Inquilab Logo

نیا نوٹیفکیشن اور سوشل میڈیا

Updated: April 11, 2023, 10:13 AM IST | Mumbai

ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا اور انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن (آئی ایف ایف) جیسے کئی ادارے اب تک منسٹری آف الیکٹرانکس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے نئے نوٹیفکیشن پر، جو ۶؍ اپریل کو جاری کیا گیا، اپنے تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا اور انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن (آئی ایف ایف) جیسے کئی ادارے اب تک منسٹری آف الیکٹرانکس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے نئے نوٹیفکیشن پر، جو ۶؍ اپریل کو جاری کیا گیا،  اپنے تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔ گلڈ کا کہنا ہے کہ اُسے، نئے ضابطوں سے کافی تشویش ہے کیونکہ اس کے ذریعہ حکومت کو یہ اختیار  ہوگا کہ اس کا مقرر کردہ کوئی شعبہ یا محکمہ جس کسی سوشل میڈیا پوسٹ کو جعلی یا گمراہ کن قرار  دے گا اُسے ٹویٹر یا فیس  ُبک وغیرہ سے ہٹا دیا جائیگا۔ گلڈ کے خیال میں یہ قطعی ’’یکطرفہ فیصلہ‘‘ ہوگا جس سے آزادیٔ اظہار ِ رائے کا حق متاثر ہوگا۔ انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن نے بھی کچھ اسی قسم کے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اس نوٹیفکیشن کو فطری اُصول کے منافی قرار دیتے ہوئے فاؤنڈیشن نے  اسے غیر آئینی تو کہا ہی ہے، ایک مقدمہ (شرییا سنگھل بمقابلہ حکومت ِ ہند) کا حوالہ دیتے ہوئے    مذکورہ مقدمہ میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے منافی بھی قرار دیا ہے۔ 
 یہ تشویش اس لئے بھی فطری ہے کہ اِدھر کچھ عرصہ سے سوشل میڈیا نہ صرف یہ کہ کافی طاقتور ہوگیا ہے اور اس کا دائرۂ اثر پہلے کے مقابلے میں کافی وسیع ہوا ہے بلکہ دن بہ دن اس کی مقبولیت بھی بڑھ رہی ہے۔ اس کی وجہ وہی ہے جو عام طور پر بیان کی جاتی ہے کہ جب عوام کو مروجہ ذرائع ابلاغ کے مشمولات میں اپنے احساسات اور جذبات کی عکاسی اور ترجمانی نہیں ملتی تو وہ متبادل ذرائع کا رُخ کرتے ہیں۔ اِدھر جب سے ہمارا میڈیا، جسے مین اسٹریم میڈیا کہا جاتا ہے، عوام کے مسائل اُٹھانے سے گریز کرنے لگا ہے تب سے بالخصوص نیوز چینلوں کی ساکھ بڑی حد تک متاثر ہوئی ہے۔ لوگوں نے ٹی وی دیکھنا بند کردیا مگر خبروں کے حصول کی اُن کی خواہش رُک نہیں سکتی اس لئے اُنہو ںنے متبادل کی طرف دیکھنا شروع کیا۔ یہ رجحان اب خاصا مستحکم ہوچکا ہے۔ 
 چونکہ ٹیکنالوجی نے نت نئے جہان آباد کئے ہیں اس لئے عوام کو مختلف ویب سائٹس اور یوٹیوب کے طور پر ایسے متبادل میسر آگئے ہیں جہاں اُنہیں زمین سے جڑی ہوئی باتیں اور عوامی مسائل کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ افسوس کہ ہمارے پاس اعدادو شمار نہیں ہیں کہ اس خیال کے شواہد فراہم کرسکیں مگر اس کا ثبوت اس طرح ملتا ہے کہ یوٹیوب پر جو صحافت ہورہی ہے اس کے دیکھنے اور سننے والوں کی تعداد روزانہ لاکھوں میں ہے۔ اگر حکومت کا شعبہ (فیکٹ چیک یونٹ) ان میں سے کسی پوسٹ کو ’’جعلی‘‘ اور ’’گمراہ کن‘‘ قرار دے دے تو ظاہر ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کا حق متاثر ہوگا جبکہ اُصولاً  اس پر بحث ہونی چاہئے کہ پوسٹ جعلی اور گمراہ کن ہے یا نہیں ہے۔ میڈیا خواہ وہ مین اسٹریم میڈیا ہو یا سوشل میڈیا، اس کیلئے ہمیشہ جو بات کہی جاتی ہے وہ سیلف ریگولیشن کی ہے یعنی خود نگرانی۔ جو بھی ادارہ خبروں اور ان سے وابستہ مشمولات فراہم کررہا ہے اُسے خود فیصلہ کرنا چاہئے کہ وہ مفاد عامہ کا خیال رکھ رہا ہے یا نہیں۔ اگر اس کا کوئی مواد اس کے برعکس ہو تو پریس کاؤنسل جیسے اداروں کو اختیار ہے کہ وہ متعلقہ اداروں کی توجہ مبذول کرے مگر نئے قوانین سے اب تک تو یہی تاثر مل رہا ہے کہ ان کا مقصد ایسی چیزوں کو روکنا ہے جن میں عوامی مسائل اُٹھائے گئے اور اس حوالے سے حکومت سے سوال کیا گیا۔ ہمارے خیال میں دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کیلئے فالِ نیک نہیں ہوگا ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK