Inquilab Logo

ادیب ہی نئے معاشرہ کی تشکیل کا خواب دکھا سکتاہے

Updated: February 20, 2023, 4:19 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

نوجوان تنقید نگار فردوس انجم کے مطابق ادب جتنا ضر وری ہے اس کی تفہیم کیلئے تنقید بھی اتنی ہی ضروری ہے۔ ملاحظہ کریںانٹر ویو سیریز کی نویں قسط

Critic and Lecturer Firdous Anjum
تنقید نگار اور لیکچرار فردوس انجم

ادب نما پر اس  سلسلے کے تحت ہم نوجوان ادباء و شعراء سے گفتگو اپنے قارئین تک پہنچارہے ہیں۔اس ہفتے نوجوان تنقید نگار و مضمون نگار فردوس انجم سے گفتگو ملاحظہ کریں۔ فردوس انجم نے چند برس قبل ہی لکھنا شروع کیا ہے۔ انہوں نے افسانے اور شاعری کے میدان کے بجائے’ تنقید‘ جیسی سنگلاخ وادی کو اپنےلئے منتخب کیا ہے۔  بلڈانہ  کے ماڈل ڈگری کالج میں بطور لیکچرار اردوپڑھاتی ہیں ۔ ساتھ ہی اپنی پی ایچ ڈی مکمل کررہی ہیں۔ مقالات شبلی پر تبصرے سے ان کی  ادبی زندگی کا آغاز ہوا ہے۔ وہ مولانا الطاف حسین حالی کو تنقید کے میدان میں اپنا آئیڈیل تسلیم کرتی ہیں ۔ فی الحال ان کی کوئی کتاب منظر عام پر نہیں آئی ہے لیکن وہ  افسانہ نگاروں کے فن کے جائزہ پر ایک کتاب مرتب کررہی ہیں۔ پیش ہے ان سے گفتگو
 آپ نے لکھنا کب سے سے شروع کیا ؟ 
  ۲۰۱۸ء میں پہلا مضمون ’’ مقالات شبلی تعارف و تبصرہ لکھا تھا۔ اس وقت یہ ذہن میں نہیں تھا کہ پھر سے کبھی لکھوں گی لیکن اس کے بعد سے باقاعدہ مضامین لکھ رہی ہوں۔ جب پہلا مضمون لکھا تھا اس وقت مجھے اس بات کا علم نہیں تھا کہ تبصرہ کیسے لکھتے ہیں یا تنقید کیا ہوتی ہے۔ ان کے بارے میں کالج میں صرف پڑھا تھا اس  لئے کافی چھان بین کی ،نیٹ پر سرچ کیا، اساتذہ سے پوچھا تب کہیں جاکر کچھ کچھ آئیڈیا مل گیا  ۔ 
 تنقید  کے خشک میدان کو ہی کیوں منتخب کیا؟  
 آپ شاعری بھی کرسکتی تھیں یا افسانے بھی لکھ سکتی تھیں ؟
 کہتے ہیں کہ کچھ راستوں کو ہم خود منتخب کرتے ہیں اور کچھ راستے خدا ہمارے لئے منتخب کردیتا ہے۔  میرے ساتھ بھی یہی معاملہ رہا ۔ لکھنے کے بارے میں نہ سوچا تھا اور نہ ہی شوق تھا جبکہ ایم اے کے دوران میرا سب سے کمزور مضمون بھی تنقید ہی تھا لیکن شاید اللہ نے میری کمزوری کو میری طاقت بنانے کا فیصلہ کیا ہو۔اسی لئے جب پہلا تنقیدی مضمون لکھا اور وہ شائع ہوا تو مجھے حوصلہ ملا اور اب میں کافی تیزی کے ساتھ لکھ رہی ہوں ۔
بطو ر تنقید نگار مطالعہ کی اہمیت پر روشنی ڈالیں ؟
    تنقید نگار کے طور پر مطالعہ کی اہمیت نا گزیر ہے۔علامہ اقبال کا یہ شعر پیش کروں گی  
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو=کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں 
  آپ کسے اپنا آئیڈیل مانتی ہیں؟ 
 ادب اور تنقید کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جب سے ادب ہے تب سے تنقید بھی رہی ہے لیکن اس کی طرف توجہ الطاف حسین حالی کی کتاب ’ مقدمہ شعر و شاعری‘ نے مبذول کرائی۔ یوں تو آل احمد سرور ، رشید احمد صدیقی ، شمس الرحمن فاروقی جیسے بڑے بڑے تنقید نگار بھی گزرے ہیں لیکن مجھے   الطاف حسین حالی کی مقدمہ شعر و شاعر ی نے کافی متاثر کیا  ۔ اس لئے کہہ سکتی ہوں کہ تنقید کے میدان میں وہی میرے آئیڈیل ہیں۔  
 آپ کے لکھنے کا مقصد کیا ہے؟ اور کیا اب تک کے اپنے کام سے مطمئن ہیں؟
 اپنے خیالات کا اظہار میرے لکھنے کا بنیادی مقصد ہے۔ میں جو ادب پڑھتی ہوں  اس کے متعلق جو باتیں محسوس کرتی ہوں۔ اس کا اظہار بھی کرنا چاہتی ہوں اور میرے نزدیک اظہار کرنے کا سب سے اچھا طریقہ لکھنا ہی ہے۔  جہاں تک بات ہے کہ اطمینان کی تو میں کہوں گی کہ فی الحال لکھنا شروع کیا ہے۔ مجھے بہت عرصہ نہیں گزرا ہے لکھتے ہوئے۔ اپنی سی کوشش کر رہی ہوں۔ ابھی نئے نئے مشاہدات ہو رہے ہیں، نئی نئی باتیں معلوم ہو رہی ہیں۔ ذہن کے دریچے کھل رہے ہیں اور نظریات و خیالات پہلے کے مقابلے پختہ ہو رہے ہیں۔ ایسے میں مطمئن ہوں یہ کہنا فی الحال درست نہیں  ہو گا۔
  جونیئر ہونے کی وجہ سے آپ کوکوئی  دشواری ہوتی ہے ؟ 
  میں سمجھتی ہوں کہ ابھی تو پہلا قدم رکھا ہے اس لئے کوئی خاص دشواری نہیں آئی ہے لیکن سچ کہوں تو ہمارے سینئرس بہت اعلیٰ صفات کے حامل ہیں ۔ وہ نوآموز ادباء کا پر تپاک استقبال کرتے ہیں۔پہلا قدم رکھنے کے بعد ہی مجھے یہ محسوس ہوا ہے کیوں کہ انہوں نے میرے کام کو سراہا، میری حوصلہ افزائی کی اور اپنے قیمتی مشوروں سے بھی نوازا ۔ 
آپ کے نزدیک ادب کیا ہے؟ اور کیا آج کی 
بھاگ دوڑ بھری زندگی میں انسان کو ادب کی ضرورت ہے؟ 
 ادب زندگی کا آئینہ اور زندگی کا ترجمان ہے۔ادب نے ہر دور کےتقاضوں کو پورا کیا ہے۔ اس  لئے ہر دور میں اس کی اہمیت مسلم ہے۔ میرے نزدیک ادب دل کی آواز ہے۔یہ آواز شاعر و ادیب کے دل سے آتی ہے اور قاری کے دل پر دستک دیتی ہےاور پھر معاشرہ، قوم و ملت اور خود انسان کو بدلنے کے عزائم طے پاتے ہیں۔ آج کی بھاگ دوڑ بھری زندگی میں جہاں انسان انسان سے ہی دور ہو رہا ہے وہاں ادب ہی ہے جو نئے معاشرے کی تشکیل کا خواب دکھا سکتا ہے۔
 عصری ادبی منظر نامے میں شاعر و ادیب کا کردار بیان کیجیے ـ
 تاریخ شاہد ہے کہ انقلاب ادباء کے قلم کی جولانی سے ہی آئے ہیں۔ ہر دور میں ادباء و شعراء نے اپنا لوہا منوایا ہے۔آج بھی ان کی اہمیت مستحکم ہے۔ اس پر فتن دور میں جہاں انسانیت کھوکھلی ہو گئی ہے۔ تہذیب اور ثقافت و اخلاق نام نہاد رہ گئے ہیں ۔ ایسے میں شاعر و ادیب ہی وہ واحد ذریعہ ہیں جن سے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ہماری تہذیب و ثقافت کے درخت کو مزید مضبوطی عطا کریں گے۔ 
کیا متفق ہیں کہ عصری  ادب اور تنقید کا معیار کم ہو رہا ہے ؟
  یہ سوال ان سے مناسب ہو گا جنہوں نے ادب اور تنقید میں اپنا مقام حاصل کرلیا ہے ، مجھ جیسے نو آموز سے فی الحال اس کا جواب ممکن نہیں ہےلیکن ایک بات ضرور کہہ سکتی ہوں کہ آج بھی افسانہ اور شاعری دونوں اچھے لکھے جارہے ہیں اور نئے نام بھی سامنے آرہے ہیں۔ان کی تخلیقات معیاری ہیں یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔  ویسے نوجوان ادیبوں کے کندھے پر دہرا بوجھ  ہے۔ ایک یہ کہ انہیں اپنے سینئرس کی پیروی کرنی ہے، تہذیب اوراخلاق کا معیار بر قرار رکھنا  تو دوسری طرف کچھ نیا پیش کرنا ہے جس سے ان کی پیروی آنے والی نسلیں کریں۔ موجودہ دور کی ہولناکی سے ہم سب واقف ہیں۔ ایسے میں ادیب و شاعر کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے کہ وہ دور حاضر کے تقاضوں کو پورا کرنے والا ادب تخلیق کریں۔
نئے قارئین کیسے آئیں گے؟آپ کا مشورہ  
 جیسے فصل اگانے کے  لئے بیج بویا جاتاہے،اس کی سینچائی کی جاتی ہے تب جاکر پھل لگتے ہیں۔ اسی طرح نئے قارئین پیدا کرنے کے لئے ادب برائے اطفال کی زیادہ ضرورت ہے۔ اگر بچوں کو ان کے ذوق و شوق کے مطابق ادب ملے گا تو بچپن سے ہی ان میں مطالعہ کا شوق پروان چڑھے گا۔ اگر ہم ان کو ایسا ادب دینے سے قاصر ر ہیں تو پھر ہمیں مستقبل کے قارئین سے ہاتھ دھولینا چاہئے۔اس  لئےبچوں کو مطالعہ کی ترغیب اور ان کے معیار کا ادب فراہم کرنا دونوں ضروری سمجھتی ہوں۔ 

Writer Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK