Inquilab Logo

ترکی اور شام کے اصل بہادروں کو ہمارا سلام

Updated: March 06, 2023, 1:15 AM IST | Ramzy Baroud | Mumbai

بہادر وہ نہیں جو بستیوں اور آبادیوں پر میزائل پھینکتا ہے، بہادر وہ ہے جو قدرتی آفات سے متاثرہ لوگوں کی ہر ممکن طریقے سے حفاظت کی کوشش کرتا ہے۔ بہادر وہ بھی ہے جو محاذ جنگ پر انسانیت کیلئے تڑپتا ہے اور لوگوں کو بچاتا ہے۔

Turkey
ترکی

وہ ۷؍ فروری کا دن تھا جب شمالی شام کے شہر جندارس میں ایک نعش کو سپرد خاک کیا جارہا تھا۔ اُس روز شام اور ترکی میں ایسی کئی نعشوںکی تدفین کا عمل جاری تھا۔ اس دوران سب سے زیادہ محسوس کی جانے والی بات غم اور اُمید کی وہ ملی جلی کیفیت تھی جسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے پہلے، بچاؤ مہم کے رضاکاروں نے ایک مکان کے ملبے سے ایک ایسے بچے کو باہر نکالا جس کی نال ماں کے جسم سے اب بھی بندھی ہوئی تھی۔ رضاکاروں نے فوراً ہی نال کو کاٹا اور بچے کو اسپتال لے گئے۔ یہ بچہ جس گھر کا چشم و چراغ تھا، وہاں کوئی نہیں بچ پایا تھا۔ 
 فروری کے پہلے اور دوسرے ہفتے میں جب بچاؤ کام تیزی سے جاری تھا، فضا میں بار بار تکبیر گونجتی۔ جب بھی کوئی شخص ملبے سے زندہ نکلتا وہاں موجود لوگ خواہ وہ طبی عملے کے لوگ رہے ہوں یا بچاؤ مہم کے رضاکار، سب کی زبان سے اللہ اکبر بلند ہوتا۔ ہرچند کہ سب کی آوازیں رُندھی ہوئی ہوتی تھیں مگر نعرہ ضرور بلند ہوتا تھا۔ اس سے اُن کی ہمت اور حوصلہ بڑھ جاتا تھا۔
 ترکی کا وہ معصوم بچہ، جس کا نام یگت ککمارک ہے، کافی عرصے تک یاد رکھا جائے گا۔ ہتے شہر میں اس بچے کو اس کی ماں کے ساتھ ملبے سے نکالا گیا تھا۔ منظر ایسا تھا جیسے ماں اور بچہ ایک دوسرے کو سہارا دیئے ہوئے ہوں۔ ۵۲؍ گھنٹوں کی تلاش کے بعد ان کا برآمد کیا جانا اپنے آپ میں ایک معجزہ تھا۔ جس نے بھی دیکھا وہ اس منظر کو فراموش نہیں کرسکے گا۔ 
 ممکن ہے آپ نے بھی اُس شامی بچی کی تصویر دیکھی ہو، جب اُسے ملبے سے نکالا جارہا تھا تب اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ بلاشبہ، ملبے سے نکالے جانے والے کئی بچے مسکراتے ہوئے ملے مگر اِس شامی بچی کی مسکراہٹ زیادہ معنی خیز تھی۔ اُس کی نظر جس شخص پر سب سے پہلے پڑی وہ اس کے والد تھے۔
 صاحبو، بہادری ایسا لفظ ہے کہ جس سے منسوب ہوجائے اس پر لوگ فخر کرتے ہیں مگر ترکی اور شام کے زلزلے کے بعد ملبے سے متاثرین کو نکالنے والے رضاکار بہادر کہلانے کے اصل حقدار ہیں جنہوں نے سیکڑوں جانیں بچائیں۔ یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ ہم بہادری کا لفظ عموماً جنگ کے پس منظر میں استعمال کرتے ہیں۔ کبھی لفظ ’بہادر‘ کا استعمال صحیح حقداروں کیلئے نہیں کرتے۔ مَیں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ جنگ کے ماحول میں رہتے ہوئے، جنگ کا منظرنامہ قلمبند کرتے ہوئے اور اخبارات کیلئے محاذ جنگ کی خبریں ارسال کرتے ہوئے گزارا ہے۔ اور میں نے ہمیشہ محسوس کیا ہے کہ جنگ میں بہادری کم کم ہی دکھائی دیتی ہے۔ محاذ جنگ پر مجھے بہادری کا احساس اُسی وقت ہوا جب عوام نے کسی جارح طاقت کے خلاف مزاحمت کی یا میزائل سے تباہ شدہ عمارت کے ملبے سے لوگوں کو زندہ نکالا یا زخمیو ںکو اسپتال پہنچایا یا خون کا عطیہ دینے کیلئے بے تاب دکھائی دیئے یا متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور محدود وسائل کے باوجود اُن کی ہر ممکن طریقے سے مدد کی۔ 
 ترکی میں ایسے مناظر جابجا دیکھے گئے۔ انسانی ہمدردی کے مناظر۔ ہر وہ جگہ جہاں ملبہ پڑا تھا اور انسانی زندگیوں کو بچانے کی جدوجہد جاری تھی، انسانیت، محبت، دوستی اور ہمدردی کی عظیم الشان تاریخ لکھی جارہی تھی۔ جو ملبے کے باہر تھے وہ ملبے میں دبے ہوئے لوگوں کے لئے تڑپ رہے تھے۔ ان تڑپنے والوں میں متعلقین بھی تھے اور غیر متعلق لوگ بھی، مگر جذبۂ انسانیت کچھ اس طرح موجزن تھا کہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ جب کہیں کسی متاثر شخص کا ہاتھ یا پیر دکھائی دیتا، راحتی عملے کے لوگ دوڑ پڑتے اور سب سے پہلے یہ دیکھنے کی کوشش کرتے کہ نبض چل رہی ہے یا نہیں۔ وہ عورت ہے یا مرد، اس کی زبان کون سی ہے، اس کا مذہب کیا ہے، اس کا رنگ کیسا ہے، اس کی عمر کیا ہے، یہ سارے سوالات بے معنی تھے۔ اگرکوئی چیز معنی رکھتی تھی تو یہ کہ سانس چل رہی ہے یا نہیں۔
 ایسے واقعات کسی بھی ملک میں وقوع پزیر ہوسکتے ہیں خواہ وہ شام ہو یا ترکی، اٹلی ہو یا الجیریا، جاپان ہو یا کوئی اور۔ بچاؤ مہم میں شامل افراد کے رنگ، مذہب، قومیت، علاقہ وغیرہ کے بارے میں جاننے سے کسی کو دلچسپی نہیں ہوتی۔ اس کے باوجود یہ حقیقت بھی جھٹلائی نہیں جاسکتی کہ جب حالات معمول پر آنے لگتے ہیں اور زخم بھرنے لگتے ہیں تب ہماری یادداشت جواب دینے لگتی ہے اور ہم بہت سی باتیں بھول جاتے ہیں۔ کووڈ کے دور میں کیا ہوا تھا؟ سب کا غم ایک جیسا تھا اس لئے کوئی یہ نہیں پوچھ رہا تھا کہ تم کون ہو، کہاں کے ہو، کس مذہب کے ماننے والے ہو۔ سب ایک دوسرے کی مدد کیلئے دوڑ جاتے تھے مگر کووڈ ختم ہوا اور ہماری یادداشت محو ہونے لگی، ہم بھول گئے کہ ہم انسانیت کیلئے سرگرم عمل تھے۔ اب وہ جذبہ ٔ انسانیت کہاں گیا؟ لوگوں کو بچانے کیلئے ٹیکنالوجی اور طبی و مالی وسائل کو عام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے مگر جیسے ہی مصیبت کا دور ختم ہوتا ہے، انسان سب کچھ بھول جاتا ہے اور جو کچھ بھی مصیبت کے دور میں کررہا تھا، عام دنوں میں اس کے برخلاف کرنے لگتا ہے۔ 
 ہرچند کہ ابھی کووڈ کا خطرہ ٹلا نہیں ہے اس کے باوجود اکثر حکومتیںاپنے پرانے ڈھرے پر آگئی ہیں۔ اب اُن کے سامنے وہ معاملات ہیں جو ترجیحات میں شامل ہیں مثلاً جنگ کا منصوبہ تیار کرنا، علاقائی مسائل اُٹھانا، اسلحہ پر زیادہ سے زیادہ خرچ کرنا۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق عالمی فوجی خرچ ۲؍ کھرب ڈالر سے زیادہ ہوچکا ہے۔ اگر یہ خطیر رقم انسانوں کی مدد کرنے، اُن کے آنسو پونچھنے، اُن کی بازآبادکاری کرنے، اُنہیں غربت سے نکالنے اور بیماری یا قدرتی آفات سے بچانے پر صرف کی جاتی تو انسانیت کی کتنی بڑی خدمت ہوتی۔ مگر نہیں، حکومتوں کو خرچ کرنا ہے جنگوں پر، ہتھیاروں پر اور اپنی بالادستی کیلئے۔ خدمت ِ انسانیت سے اُن کی دلچسپی وقتی ہوتی ہے۔
 اس ستم ظریفی کو بھی ملاحظہ کیجئے کہ جس تیزی سے جنگ زدہ ملکوں میں خطرناک اسلحہ پہنچایا جاتا ہے اُتنی تیزی سے قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں میں دوائیں اور بچاؤ کا سامان نہیں بھیجا جاتا۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ ہماری ترجیحات کب درست ہوں گی؟ n

turkey Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK