Inquilab Logo

مودی سرکار کی پالیسیوں سے عوام خوش نہیں ہیں!

Updated: January 15, 2024, 1:40 PM IST | P Chidambaram | Mumbai

مودی نواز میڈیا حکومت کی تعریف میں مشغول رہتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ مودی حکومت کی پالیسیوں نے چند مخصوص طبقات ہی کو فائدہ پہنچایا ہے، سب کو نہیں۔

Photos: INN
تصویر: آئی این این

ہندوستان کی آبادی تقریباً ۱۴۲؍ کروڑ ہے۔ پیشہ، آمدنی جیسے عوامل کی بنیاد پر اسے مختلف طبقات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ ان میں کتنے افراد خوش ہے یا خوش نہیں ہیں۔ کچھ دنوں پہلے میں نے چند مضامین پڑھے جن میں مودی حکومت کی کافی ستائش کی گئی اور اس بات پر زور دیا گیا کہ موجودہ حکومت کے دَور میں ہرشہری خوش ہے۔ مضمون نگاروں کے مطابق، پچھلے نو (۹) برسوں میں ہندوستان نے بے مثال معاشی ترقی کی ہے اور اس کے مثبت اثرات براہ راست عوام کے ہر طبقے میں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ مَیں حالیہ برسوں میں ہندوستان کی معاشی ترقی کا منکر نہیں ہوں لیکن `بے مثال ترقی کے اس بلند بانگ دعویٰ کو نہیں مانتا۔
 قارئین جانتے ہیں کہ یو پی اے حکومت میں ۲۰۰۵ء سے ۲۰۰۸ء تک یعنی تین سالہ عرصہ `معاشی ترقی کا سنہرا دورتھا۔ ان تین سالوں میں معیشت نے بالترتیب ۹ء۵، ۹ء۶؍ اور۹ء۳؍ فیصد کی شرح سے ترقی کی۔ وزیراعظم مودی کے دورحکومت میں پچھلے ۹؍ سالوں میں معیشت کی اوسط شرح نمو۵ء۷؍ فیصد رہی۔ اگر اس میں ۲۴۔۲۰۲۳ء کی ممکنہ شروع نمو ۷ء۳؍ فیصد کو بھی شامل کرلیا جائے تو اوسط شرح نمو ۵ء۹؍ فیصد ہوگی جسے `بے مثال کے زمرے میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ اوسط شرح نمو شاندار نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ تسلی بخش ہے، کافی نہیں۔ مزید یہ کہ اس بنا پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس معاشی ترقی سے ملک کا ہر طبقہ فیض اٹھا رہا ہے۔
 حکومت کی معاشی پالیسیوں کا جھکاؤ براہ راست ٹیکس میں کمی، بالراست ٹیکس میں غیر معمولی اضافہ، سڑکوں، ریلوے، بندرگاہوں اور ہوائی اڈوں میں سرمایہ کاری اور کچھ طبقات مثلاً خواتین کو امداد دینے کی طرف زیادہ ہے۔ حکومت نے تعلیم اور حفظانِ صحت جیسے شعبوں پر کم دھیان دیا ہے۔ معاشی ترقی کی تسلی بخش رفتار سے چند طبقات خوش ہیں۔ ان طبقات کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر، بڑے اور درمیانی سطح کے کارپوریٹ ادارے، امیر و کبیر افراد، بینکنگ اداروں کے مالکان، اسٹاک مارکیٹ کے سرمایہ دار، بڑے تاجر اور دلال، کم مالیت کے اثاثوں کے خریدار، سافٹ ویئر ماہرین، جج حضرات، وکلاء، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس، ڈاکٹرز، یونیورسٹی اور کالج کے اساتذہ، سرکاری ملازمین، امیر کسان اور ساہوکار۔ تصویر کا بھیانک رخ یہ ہے کہ معاشی ترقی کی اس دوڑ میں کئی طبقات پیچھے رہ گئے ہیں اور کچھ طبقات اس میں شامل ہی نہیں ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آبادی کا ایک بڑا حصہ پیچھے رہ گیا ہے۔ اول الذکر طبقات ۸۲؍ کروڑ افراد پر مشتمل ہیں جنہیں ہر ماہ۵؍ کلو اناج مفت دیا جاتا ہے۔ مفت راشن اسکیم، ملک کی معاشی ترقی یا خوشحالی کی سند ہے نہ کسی تمغہ کی طرح ہے جسے ہم سینہ پر سجائیں۔ یہ اسکیم ملک میں پھیلی تغذیہ کی کمی اور بھکمری کی مظہر ہے۔ کم آمدنی اور بڑھتی بے روزگاری کے باعث ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی کو گیہوں اور چاول جیسا بنیادی اناج بھی میسر نہیں ہے۔ ان دو مسائل کو حل کرنے کیلئے حکومت کے پاس کوئی پالیسی نہیں ہے۔ کانگریس حکومت نے گھریلو آمدنی میں اضافہ کیلئے منریگا اسکیم کو نافذ کیا تھا مگر مودی حکومت کی منریگا مخالف پالیسیوں کی وجہ سے مذکورہ ہدف کو حاصل کرنا مزید مشکل ہوگیا ہے۔ اپریل ۲۰۲۲ء سے حکومت نے ۷ء۶؍ کروڑ مزدوروں کو منریگا سے فائدہ اُٹھانے والوں کی فہرست سے خارج کردیا ہے۔ آدھار پیمنٹ سسٹم متعارف کرنے کے باعث رجسٹرڈ مزدوروں کی ایک تہائی تعداد یعنی ۸ء۹؍ کروڑ افراد اور ۱ء۸؍ کروڑ فعال مزدوروں کو نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔ منریگا کے دروازے بند ہو جانے کی وجہ سے یہ تمام مزدور غریبی کے دلدل میں دھکیلے گئے ہیں۔ اسلئے، یقیناً، یہ طبقہ خوش نہیں ہے۔ 
 بے روزگار افراد پر مشتمل عوام کا ایک بڑا طبقہ بھی حکومت سے خوش نہیں ہے۔ موجودہ حکومت روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے بارے میں کچھ کہنے سے کتراتی ہے۔ حکومت، خودروزگار (سیلف ایمپلائمنٹ) کے بڑھتے رجحان کی حوصلہ افزائی کرکے عوام کو بہکا رہی ہے۔ جس ملک میں ۸؍ سالہ اسکولی تعلیم کے دوران صلاحیت پر مبنی ٹریننگ نہ دی جائے، وہاں خود روزگار، بے روزگاری کے مترادف ہے۔ نام نہاد خود روزگاری میں نوجوان، بے قاعدگی سے کام کرتے ہیں۔ ملازمت پیشہ افراد کے مقابلہ ان کی آمدنی اور مہنگائی میں توازن نہیں رہتا۔ اس کے علاوہ انہیں اضافی فوائد اور روزگار کا تحفظ جیسی مراعات نہیں ملتیں۔ اسی طرح، نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح ۱۰؍ فیصد ہے اور ۲۵؍ سال سے کم عمر گریجویٹس میں یہ شرح ۴۲؍ فیصد ہے۔ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ خوش نہیں ہیں۔ مہنگائی کی مار سے جوجھنے والے عوام بھی خوش نہیں ہیں۔ ملک کے ۱۰؍ فیصد امیر افراد، جو ملک کی ۶۰؍ فیصد دولت اور ۵۷؍ فیصد قومی آمدنی پر قابض ہیں، کو چھوڑ دیں تو دیگر ۹۰؍ فیصد آبادی بڑھتی مہنگائی سے نبرد آزما ہے۔ ۲۰۲۲ء میں اوسط افراط زر ۶ء۷؍ فیصد تھی۔ ۲۰۲۳ء میں اوسط ماہانہ افراط زر نے چار مرتبہ ۶؍ فیصد کی اوپری حد کو پار کیا۔ نومبر ۲۰۲۳ء میں مہنگائی ۵ء۵۵؍ فیصد کی شرح سے بڑھی۔ آر بی آئی کی دسمبر ۲۰۲۳ء کی رپورٹ کے مطابق’’آئندہ کچھ ماہ تک مہنگائی، اپنے مقررہ ہدف (۶؍ فیصد) سے زیادہ رہے گی۔‘‘
 بے قابو مہنگائی کی وجہ سے کھپت اور گھریلو بچت میں کمی آئی ہے اور گھریلو قرض میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے مہنگائی کو لگام دینے کی اپنی ذمہ داری کو فراموش کردیا ہے اور یہ کام آر بی آئی کے سپرد کردیا، وہ ریکارڈ مہنگائی کے باوجود بالراست ٹیکس کو کم نہیں کرنا چاہتی جس سے غریب پر قیمتوں کا بوجھ کم ہوسکتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ حکومت اپنے مالیاتی خسارہ کو قابو میں کرنے کیلئے عوام کو راحت نہیں دینا چاہتی۔ ہندوستانی عوام کی اکثریت کو مودی سرکار کے دور حکومت کی معمولی معاشی ترقی میں کوئی فائدہ نہیں ملا۔ ان کی حالت میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں آئی ہے۔ حکومت کی پالیسیاں، غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کو کم کرنے میں ناکام ثابت ہوئیں۔ یہ پالیسیاں `’’امراء کی ، امراء کیلئے اور امراء کے ذریعے‘‘ کے فارمولے پر عمل پیرا نظر آتی ہیں۔ ان سے ملک میں دولت کے ارتکاز میں اضافہ ہوا اور کچھ گھرانوں کی اجارہ داری کو فروغ ملا ہے۔ 
 نیا سال، بھلے ہی کچھ افراد کیلئے خوشیاں لے آیا ہو، لیکن یہ حقیقت ہے کہ عوام کی بڑی تعداد خوش نہیں ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK