Inquilab Logo

پارلیمانی اجلاس اور جمہوری تقاضے

Updated: September 23, 2020, 7:26 AM IST | Editorial

پارلیمانی اجلاس جاری ہے اورگزشتہ روز ساڑھے تین گھنٹے میں راجیہ سبھا میں سات بل منظور ہوئے ہیں۔ اتنے کم وقت میں اتنے زیادہ بلوں کا پاس ہونا اپنے آپ میں حکومت کی کامیابی ہے جسے آنے والے وقت میں حکومت بصد افتخار بیان کرے گی مگر یہ کامیابی کیسے حاصل ہوئی یہ اہم سوال ہے۔

Lok Sabha - Picture : PTI
لوک سبھا ۔ تصویر : پی ٹی آئی

 پارلیمانی اجلاس جاری ہے اورگزشتہ روز ساڑھے تین گھنٹے میں راجیہ سبھا میں سات بل منظور ہوئے ہیں۔ اتنے کم وقت میں اتنے زیادہ بلوں کا پاس ہونا اپنے آپ میں حکومت کی کامیابی ہے جسے آنے والے وقت میں حکومت بصد افتخار بیان کرے گی مگر یہ کامیابی کیسے حاصل ہوئی یہ اہم سوال ہے۔
  پارلیمانی جمہوریت میں اپوزیشن کی غیر موجودگی میں بلوں کی منظوری باعث توقیر نہیں سمجھی جاسکتی۔ بہتر ہوتا کہ ان بلوں پر بحث ہوتی اور یہ جوں کے توں یا بعض ترامیم کے ساتھ شایان شان طریقے سے منظور کئے جاتے جیسا کہ طریقہ ہے۔ اس کارخیر کی انجام دہی کیلئے ضروری تھا کہ اپوزیشن کو اعتماد میں لیا جاتا مگر حکومت نے اس کی قطعاً ضرورت محسوس نہیں کی۔ یہ نہ ہوتا تو اپوزیشن کو یہ نہ کہنا پڑتا کہ یہ بل کسانوں کیلئے پروانہ ٔ موت (ڈیتھ وارنٹ) ہے، یا، یہ دِن جمہوریت کیلئے افسوسناک ہے۔ کئی جماعتوں کو اس بات پر بھی حیرت تھی کہ زرعی بلوں کی منظوری کیلئے اتنی عجلت کا مظاہرہ کیوں کیا گیا۔ حکمراں اتحاد کا اکثریت میں ہونا اپوزیشن کی پروا یا فکر نہ کرنے کا سبب نہیں بننا چاہئے بلکہ ایسی صورت میں حکومت کے پاس موقع ہوتا ہے کہ حزب اختلاف کی پارٹیوں کے مطالبات کو سنجیدگی سے سنے، اُن پر غور کرے اور جن مطالبات کو منظور کیا جاسکتا ہے اُنہیں منظور کرے۔ اس سے جمہوریت زیادہ بامعنی اور مستحکم ہوتی ہے۔ اور اگر یہ سب نہ کیا جاتا ہو تو پھر پارلیمنٹ کی بھی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ 
 پارلیمنٹ اس لئے ہے کہ قانون سازی کا عمل اور اُمور حکومت احتسابی مراحل سے گزریں۔ موجودہ حالات میں حکمراں اتحاد کو ایوان میں اپنی شاندار اکثریت کے باوجود احتسابی عمل سے گزرنے کے معاملے میں خود اپنا احتساب  کرنا چاہئے کہ وہ اس ضرورت کو کس حد تک پورا کررہا ہے۔
 اس سلسلے میں وقفۂ سوالات کا ختم کیا جانا بھی افسوسناک ہے۔ اس وقفے کے دوران اراکین پارلیمان وزراء سے ایسے سوالات پوچھ سکتے ہیں جن سے اُن کی جوابدہی طے کی جاسکے۔ یہ پارلیمانی روایت جتنی پُروقار ہے مقصد کے اعتبار سے اتنی ہی اہم بھی ہے۔ وقفۂ سوالات ہی سے حکومت کو ، اراکین پارلیمان کے مباحث سننے اور بالواسطہ طور پر عوامی رجحان معلوم کرنے کا موقع ملتا ہے۔ سوال نہیں پوچھا گیا تو جواب نہیں دیا جائے گا اور جواب نہیں دیا گیا تو عوام کو کچھ بھی معلوم نہ ہوسکے گا کہ کہاں کیا ہورہا ہے۔ یہ لاعلمی جمہوریت کے منافی ہوگی!  
 پارلیمنٹ کے جاری اجلاس میں وقفۂ سوالات کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ تھی بالخصوص کووڈ۔۱۹؍ کی وباء، لاک ڈاؤن اور اس سے پیدا شدہ عوامی مسائل کے پس منظر میں۔ وقفۂ سوالات کی گنجائش نکالی جاتی تو ممکن تھا کہ گزشتہ پانچ چھ ماہ کے دوران حکومت کی کارکردگی یا ’ناکارکردگی‘ کو آنکنے اور اس کی تفصیل عوام کے سامنے لانے میں پارلیمانی اختیار کا استعمال کیا جاتا۔ اِس وقت ملک کے عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا اتنے سخت لاک ڈاؤن کی ضرورت تھی جبکہ اس کی وجہ سے متاثرین کی تعداد کم نہیں ہوئی؟ مزدوروں کی حالت زار کیلئے ذمہ دار کون ہے؟ حکومت کے پاس اُن مزدوروں کا کوئی ڈاٹا کیوں نہیں ہے جو لاک ڈاؤن کے دوران ہلاک ہوئے؟ روز بہ روز بڑھتی معاشی زبوں حالی اور روزگار کے شدید مسائل کے حل کیلئے حکومت کیا سوچ رہی ہے؟ وغیرہ۔ 
 وقفۂ سوالات ہوتا تو سوالات کے جواب میں جو باتیں سامنے آتیں اُن سے عوام کو کووڈ۔۱۹؍ کےسائے میں گزرنے والے گزشتہ پانچ چھ ماہ کی بہت کچھ تفصیل سے آگاہی کا موقع ملتا، مگر افسوس کہ کووڈ۔۱۹؍ ہی کی آڑمیں اس مرتبہ یہ وقفہ نہیں رکھا گیا چنانچہ عوام جو پارلیمانی اجلاس کے پہلے لاعلم تھے، اب بھی لاعلم رہیں گے۔ یہ ہماری پارلیمانی جمہوریت کیلئے بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے

lok sabha Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK