پیر کو پی کے کے نے اعلان کیا کہ وہ کم و بیش ۴۰؍ سال سے جاری اپنی بغاوت ختم کررہا ہے۔ پارٹی کی تمام سرگرمیاں فوری طور پر بند کی جارہی ہیں۔ اب کردوں کا مسئلہ ایک ایسے موڑ پر آ گیا ہے جہاں اسے جمہوری سیاست کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔
EPAPER
Updated: May 12, 2025, 9:09 PM IST | Ankara
پیر کو پی کے کے نے اعلان کیا کہ وہ کم و بیش ۴۰؍ سال سے جاری اپنی بغاوت ختم کررہا ہے۔ پارٹی کی تمام سرگرمیاں فوری طور پر بند کی جارہی ہیں۔ اب کردوں کا مسئلہ ایک ایسے موڑ پر آ گیا ہے جہاں اسے جمہوری سیاست کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔
— کردستان ورکرز پارٹی ( پی کے کے) نے کہا کہ وہ خود کو تحلیل کررہی ہے ۔ خیال رہے کہ اس پارٹی کا ترکی کے ساتھ کئی دہائیوں سے تنازع تھا۔ یہ ایک تاریخی اقدام ہو گا ہے۔ اس تنازع میں اب تک دسیوں ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ عسکریت پسند گروپ نے آج کہا کہ ’’گروپ کے نام سے کی جانے والی تمام سرگرمیاں ختم ہو گئی ہیں۔ اب کردوں کا مسئلہ ایک ایسے موڑ پر آ گیا ہے جہاں اسے جمہوری سیاست کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ ۱۲؍ ویں کانگریس، گروپ کی طرف سے ایک اعلیٰ سطحی فیصلہ سازی کے اجلاس میں، پی کے کے کے تنظیمی ڈھانچے کو تحلیل کرنے اور مسلح جدوجہد کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔اس عمل کے نفاذ کا انتظام اور قیادت ان کے قید لیڈر عبداللہ اوکلان کریں گے۔‘‘
تاہم، بیان میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ آیا یہ فیصلہ عراق، شام اور ایران میں پی کے کے سے وابستہ تمام تنظیموں پر لاگو ہوگا اور نہ ہی اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ تخفیف اسلحہ کیسے کیا جائے گا یا موجودہ جنگجوؤں کے ساتھ کیا ہوگا۔ گروپ نے کہا کہ ’’ترک اور کرد تعلقات کی تعمیر نو ناگزیر ہے اور یہ فیصلہ مشرق وسطیٰ میں موجودہ پیش رفت سے بھی متاثر ہوا ہے۔‘‘ اس نے ترک صدر رجب طیب اردگان کی حکومت اور تمام سیاسی جماعتوں سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ ذمہ داری قبول کریں اور امن اور جمہوری معاشرے کے عمل میں شامل ہوں۔
اس ضمن میں ترک ایوان صدر نے کہا کہ پی کے کے کا فیصلہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اردگان کی قیادت میں دہشت گردی سے پاک ترکی کا عمل طاقت حاصل کر چکا ہے اور ایک اہم مرحلے پر آ گیا ہے۔ اس عمل کو آگے بڑھانے کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کئے جائیں گے۔ صدر کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ (اے کے) پارٹی کے ترجمان نے کہا کہ یہ فیصلہ ایک نئے دور کا باعث بن سکتا ہے۔عمر سیلک نے کہا کہ ’’اگر دہشت گردی مکمل طور پر ختم ہو جاتی ہے، تو ایک نئے دور کا دروازہ کھل جائے گا۔اس فیصلے کو عملی طور پر لاگو کیا جانا چاہئے اور اس کی تمام جہتوں پر عمل کیا جانا چاہئے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: مہاراشٹر: ۱۳؍ مئی یعنی کل ایک بجے ایس ایس سی کے نتائج کا اعلان ہوگا
واضح رہے کہ تقریباً پانچ دہائیوں سے، ترکی، پی کے کے کے ساتھ جنگ میں ہے، جسے اوکلان نے ۱۹۷۸ء میں قائم کیا تھا۔ زیادہ تر لڑائی ملک کے جنوب مشرق میں ایک آزاد کرد ریاست کے قیام کیلئے گروپ کی خواہش پر مرکوز رہی ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں اس گروپ نے اس کے بجائے ترکی کے اندر مزید خود مختاری کا مطالبہ کیا ہے۔ مارچ میں پی کے کے نے فوری جنگ بندی کا اعلان کیا جب اوکلان نے جنگجوؤں سے ہتھیار ڈالنے اور گروپ کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس تنازعے میں کم از کم ۴۰؍ ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ کرد عوام کے اردگان کے ساتھ پیچیدہ تعلقات رہے ہیں۔ ترک لیڈر نے ابتدائی برسوں میں کردوں کو مزید حقوق دے کر اور ان کی زبان کے استعمال پر پابندیوں کو تبدیل کر کے ان کی حمایت کی تھی۔ اقلیتی حقوق گروپ انٹرنیشنل کے مطابق کرد، ترکی میں سب سے بڑی اقلیت ہیں، جو آبادی کا ۱۵؍ سے ۲۰؍ فیصد ہیں۔ شمالی شام، شمالی عراق اور ایران میں بھی ان کی بڑی تعداد ہے۔