Inquilab Logo

پارلیمانی انتخابات کا خرچ اور مقصد

Updated: April 25, 2024, 1:00 PM IST | Mumbai

آپ کو یہ جان کی حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ جن انتخابات کو جیتنے کیلئے، وقت کے ساتھ سیاسی جماعتوں کی رسہ کشی بڑھتی جارہی ہے اور اخیر اخیر تک پوری طاقت جھونکی جاتی ہے اُن پر سرکاری خزانے سے خرچ ہونے والی رقم غیر معمولی ہے۔ آدمی زیادہ خرچ کرکے اچھی چیز حاصل کرنا چاہتا ہے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

انتخابات میں ہر ووٹر کو اپنے ووٹ کا استعمال لازماً کرنا چاہئے یہ بات سب کہتے ہیں اور بہت سے رائے دہندگان اس کی اہمیت کو سمجھتے بھی ہیں اس کے باوجود پندرہ تا ساٹھ فیصد رائے دہندگان ایسے ہیں جن پر یا تو بے دلی طاری ہوجاتی ہے یا جو غفلت سے کام لیتے ہوئے اپنے دیگر مشاغل کو ترجیح دیتے ہیں اور ووٹ دینے نہیں جاتے۔ ہر ووٹر کو اس لئے لازماً ووٹ دینا چاہئے کیونکہ جس جمہوری عمل کو تقویت دینے اور ملک میں جمہوریت کو مستحکم کرنے کے مقصد سے الیکشن کرائے جاتے ہیں اُن پر خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے۔ جب تک ایک ایک رائے دہندہ کی شرکت یقینی نہیں ہوگی تب تک اتنے بڑے خرچ کو زیادہ سے زیادہ بامعنی بنانے اور عوام کی رائے کو حقیقی نمائندگی میں ڈھالنے کا مقصد پورا نہیں ہوگا۔ 
آپ کو یہ جان کی حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ جن انتخابات کو جیتنے کیلئے، وقت کے ساتھ سیاسی جماعتوں کی رسہ کشی بڑھتی جارہی ہے اور اخیر اخیر تک پوری طاقت جھونکی جاتی ہے اُن پر سرکاری خزانے سے خرچ ہونے والی رقم غیر معمولی ہے۔ آدمی زیادہ خرچ کرکے اچھی چیز حاصل کرنا چاہتا ہے۔ الیکشن پر زیادہ خرچ ہورہا ہے تو نتائج کے ذریعہ عوامی جذبات و احساسات کی بھرپور ترجمانی ہونی چاہئے ورنہ اتنی بڑی مشق اور مشقت محض رسم بن کر رہ جائیگی جبکہ خرچ اُتنا ہی ہوگا۔ جاری پارلیمانی انتخابات کے پہلے مرحلے میں گزشتہ جمعہ کو کئی حلقوں میں بہت کم پولنگ ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس مقصد کو پانے کیلئے اتنا بڑا خرچ کیا جارہا ہے وہ ادھورا رہےگا اگر عوام کی شرکت متاثر رہی۔ سینٹر فار میڈیا اسٹڈیز کے جاری کردہ اندازے کے مطابق جاری پارلیمانی الیکشن اب تک کا سب سے زیادہ خرچیلا الیکشن ہوگا جس پر ایک لاکھ کروڑ تک کا خرچ آسکتا ہے۔ یہ ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے جب علی الترتیب ۳۸۷۰؍ کروڑ اور ۵۰؍ ہزار کروڑ روپے خرچ ہوئے تھے۔ 
قارئین کیلئے یہ جاننا دلچسپ ہوگا کہ آزاد ہندوستان کے اولین پارلیمانی انتخابات کے وقت کیا صورت حال تھی اور اب کیا ہے۔ اولین پارلیمانی انتخابات ۵۲۔ ۱۹۵۱ء میں ہوئے تھے، رائے دہندگان کی تعداد ۱۷؍ کروڑ ۳۰؍ لاکھ تھی۔ اب یہ تعداد کہیں زیادہ بڑھ کر ۹۶؍ کروڑ ۸۰؍ لاکھ ہوچکی ہے۔ اُس وقت پولنگ بوتھوں کی تعداد ایک لاکھ ۹۶؍ ہزار تھی، اب ۱۰؍ لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ اولین پارلیمانی انتخابات میں ۵۳؍ پارٹیوں کے ۱۸۷۴؍ اُمیدوار میدان میں تھے، ۲۰۱۹ء میں ۶۷۳؍ پارٹیوں کے ۸۰۵۴؍ اُمیدواروں نے تقدیر آزمائی۔ ظاہر ہے کہ آبادی بڑھی، رائے دہندگان کی تعداد بڑھی، پولنگ بوتھ بڑھائے گئے اور ان سب کے نتیجے میں الیکشن پر خرچ ہونے والی رقم آسمان پر پہنچ گئی۔ اسے اس طرح سمجھئے کہ اگر ۵۲۔ ۱۹۵۱ء کے پہلے پارلیمانی الیکشن پر فی ووٹر چھ پیسے خرچ آیا تھا تو اَب ۴۶؍ روپے خرچ آرہا ہے۔ 
یہ سب اس لئے ہوتا ہے تاکہ ملک کو عوام کی پسند کی حکومت ملے جو عوام کے مفاد میں سرگرم رہے۔ اگر عوام بے دلی اور غفلت کا مظاہرہ کرینگے تو یہ مقصد پورا نہیں ہوگا۔ اس سلسلے میں معترضین ای وی ایم، پارٹیوں کی دھوکہ دہی، عوامی مفادات پر ذاتی مفادات کی ترجیح کے رجحان اور ایسے ہی دیگر محرکات کا حوالہ دے سکتے ہیں جو انتخابات پر سوالیہ نشان ہیں۔ یہ اعتراض درست ہے مگر اس کا جواب یہی ہے کہ عوام کی زیادہ سے زیادہ شرکت اور سوجھ بوجھ کے ساتھ فیصلے کے سبب انتخابات زیادہ بامعنی ہونگے تو سیاسی جماعتیں خبردار ہوں گی اور لیڈران عوام کو نظر انداز نہیں کرسکیں گے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK