غزہ میں ہونے والی اسرائیلی بمباری اور زمینی یلغار، جس کے سبب اب تک ۱۳؍ ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں،چند روز کیلئے موقوف کی جائیگی۔
EPAPER
Updated: November 23, 2023, 8:59 AM IST | Mumbai
غزہ میں ہونے والی اسرائیلی بمباری اور زمینی یلغار، جس کے سبب اب تک ۱۳؍ ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں،چند روز کیلئے موقوف کی جائیگی۔
غزہ میں ہونے والی اسرائیلی بمباری اور زمینی یلغار، جس کے سبب اب تک ۱۳؍ ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں،چند روز کیلئے موقوف کی جائیگی۔ اسرائیل اس بات پر بھی رضامند ہوچکا ہے کہ ابتداء میں ۵۰؍ اسرائیلی یرغمالوں کے عوض ۱۵۰؍ فلسطینی قیدیوں کو رہا کردے۔ خبروں کے مطابق اسرائیلی وزارت انصاف نے ۳۰۰؍ فلسطینیوں کی فہرست تیار کی ہے جنہیں رہا کیا جاسکتا ہے۔ ان میں ۳۳؍ خواتین، ۱۲۳؍ نوعمر اور چند دیگر فلسطینی شہری شامل ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ۲۰۲۱ء سے اب تک مختلف معاملات میں جیلوں میں بند کیا گیا تھا۔
اسرائیل جنگ بندی کا تلخ گھونٹ پینے پر کیوں رضامند ہوا اس کی کئی وجوہ ہوسکتی ہیں۔جب سے جنگ شروع ہوئی ہے اسرائیل پر غیر امریکی اور غیر یورپی دباؤ مسلسل بڑھ رہا تھا کہ تل ابیب ہوش کے ناخن لے اور بے دریغ، اندھا دھند اور غیر منصفانہ بمباری کو روکے جو روزانہ سیکڑوں شہریوں کو لقمۂ اجل بنا رہی تھی اور جس کے سبب انفراسٹرکچر تباہ ہورہا تھا۔ یہ کہنے میں تردد نہیںہوسکتا کہ اسرائیلی فوج نے جان بوجھ کر شہریوں کو موت کے گھاٹ اُتارا، انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا، اسپتالوں کو تہس نہس کیا اور دواؤں سمیت لازمی اشیاء کی نقل و حمل روک کر شہریوں کی مسلسل ہلاکت کا گناہگار ہوا۔ امریکہ اور یورپی ملکوں نے اسرائیل کوروکنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا، یہ حقیقت ان ملکوں کی جعلی انسان دوستی پر دال ہے۔
ویسے تو فلسطین کے بہی خواہ عرب ممالک خود کو اہل فلسطین کے حق میں مخلص ثابت کرنے میں ناکام ہوئے ہیں مگر او آئی سی اور عرب لیگ کی میٹنگوں کا بالکل بھی اثر نہ پڑا ہو ایسا نہیں ہوسکتا۔ اِس دوران ایران نے مشورہ دیا تھا کہ اسرائیل کو تیل کی سپلائی روک دی جائے مگر کئی مسلم ملکوں نے اس مشورہ کو قبول نہیں کیا۔ ہمیں علم ہے کہ ۱۹۷۳ء میں جب تیل روکا گیا تھا تب کے اور اب کے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے اور اَب عرب ملکوں کی تیل برآمدات کا ۷۰؍ فیصد حصہ ایشیائی ملکوں کوفراہم ہوتا ہے اس کے باوجود ’’تیل کی تدبیر‘‘آزمائی جاسکتی تھی۔ اس سے تیل پیدا کرنے والے مسلم ملکوں کا بھرم رہ جاتا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ ممالک اپنا سفارتی و تجارتی نقصان کئے بغیر فلسطین کی مدد کرنا چاہتے ہوں۔ جو بھی ہو، ان کی کانفرنسوں اور میٹنگوں کا قطعاً اثر نہ ہوا ہو ایسا نہیں ہوسکتا۔
مسلم آبادی کے اعتبار سے جن دو بڑے ملکوں نے کسی بھی مصلحت سے بالاتر ہوکر اہل غزہ کی پُرزور حمایت کی وہ انڈونیشیا اور ملائیشیا ہیں۔ یہاں کے عوام بھی اسرائیل کیخلاف احتجاجی مظاہروں میں لاکھوں کی تعداد میں شریک ہوئے۔ اسرائیل کو دیگر ایشیائی ملکوں کے عوامی ردعمل کا بھی نوٹس لینا پڑا ہوگا جہاں کے عوام اپنی اپنی حکومت پر سفارتی دباؤ ڈالنے کا اصرار کررہے تھے۔
اسرائیل کو روکنے میں چین اور روس کی بھی اعلانیہ اور غیراعلانیہ مدد شامل ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جبکہ یہ دونوں ممالک توسیع پسندانہ نظریہ کے حامل ہیں، چین ہندوستان کو زچ کرنے میں کسرنہیں چھوڑتا اور روس یوکرین کو ستانے یا ڈرانے سے آگے بڑ ھ کر ڈیڑھ سال سے باقاعدہ جنگ کررہا ہے۔ اس مختصر گفتگو کا لب لباب یہ ہے کہ اسرائیل پر دباؤ پڑا ہے ، اسی لئے جن ملکوں، اداروں اور تنظیموں نے دباؤ ڈالا ہے اُن کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے۔ اُنہیں عارضی جنگ بندی کو مستقل جنگ بندی میں تبدیل کرنے کیلئے دن رات ایک کردینا چاہئے۔n