Inquilab Logo

تربیت ِ اساتذہ سے متعلق نارائن مورتی کا بیان 

Updated: November 19, 2023, 5:41 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

’’اِنفوسس‘‘ کے شریک بانی نارائن مورتی کے اس بیان سے مشہور مصرعہ یاد آتا ہے کہ ’’و ہ کہیں اور سنا کرے کوئی‘‘۔ اس لئے کہ اس بیان سے استفادہ کرنا یا اس میں شامل مطالبہ کو سننا اور اسے پورا کرنا تو دور کی بات،اس پر کوئی کان بھی نہیں دھرنا چاہے گا بالخصوص حکومت تو اسے قطعاً پسند نہیں کریگی۔

Narayan Murthy. Photo: INN
نارائن مورتی۔ تصویر : آئی این این

’’اِنفوسس‘‘ کے شریک بانی نارائن مورتی کے اس بیان سے مشہور مصرعہ یاد آتا ہے کہ ’’و ہ کہیں اور سنا کرے کوئی‘‘۔ اس لئے کہ اس بیان سے استفادہ کرنا یا اس میں شامل مطالبہ کو سننا اور اسے پورا کرنا تو دور کی بات،اس پر کوئی کان بھی نہیں دھرنا چاہے گا بالخصوص حکومت تو اسے قطعاً پسند نہیں کریگی۔ نارائن مورتی کا کہنا ہے کہ حکومت اساتذہ کی تربیت پر سالانہ ایک ارب ڈالر خرچ کرے اور یہ سلسلہ بیس سال تک جاری رہے۔ ایک ارب ڈالر کا معنی ہے ساڑھے تراسی کروڑ روپے۔ کیا حکومت صرف اساتذہ کی تربیت پر اتنی خطیر رقم خرچ کرنے کا سوچ بھی سکتی ہے؟ وہ بھی بیس سال تک؟ کوئی ہم سے پوچھے تو ہم کہیں گے کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ حکومت ایسا کرے گی۔ خود نارائن مورتی کو بھی اس کا احساس ہوگا تبھی تو اُنہوں نے اس مطالبے کے ساتھ یہ بھی کہا کہ اگر وہ اتنی رقم خرچ کرنے کی روادار نہیں ہے تو ہاورڈ یونیورسٹی کے سابق صدر ڈیرک بوک کی کہی ہوئی وہ بات سن لے کہ ’’اگر آپ تعلیم کو خرچیلا یا مہنگا سمجھتے ہیں تو جہالت کو آزما کر دیکھئے!‘‘
 اس بیان میں کئی باتیں پوشیدہ ہیں۔ پہلی یہ کہ نارائن مورتی ملک میں رائج طریقۂ تدریس سے مطمئن نہیں ہیں۔ دوسری یہ کہ وہ اساتذہ کے معیار سے ناخوش ہیں۔ تیسری یہ کہ وہ اساتذہ کو دی جانے والی محکمہ جاتی تربیت سے نالاں ہیں۔ چوتھی یہ کہ وہ اُن طلبہ کو کسی قابل نہیں سمجھتے جو مختلف اعلیٰ سطحی اداروں کے اعلیٰ تر اساتذہ سے تعلیم حاصل کرکے روزگار کے بازار میں آتے ہیں۔ پانچویں یہ کہ حکومت اساتذہ کو تنخواہ، اسکولوں کو گرانٹ، کالجوں کو پرمیشن، اعلیٰ پیشہ جاتی اداروں کو قطعہ اراضی وغیرہ دے کر یا نئی تعلیمی پالیسی جاری کرکے یہ سمجھتی ہے کہ اُس کا فرض ادا ہوگیا جبکہ ایسا نہیں ہے۔ فرض تبھی پورا ہوگا جب کالجوں، یونیورسٹیوں اور اعلیٰ پیشہ جاتی اداروں سے ایسے طلبہ نکلیں گے جو عہدِ جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں اور اگر ترقی یافتہ ملکوں کے طلبہ پر سبقت لے جانے کے قابل نہ ہوں تو کم ازکم اُن کے ہم پلہ ہوں۔ چھٹی بات یہ ہےکہ تعلیم کو ملک اور شہریوں کے مستقبل سے براہ راست جوڑ کر دیکھنے کی ضرورت ہے نہ کہ اب تک کی روش کو جاری رکھنے کی کہ حکومت معیارِ تعلیم کی بالکل فکر نہیں کرتی خواہ عالمی ادارے یا عالمی جدول ہمیں کتنا ہی آئینہ دکھائیں۔ ساتویں بات یہ ہے کہ نارائن مورتی کے خیال میں جب تک قابل،محنتی اور تربیت یافتہ اساتذہ کی فوج کلاس رومس میں نہیں پہنچے گی تب تک نئی تعلیمی پالیسی ہر سال جاری ہو جائے تب بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ 
 سالانہ ایک ارب ڈالر اساتذہ کی تربیت پر خرچ کرنے کا مطالبہ حکومت کو اس لئے دیوانے کا خواب محسوس ہوگا کہ حکومت ملک کے پورے ایجوکیشن سسٹم پر صرف تیرہ ساڑھے تیرہ ارب ڈالر بجٹ مختص کرتی ہے (۲۴۔۲۰۲۳ء)۔ جب یہ صورت حال ہو تو اس کی توقع ہی فضول ہے کہ حکومت اتنا یا اس کا آدھا بھی خرچ کرنے کا ارادہ کرے گی۔ حکومت بھلے ہی اتنی رقم خرچ نہ کرے مگر کیا وہ نارائن مورتی کے اس بیان کے مضمرات تک پہنچنا چاہے گی کہ آخر اُنہوں نے یہ بات کیوں کہی؟ اس کا جواب بھی نفی میں ہے۔ 
 ہم تو کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں لاکھوں قابل اور محنتی اساتذہ موجود ہیں۔ انہیں تربیت سے زیادہ موٹیویشن درکار ہے۔ موٹیویشن تنخواہوں میں خصوصی اِضافہ کی صورت، پرفارمنس بونس کی شکل میں اور حق بجانب پزیرائی کے ذریعہ۔

infosys Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK