا گیا ہے۔ ہندوتوا وادی حکومتوں اور طاقتوں کی مجبوری یہ ہے کہ وہ ۲۰؍ کروڑ کی آبادی کو دیس نکالا دے سکتی ہیں نہ دریا بُرد کرسکتی ہیں ۔ اس لئے انہوںنے بہت سوچ سمجھ کر شہریت  قانون  اوراین آر سی کا سہارا لیا ہے۔ ۲۰۱۹ء کے الیکشن میں ملی بڑی کامیابی سے ان کے ناپاک عزائم کا اندازہ مودی حکومت کی طرف سے بنائے گئے مسلم مخالف قوانین اور ہندوتوا وادیوں کے مسلم دشمن بیانات اور مطالبات سے لگایاجاسکتا ہے۔ حد یہ ہے کہ دھرم سنسد جیسے سادھو سنتوں کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کے قتل عام کا نعرہ دیاجاتا ہے تب بھی حکومت خاموش رہتی ہے، عدلیہ کی آنکھوں پر پٹی بندھ جاتی ہے اور پولیس منہ پھیر لیتی ہے جب ہنگامہ اٹھتا ہے تو پولیس تاخیر کے ساتھ حرکت میں آتی ہے، دکھاوے کی گرفتاری کرتی ہے اورعدالت، ضمانت پر رہا کردیتی ہے اس پر بھی حکومت کی چپی نہیں ٹوٹتی ۔ ان تینوں کی حالت گاندھی جی کے تین بندروں جیسی ہے جو بُرا دیکھتے ہیں، نہ سنتے ہیں نہ بولتے ہیں۔ سماج پر اس کا جو اثر ہوتا ہے وہ ہمیں ’نیوانڈیا‘ میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ حالیہ اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کو ملی غیر متوقع کامیابیوں نے ہندوتوا وادیوں کے حوصلے اور بڑھادیئے ہیں۔ ان کا اثر خاص طورپر اُن بی جے پی ریاستوں میں نظر آتا ہے جہاں امسال اور اگلے سال الیکشن ہونے والے ہیں۔ ان میں گجرات اور کرناٹک، بی جے پی کے لئے یوپی جیسی اہمیت رکھتے ہیں ۔ گجرات کو مودی کی آبائی ، ریاست اور ہندوتوا کی پہلی تجربہ گاہ ہونے کا امتیاز حاصل ہے تو کرناٹک کو جنوبی ہندوستان کی پہلی بھگوا ریاست ہونے کا فخر حاصل ہے اور چونکہ مودی سے لے کر پارٹی کے ادنیٰ لیڈر تک کےپاس  الیکشن  جیتنے کا واحد کارگر نسخہ مذہب کے نام پولرائزیشن کی سیاست ہے اس لئے دونوں ریاستوں نے ابھی سے اس کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ کرناٹک میں خاص طورپر جس منظم طریقے سے پابندیوں کی آڑ میں مسلمانوں کو تعلیمی، سماجی اور معاشی طورپر ہراساں کیاجارہا ہے، ان کے مذہبی اور مِلّی تشخص پر ضرب لگائی جارہی ہے، اُس کا مقصد مسلمانوں کو ان کی اوقات دکھانا ہے کہ ہندوستان میں رہنا ہے تو ہمارے رحم وکرم پر رہنا ہوگا۔ اس کا آغاز اڈپی ضلع کے ایک پِری ڈگری کالج میں یونیفارم کے ساتھ حجاب کے استعمال پرپابندی سے  ہوا جو رفتہ رفتہ دیگر ضلعوں میں پھیل گیا۔ کرناٹک ہائی کورٹ کی طرف سے حجاب پر پابندی کا فیصلہ برقرار رکھے جانے کے بعد سپریم کورٹ سے عریضہ گزار طالبات کی جوامیدیں وابستہ تھیں، اس وقت ٹوٹ گئیں جب عدالت نے معاملے کی فوری سماعت سے انکار کر دیا۔  حجاب تنازع کے بعد کرناٹک کی چندانتہا پسند تنظیموں نے مندروں میں مسلمانوں کی طرف سے لگائی جانے والی دُکانوں پر  روک کا فرمان  جاری کرکے برسوں کی اُس روایت پر ضرب لگائی جس کے تحت مندروں، درگاہوں اور گرجا گھروں میں تہواروں کے موقع پر سماج کا ہر طبقہ تجارت کی غرض سے مقررہ فیس بھر کراپنے اسٹال لگاتا ہے۔ حسب توقع ریاستی حکومت نے یہاں بھی خاموشی اختیارکی لیکن پارٹی کے دوممبروں نے اس کی سختی سے مخالفت کی۔ ایک نے اسے پاگل پن قراردیا تو دوسرے نے اسے آئینی اصولوں کے خلاف بتایا اور اعلان کیا کہ اس کے حلقے میں اس طرح کی پابندی کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس نے یہ سوال بھی کیا کہ اگرکچھ مسلم ممالک ایک خاص فرقے کے لوگوں کواپنے یہاں کاروبار نہ کرنے کا حکم صادر کریں توکیا ہوگا؟ ہم اس بحث میں پڑنا نہیں چاہتے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ مسلم ممالک کو ملّی مفاد سے زیادہ اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے۔ البتہ ہم ہندو مذہب کے نام نہاد ٹھیکے داروں سے یہ ضرور پوچھنا چاہئیں گے کہ کووڈ کے دوسرے خونیں دورمیں جب آکسیجن ، ادویات و آلات کی قلت سے ہزاروں کی جانیں جارہی تھیں، بیماری لگ جانے کے خوف سے ان کے رشتے دار لاشوں کو ہاتھ لگانے سے ڈرتے تھے، اس وقت ملک کے کئی علاقوں میں مسلمانوں نے اُن لاشوں کی آخری رسومات ان کے مذہب کےمطابق ادا کی، کسی کا کِریاکرم کیا توکسی کو دفنایا۔ اُس وقت ان ٹھیکیداروں نے انہیں کیوں نہیں ر وکا کہ ایک مسلمان، کسی ہندو کی آخری رسومات کیسے ادا کرسکتا ہے؟ اُس وقت انہیں ہندو۔ مسلم کی کیوں نہیں سوجھی؟ اگر موت ہندومسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب لاسکتی ہے تو زندگی میں ہم کیوں نہیں ایک دوسرے کے ہمدردوغمخواربن سکتے ؟ اگرآزادی کے بعد ہم ہندوستانی جنگوں، قدرتی آفات ومصائب اوروباؤں کا مقابلہ بلا تفریق ِ مذہب وملت مل جل کرسکتے ہیں تو عام دنوں میں کیوں نہیں مل جل کر رہ سکتے ؟ نیشنلزم سب کو ساتھ لے کر چلنے کا نام ہے سب کا ساتھ سب کا وکاس کے ڈھونگ کا نام نہیں۔  مندروں میں مسلم دوکانداروں پر پابندی کا تنازع ابھی چل ہی رہا تھا کہ سماج میں نفرت کا زہر پھیلانے والوں نے حلال گوشت کا کا روبار کرنے والوں کے بائیکاٹ کا اور بزنس کمپنیوں کو ملنے والے ’حلال سرٹیفکیٹ ‘ کی واپسی کا مطالبہ داغ دیا۔اس میں ایک نیا موڑ اُس وقت آیا جب فلم ایکٹراور سابق ایم پی پریش راول نے ایک ٹویٹ کے ذریعے  آیوروید اور ہربل دوائیں بنانے والی ۹۰؍سالہ عالمی شہرت یافتہ ’ہمالیہ‘ کمپنی سے حلال سرٹیفکیٹ  واپس لینے کا مطالبہ ٹھوکاکیونکہ سرٹیفکیٹ پر کمپنی کے بانی کا نام ’محمد منال‘ درج تھا۔ نفرت کی سیاست کس طرح عقل خبط کردیتی ہے، اس کا اندازہ فلم ایکٹر کو ’ہمالیہ‘ کمپنی کے جواب سے ہوا ہوگا جس کی بناء پر اسے اپنا ٹویٹ واپس لینا پڑا۔ ’حلال سرٹیفکیٹ ‘ ،عموماً ان کمپنیوں کو جاری کیا جاتا ہے جو خوردونوش کی اشیاء مسلم ممالک کو ایکسپورٹ کرتی ہیں فلم ایکٹر کو شاید معلوم نہ ہوگا کہ سرٹیفکیٹ حاصل کرنے والوں میں ریلائنس ، اڈانی ، ٹاٹا اور اَمُل سے لے کر ڈابر اور پتانجلی جیسی بی جے پی حامی کمپنیاں بھی شامل ہیں ورنہ وہ ’ہمالیہ‘ سے سرٹیفکیٹ واپسی کا مطالبہ نہ کرتا۔  بہرحال مودی کے دور میں مسلم دشمنی کا یہ سلسلہ تھمنے والا نہیں۔ نوراتری کے موقع پر گوشت بیچنے پرپابندی، رام نومی جلوس کی آڑ میں تشدد ، لاؤڈاسپیکر پر اذان بند کرنے کا شوشہ اسی زمر ے میں آتا ہے۔ اس کا مقابلہ مسلمانوں کو برادران وطن کے انصاف پسند طبقے کو ساتھ لے کر کرنا ہوگا۔کیا ہم اس کے لئے تیارہیں؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK