Inquilab Logo

بی جے پی نے ثابت کردیا کہ وہ نفرت انگیز بیانات کے بغیر انتخابی مہم چلا ہی نہیں سکتی

Updated: April 28, 2024, 4:03 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

وطن عزیز میں پارلیمانی انتخابات کا خمار پورے عروج پر ہے۔ پہلے اور دوسرے مرحلہ کی پولنگ کے بعد بقیہ حلقوں میں انتخابی مہم جاری ہے۔ سیاسی الزامات اور جوابی الزامات انتخابی مہم کا حصہ ہوتے ہیں۔

During the election campaign, Prime Minister Modi has clearly targeted Muslims by naming them. Photo: INN
انتخابی مہم کے دوران وزیراعظم مودی نے صاف صاف مسلمانوں کا نام لے کر انہیں نشانہ بنایا ہے۔ تصویر : آئی این این

وطن عزیز میں پارلیمانی انتخابات کا خمار پورے عروج پر ہے۔ پہلے اور دوسرے مرحلہ کی پولنگ کے بعد بقیہ حلقوں میں انتخابی مہم جاری ہے۔ سیاسی الزامات اور جوابی الزامات انتخابی مہم کا حصہ ہوتے ہیں۔ ملک کے سیاست دانوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بنیادی اور حقیقی مسائل کو موضوع بحث بنائیں۔ بد قسمتی سے ہمارے یہاں انتخابات کا موسم شروع ہوتے ہی متنازع، نفرت انگیز اور جھوٹ پر مبنی بیانات دینے کاسلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ گلی محلوں سے لے کر مرکزی لیڈران تک اخلاقیات اور دیانت داری کی ساری حدیں توڑ دیتے ہیں۔ شمشان اور قبرستان کے علامتی اظہار کے بعد اب وزیر اعظم مودی نے براہ راست مسلمانوں کا نام لے کر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں اس طرح کے بیانات پر مراٹھی اخبارات نے کیا کچھ لکھا ہے۔ 
پربھات(۲۴؍اپریل)
 اخبار اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ’’پارلیمانی انتخابات کا پہلا مرحلہ ختم ہونے تک جو انتخابی مہم جاری تھی، وہ بڑی حد تک معتدل رخ پر رواں دواں تھی لیکن ابتدائی مرحلے کی ووٹنگ ختم ہونے کے بعد نہ جانےایسا کیا ہوا کہ مذہبی منافرت پر مبنی پروپیگنڈہ شروع ہوگیا۔ اس کی شروعات بذات خود وزیر اعظم مودی نے ایک انتخابی مہم سے کی۔ انہوں نے کہا کہ’ کانگریس نے ملک کے عام لوگوں کی دولت کو لوٹ کر اقلیتوں یعنی مسلمانوں کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ نے کہا تھاکہ ملک کے وسائل پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے اور اب کانگریس اسی راستے پر چل رہی ہے۔ ایک دن ایسا آئے گا جب کانگریس والے آپ کی عورتوں کا منگل سوتر بھی چھین کر دراندازوں (مسلمانوں ) کے حوالے کردیں گے۔ ‘انتخابی مہم میں علی اعلان مسلمانوں کو ہدف بنانا وزیراعظم کے شایان شان نہیں ہے۔ کانگریس نے وزیر اعظم کے جھوٹ پر مبنی بیان پر الیکشن کمیشن میں شکایت درج کروائی ہے جبکہ کانگریس کے صدر ملکا رجن کھرگے نے وزیر اعظم سے ملاقات کرکے انہیں کانگریس کے منشور پر گفتگو کرنے کا کھلا چیلنج بھی کیا ہے۔ دراصل نریندر مودی کا بیان انتہائی افسوسناک اور غیر حقیقی ہے۔ اس سے لوگوں میں خوف اور غلط فہمی پیدا ہوگی۔ پہلے مرحلے تک مودی کانگریس کی بدعنوانی اور اور اقربا پروری تک محدود رہے، لیکن پہلے مرحلہ میں بی جے پی محاذ کو ہونے والے ممکنہ نقصان سے بے چین وزیراعظم مودی اپنے پرانے اور پسندیدہ پولرائزیشن کے موضوع پر لوٹ آئے۔ نتائج سے متعلق جو قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں، ان میں سچائی ہے ورنہ اس طرح کی اچانک بی جے پی کو جارحیت کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ ایک جمہوری ملک کے وزیراعظم کو ملک کی سب سے بڑی اقلیتی آبادی کو درانداز اور زیادہ بچے پیدا کرنے والا کہنا قطعی زیب نہیں دیتا۔ یہ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ مہنگائی، بے روزگاری، بھکمری اور بدعنوانی جیسے اہم موضوعات کی بجائے انتخابی مہم غیر ضروری موضوعات کی جانب موڑ دی جا رہی ہے۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: بی جےپی کا انتخابی منشور خواب یا حقیقت!

سکال(۲۵؍اپریل)
 اخبار نے اداریہ لکھا ہے کہ’’ اس مرتبہ پارلیمانی انتخابات میں عام لوگوں کے بنیادی مسائل اور مختلف ریاستوں کو درپیش مسائل پر غور وفکر کرکے انہیں حل کرنے کی توقع کی جارہی تھی لیکن ملک کے مستقبل کیلئے اہم قرار دیئے جانے والے اس الیکشن کی انتخابی مہم ایک بار پھر جذباتیت، شناخت اور پولرائزیشن کی راہ پر چل پڑی ہے۔ اب یہاں سوال اٹھتا ہے کہ اس مہم کو راہ راست پر لانے کیلئے کس کی مدد لی جائے۔ اس کی وجہ ہے کہ سینئر اور ذمہ دار لیڈر ہی اس نفرت انگیز مہم کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر وزیر اعظم مودی بھی اس کا حصہ ہیں۔ طویل عرصہ سے حکومت کرنے والی کانگریس کو اقتدار سے ہٹانا بلاشبہ آسان نہیں تھالہٰذا ۲۰۱۴ ءکے عام انتخابات میں جارحانہ انتخابی مہم کی حکمت عملی قابل فہم تھی لیکن اگر دس سال اقتدار کا مزہ لینے کے بعد بھی وہی دلیلیں اور الزامات کا وہی کھیل کھیلا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پچھلے دس سال میں کیا ترقی ہوئی؟ مودی کی تقریروں میں مچھلی، مٹن اورکانگریس پرمسلمانوں کی منہ بھرائی کا الزام کچھ کم تھا کہ اب منافرت اور تعصب پھیلانے کیلئے منگل سوتر کو بھی گھسیٹ لیا گیا ہے۔ انتہائی افسوسناک سچائی ہے کہ مذہبی منافرت کے بغیر انتخابات لڑے نہیں جاسکتے اور ملک کی اعلیٰ قیادت ہمیشہ اسی پر انحصار کرتی ہے۔ ۱۰۰؍ دنوں میں تبدیلی لانے کا وعدہ کرنے والے مودی ۱۰ سال بعد بھی ایک موقع مانگ رہے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ مودی موقع مانگتے ہوئے اپنی کامیابیوں کو گنوانے کے بجائے پولرائزیشن کا سہارا لے رہے ہیں۔ ‘‘
لوک ستہ(۲۳؍اپریل)
 اخبار نے لکھا ہے کہ’’ راجستھان کے ایک انتخابی جلسے میں ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ اگر کانگریس دوبارہ مرکز میں برسر اقتدار اقتدار آئی تو وہ ملک کے تمام وسائل مسلمانوں کو بانٹ دے گی۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ لوگوں کی محنت کی کمائی کانگریس زیادہ بچوں والے مسلمانوں میں تقسیم کردے گی۔ وزیر اعظم کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے زیادہ بچے ہیں اور ترقی میں انہیں زیادہ ترجیح دی جائے گی۔ اس بات پر بحث کرنے کا قطعاً کوئی مقصد نہیں۔ کیا ایسا بیان وزیر اعظم جیسے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز شخص کو دینا چاہئے؟کیا وزیر اعظم کیلئے ایسا بیان دینا مناسب ہے؟کیا یہ بیان ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ ایک بات تو طے ہے کہ ہمارا الیکشن کمیشن برا مت بولو، برا مت دیکھو، برا مت سنو، کے تینوں مشوروں پر سختی سے عمل پیرا ہےلہٰذا کوئی احمق ہی امید کرسکتا ہے کہ تین رکنی الیکشن کمیشن اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کے مبینہ جھوٹ پر مبنی بیان کا نوٹس لے گا۔ وزیر اعظم کے مذکورہ بالا ریمارکس پر الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی کارروائی ہوگی، اس پر تبصرہ کرنا بھی فضول ہے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK