Inquilab Logo

پریم چند کا اہم کارنامہ سماج کے دَبے کچلے کرداروں کو زندگی دینا ہے

Updated: July 26, 2020, 9:41 AM IST | Pro Ali Ahmed Fatimi

اُن سے پہلے اُردو شاعری اور افسانے پر معیار پسندی اور تعیش پسندی غالب تھی، اُنہوں نے جیتے جاگتے اور زمین سے جڑے ہوئے انسانوں اور اُن کے حالا ت زندگی کو افسانوں کے کردار میں ڈھال دیا

Munshi Premchand - Pic : INN
منشی پریم چند ۔ تصویر : آئی این این

بہت پہلے خدائے سخن میر تقی میر نہ جانے کس جوش و جذبے میں یہ کہہ گئے
شعر میرے ہیں گو خواص پسند=پر مجھے گفتگو عوام سے ہے
 سچ پوچھئے تو ان کا شعری نظریہ یا شاعرانہ رویہ اس سے الگ ہی تھا۔ اب تو تازہ تحقیق یہ کہتی ہے کہ یہ شعر میر کا ہے ہی نہیں بلکہ میر کے کسی ہم عصر کا ہے، تو یقین کرلینے کو جی چاہتا ہے۔ میرؔ سے لے کر غالبؔ تک اور مومنؔ سے لے کر اصغرؔو جگرؔ تک اردو شاعری کا تاریخی، تہذیبی اور تخلیقی سفر ایک خاص معیار پرستانہ اور کہیں کہیں تعیش پسندانہ ماحول میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے۔ دبستان ِلکھنؤ اور دبستان ِداغ بطور خاص معیار پرستی اور مشکل پسندی کے شائق تھے۔ اس دور میں دہلی اور لکھنؤ سے دور اکبر آباد میں بیٹھے ہوئے ایک عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی نے روایتی و رومانی موضوعات سے بالکل الگ ان موضوعات کا انتخاب کیا جو بالکل اجنبی اور غیر تھے تو غالب کے ہم عصر شیفتہ نے اپنے تذکرے میں اسے بازاری شاعر کہہ کر راندۂ درگاہ کردیا۔ نظیر اور ان کی شاعری غیر ہوکر رہ گئی۔ حسن و عشق کی رومانی روایات سے جڑے اُن شاعروں کی نگاہ اس طرف گئی ہی نہیں جو غیر تھے، دور تھے، پریشان حال اور مفلوک الحال تھے۔ نظیر اکبرآبادی پر ہی مضمون لکھتے ہوئے ممتاز ترقی پسند ناقد احتشام حسین نے معنی خیز بات کہی ہے کہ اردو کی اس معیار پرستی سے اگر کچھ فائدے پہنچے ہیں تو اچھے خاصے نقصانات بھی ہوئے ہیں۔ تہذیب و تکذیب کی اس پُرتصنع معیار پرستی سے ہم نے عام آدمی کو کھو دیا، صرف اپنوں کو اپنائے رکھا، غیر سے کوئی واسطہ نہ رکھا۔ 
 ۱۸۵۷ء کے آس پاس خواجہ الطاف حسین حالی جو پانی پت سے پیدل چل کر دہلی آئے تھے اور اس اجنبی شہر میں ایک مسجد میں اینٹ کا تکیہ لگا کر سوتے تھے، بعد میں وہ غالب اور شیفتہ جیسے معیاری غزل گویوں کی صحبت میں رہ کر بھی بغیر ملے نظیر سے متاثر ہوئے اور اپنے دردمندانہ انداز سے معشوق کے بجائے ماں بہن بیٹی کی طرف متوجہ ہوئے اور جب انہو ںنے بیوہ کیلئے بھی نظم کہی تو اردو کے رومانی و روایتی شعراء بلبلا اٹھے اور حالی پر حملہ بول دیا اور میدان پانی پت کی طرح پائمال کرنے کی ناکام کوشش کی لیکن جرأت ، صداقت اور حقیقت کی اپنی جمالیات ہوتی ہے چنانچہ یہی پائمالی لالی بن کر ترقی پسند فکرو نظر میں رچ بس گئی اور پریم چند کے گردو غبار کا غازہ بن گئی۔ 
 معذرت خواہ ہوں کہ پریم چند کے کرداروں اور عوامی مسائل سے ان کی دلچسپی پر اظہار خیال کی ابتداء میں مَیں شاعری کو درمیان میں لے آیا، مگر یہ پس منظر ضروری تھا۔ پریم چند نے سب سے زیادہ غیر مانوس، معمولی، کمزور اور پامال کرداروں کو پیش کیا جو اردو ادب کے لئے بالکل غیر تھے۔ یوں تو داستانوں میں بھی نسوانی کردار تھے لیکن زیادہ تر شہزادیاں یا پریاں۔ ۱۸۵۷ء کے ہنگاموں نے داستانوں کی ان خوبصورت عورتوں کے چہرے کا غازہ دھو یا ضرور لیکن پھر بھی ہم اصغری، اکبری، زمرد، کامنی اور امراؤ جان سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ یہ سب ۱۹؍ ویں صدی کا بار تو تھا ہی، جمے جمائے نظام کے خلاف کئی تحریکیں ملیں، گاندھی اور مارکس کے تصورات ملے جہاں آدرش واد، گاندھی واد اور مارکس واد کی ملی جلی دھندلی سی تصویریں اپنا کام کرنے لگی تھیں۔یہی وجہ ہے کہ دھنپت رائے بہ نام پریم چند طلوع ہوتےہیں بڑے گھر کی بیٹی سے جبکہ اردو شعر و ادب کی ابتداء عموماً محبوب و معشوق سے ہوئی ہے۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ خوبصورت عورتوں کے مقابلے کم صورت، معمولی عورتیں، بوڑھی عورتیں، بیوہ اور ابھاگن عورتیں اُردو ادب کا مرکزی کردار اور عنوان بنیں۔ ان افسانوں کے عنوان ملاحظہ کیجئے۔ بڑے گھر کی بیٹی، بیٹی کا دھن، سوتیلی ماں، بوڑھی کاکی، ابھاگن، ستی، بدنصیب ماں یا  گھاس والی وغیرہ۔ ان کرداروں کے نام دیکھئے۔ منی،بدھیا، روپا، بھونگی وغیرہ۔ یہی کردار آگے بڑھ کر بوڑھی کاکی، دادی، امینہ خالہ اور پنڈتائن کا روپ اختیار کرلیتے ہیں جنہیں پریم چند نے اس قدر دردمندانہ اور فنکارانہ طور پر پیش کیا ہے کہ یہ بوڑھے لرزتےہوئے کردار قاری کے اعصاب پر چھا جاتے ہیں۔ شاید اس لئے بھی اردو میں پہلی بار یہ معمولی اور غیر کردار داخل ہوکر دلوں میں جگہ بنا رہے تھے۔ اب تک ان کرداروں کو غیر اہم اور غیر معیاری ہی سمجھا گیا تھا۔ پریم چند کا ذہن اور ویژن بڑا تھا۔ وہ اوپری طبقہ کی طرف کم اور متوسط طبقے اور نچلے طبقے کی طرف زیادہ دیکھ رہے تھے۔ انہیں پتہ تھا کہ ہندوستانی معاشرہ میں یہی طبقات بڑے ہیں لیکن بدحال ہیں۔ وہ ان کرداروں کے ذریعہ پورے سماج کی تصویر پیش کرنا چاہتے تھے جسے اردو شاعری نے یا افسانوی ادب نے بھی لائق اعتنا نہیں سمجھا تھا۔ اپاہج کمزور بوڑھی کاکی ایک باوقعت کردار ہے جسے پریم چند نے مرکزیت دے کر صرف اس گھر کو نہیں، بلکہ پورے سماج کو کردار بنا کر اس کے رسم و رواج کو برہنہ کرکے آدمیت کی ایک ایسی دلدوز تصویر پیش کی ہے کہ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پھر یہ بھی کہ بھوک کی اہمیت جو کفن میں دوسری شکل میں دکھائی دیتی ہے، تمام تہذیب و اخلاق اور آدرش کو پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔ اب تک نسوانی کردار بھرے پیٹ اور خوشحال گھرانوں کے خوبصورت چہرے ہوا کرتے تھے لیکن پریم چند نے کمزور بورھے اور غریب کرداروں کا انتخاب کیا اور بدصورتی میں حسن تلاش کیا۔
 عید گاہ کی دادی امینہ بھی بوڑھی ہے، غریب ہے۔ پوتا حامد عید کے دن مٹھائی اور کھلونا نہ خرید کر لوہے کا چمٹا خرید تا ہے جسے دیکھ کر دادی امینہ چھاتی پیٹ لیتی ہے۔ یہ جملے ملاحظہ کیجئے: ’’امینہ نے چھاتی پیٹ لی۔ یہ کیسا لڑکا ہے کہ دوپہر ہوگئی، کچھ کھایا نہ پیا، لایا کیا بس دست پناہ۔ سارے میلے میں تجھے اور چیز نہ ملی تھی جو یہ لوہے کا چمٹا اُٹھا لایا؟‘‘ حامد نے خطاوارانہ انداز میں کہا تھا: ’’تمہاری انگلیاں توے سے جل جاتی تھیں اس لئے میں نے اسے لیا۔‘‘ اور تب ایک بڑی دلچسپ بات ہوئی، حامد کے چمٹے سے بھی عجیب،بچے حامد نے بوڑھے حامد کا پارٹ ادا کیا تھا۔ بڑھیا امینہ بچی بن گئی، وہ رونے لگی، دامن پھیلا کر حامد کو دُعا دیتی تھی اور آنکھوں سے آنسو گراتی جاتی تھی، حامد اس کا راز کیا سمجھتا

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK