Inquilab Logo

ملک کے صف اول کے افسانہ نگار و ناول نگار شموئل احمد خالق حقیقی سے جاملے

Updated: December 26, 2022, 10:31 AM IST | New delhi

ایک عرصے سے بیمار تھے اور جگرکے کینسر سے جوجھ رہے تھے ، نوئیڈا میں بیٹی کی رہائش گاہ پر آخری سانس لی ، دہلی میں ہی تدفین عمل میں آئی

Shmuel Ahmed is a well-known fiction writer
معروف افسانہ نگار شموئل احمد

  دہائی کے مشہور افسانہ و ناول نگار شموئل احمد کا اتوار کی صبح نوئیڈا میں اپنی بیٹی کی رہائش گاہ پر انتقال ہوگیا۔وہ  ایک عرصے سے بیمار تھے اور لیور کے کینسر  میں مبتلا تھے۔  انتقال کے وقت ان کی عمر تقریباً ۷۷؍برس تھی۔ ان کے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں۔نوئیڈا میں ہی ان کی تدفین عمل میں آگئی ۔    اپنے انداز کے نرالے اور بے باک افسانہ نگار شموئل احمد   بڑا بیٹا پونے میں پروفیسر ہے جبکہ چھوٹا بیٹا پائلٹ ہے ۔ بیٹی نوئیڈا میں ہی اپنا این جی او  چلاتی ہے ۔سنگھار دان جیسی کہانی کے خالق شموئل احمد اپنے منفرد اسلوب اور بے باک  لہجے کے لئے جانے جاتے تھے۔ ان کے ہر افسانے میں ایک نیاتجربہ اور نئی حسیت کار فرما نظر آتی ہے۔شموئل احمد پیشے کے اعتبار سے ایک انجینئر  تھے لیکن ان کی بنیادی شناخت ایک ناول  و افسانہ نگار کی حیثیت سے تھی ۔ ان کے متعدد ناول اور افسانوں کے مجموعے شائع ہوچکے ہیں ۔ کئی اہم ایوارڈز بھی وہ حاصل کرچکے ہیں ۔ 
 ان کا پہلا مجموعہ ’بگولے ۱۹۸۸ءمیں شائع ہوا تھا ۔ ہم عصر اردو فکشن میں شموئل احمد کا نام کافی اہمیت کا حامل ہے۔فکشن کے حوالے سے اردو افسانے کی بات کریں یا ناول نگاری کا جائزہ لیں تو  شموئل احمد کا شمار اہم ترین فنکاروں میں ہوگا۔  انہوں نے  ناول اور افسانہ ، دونوں اصناف میں طبع آزمائی کی لیکن ان کا  اسلوب انہیں دوسرے ہم عصروں سے ممتاز کرتا ہے۔ شموئل احمدنے سماج کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر قارئین کے سامنے اس طرح سے بیان کیا گویا وہ شخص کا ذاتی مسئلہ بن گیا ہو۔ انہوں نے موضوع کے انتخاب میں محتاط رویّہ اختیار کیا  اور اس میں بھی اپنی انفرادیت کو برقرار رکھتے ہوئے تخلیق کو پیش کیا ۔
  ۴مئی ۱۹۴۳ء کو صوبۂ بہار کے مردم خیز ضلع بھاگلپورمیں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی جبکہ میٹرک گیا سے پاس کیا۔  جمشید پور سے سول  انجینئرنگ کا امتحان پاس کیا اور ڈگری حاصل کی۔۱۹۷۳ء کے اوائل میں بوکارو میں بہ حیثیت انجینئر نوکری کا آغاز کیا اور چیف انجینئر کی  پوسٹ سے۲۰۰۳ء میں سبکدوش ہوئے۔شموئل احمد نے اوائل عمری سے ہی کہانیاں لکھنا شروع کردی تھیں۔ان کی ابتدائی دو کہانیاں اس وقت شائع ہوئیں جب وہ درجہ ششم کے طالب علم تھے۔ ۷۰ءکی دہائی میں شموئل احمد نے افسانہ نگاری کی دنیا میں قدم رکھا ۔ افسانہ نگاری کے علاوہ شموئل احمد نے دو ناول بھی تحریر کئے۔سوانحی کولاژ پرمشتمل ان کی ایک کتاب’اے دل آوارہ‘کے عنوان سے حال ہی میںشائع ہوئی ہے۔ ان کتابوں میں بگولے،سنگھار دان ،القمبوس کی گردن  اورعنکبوت    افسانوی مجموعے ہیں جبکہ ندی (ناولٹ) ،مہاماری (ناول) اور گرداب (ناول ) ہیں۔  عنکبوت ،  اونٹ ،  ظہاراور سنگھار دان جیسی کہانیاں شموئل  کے قلم سے ہی نکل سکتی تھیں۔ بتایا جارہا ہے کہ شموئل احمد کو علم نجوم سے بھی گہرا شغف تھا ۔ انہوں  نے علم نجوم کی اصطلاحوں کا بہت  تخلیقی اظہارمصری کی ڈلی  چھگمانس  اور القمبوئس کی گردن جیسی کہانیوں میں کیا ہے۔ وہ ہندی زبان پر بھی  یکساں قدرت رکھتے تھے اور ہندی میں بھی مسلسل لکھتے رہے۔ شموئل احمد کے افسانوں کا ترجمہ  انگریزی کی علاوہ ہندوستان کی دوسری زبانوں میں بھی ہو چکا ہے. پنجابی میں ان کے نمائندہ افسانوں کا  انتخاب    شائع  ہوا ہے۔شموئل ٹیلی اسکرپٹ بھی لکھتے  تھے۔ ان کی کہانی آنگن کا پیڑ ، کاغذی پیراہن  او ر مرگ ترشنا  پر ٹیلی فلمیں بن چکی ہیں جس کی اسکرپٹ شمو ئل احمد نے ہی لکھی تھی ۔  شموئل احمد کا دوسرا ناول  مہاماری اردو کے اہم سیاسی ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔ وہ  صف اول کے مترجم  رہے۔ ساہتیہ  اکیڈمی  کے اصرار پر انہوں نے گجراتی ناول کنواں کا ہندی سے اردو میں ترجمہ کیا  تھا ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK