Inquilab Logo

پیداواری و غیر پیداواری غریب اور جذبۂ خیر

Updated: March 26, 2023, 10:13 AM IST | Mumbai

رمضان المبارک خیرخواہی کا مہینہ ہے۔ اس خیرخواہی کا مظاہرہ صبح سے لے کر شام تک اور پہلے روزہ سے لے کر آخری روزہ تک جابجا دیکھنے کو ملتا ہے۔

Ramadan is the month of benevolence.
رمضان المبارک خیرخواہی کا مہینہ ہے۔

رمضان المبارک خیرخواہی کا مہینہ ہے۔ اس خیرخواہی کا مظاہرہ صبح سے لے کر شام تک اور پہلے روزہ سے لے کر آخری روزہ تک جابجا دیکھنے کو ملتا ہے۔ مسلمانوں میں شاید ہی کوئی ہوگا جو ماہِ مبارک میں حسب استطاعت خیرخواہی کا مظاہرہ نہ کرتا ہو۔ جو صاحب نصاب ہیں وہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ جو صاحب نصاب نہیں ہیں مگر اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے بعد کچھ نہ کچھ پس انداز کرلیتے ہیں وہ اپنے آس پاس کے لوگوں کی مدد کے علاوہ صدقہ و خیرات دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان میں مساجد اور مزارات کے قریب گداگروں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔ یہ سماج کے غریب ترین لوگ ہیں جو مانگ کر گزر بسر کرتے ہیں۔ ان میں روزی روٹی کمانے کی صلاحیت نہیں ہے یا وہ اُس صلاحیت کو بروئے کار لانے کے بجائے کشکول برداری کو ترجیح دیتے ہیں۔ چونکہ عام طور پر تمام ہندوستانی اور خاص طور پر مسلم عوام مانگنے والوں کو نوازنے پر یقین رکھتے ہیں اسلئے ہمارے ملک میں گداگروں کی تعداد چونکانے والی ہے۔ اس کی وجہ سے اُن لوگوں کی مدد تو یقیناً ہوجاتی ہے جو خود کما نہیں سکتے مگر ایک منفی پہلو بھی تقویت پاتا ہے۔ وہ ہے گدا گری میں اضافہ۔ 
 ۲۰۱۱ء میں راجیہ سبھا میں بتایا گیا تھا کہ ملک میں بھکاریوں کی تعداد چار لاکھ تیرہ ہزار چھ سو ستر ہے (۴۱۳۶۷۰) ہے۔ گزشتہ بارہ سال میں اس تعداد میں ۱۰؍ فیصد کا بھی اضافہ ہوا ہو تو یہ تعداد پانچ لاکھ تک پہنچ چکی ہوگی۔ آزادانہ ذرائع بتاتے ہیں کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر صدقہ، خیرات اور دان دکشنا دینے سے غریبوں کی مدد ہوتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ وہ پانچ دس سال بعد بھی ’’مانگنے‘‘ سے باز نہیں آتے حتیٰ کہ اُن کی اولادیں بھی مانگنے ہی کو بہتر ذریعۂ آمدنی تصور کرتی ہیں؟ 
 اس کی وجہ یہ ہے کہ ’’دینے والے‘‘ یہ نہیں دیکھتے کہ کس کو دے رہے ہیں۔ جس کو ایک بار دیا اُسی کو بار بار دیتے ہیں کیونکہ نہ تو چہرا یاد رہتا ہے نہ ہی دینے کا مقصد پیش نظر رہتا ہے۔ دینے کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ سائل یا گداگر کی اس طرح مدد کی جائے کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل ہوجائے۔ اس کیلئے کاؤنسلنگ بھی ہونی چاہئے جس کا ہمارے ملک میں کوئی نظم نہیں ہے جبکہ گداگری کے خلاف قانون موجود ہے۔ ملیشیاء میں صدقات و خیرات کا تو نہیں البتہ زکوٰۃ کی تقسیم کا  اُصول ہے جو بھیک دینے کے سلسلے میں بھی ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ وہاں مستحقین کو نوازتے وقت ذہن نشین رکھا جاتا ہے کہ کون پیداواری غریب (پروڈکٹیو پووَر) ہے اور کون غیر پیداواری غریب (نان پروڈکٹیو پووَر)۔ پیداواری غریب کا معنی ہے ایسا شخص جو مالی تعاون کو پیداواری استعمال میں لائے اور کچھ عرصہ بعد دست سوال دراز کرنے سے باز آجائے۔ غیر پیداواری غریب کا معنی ہے ایسا شخص جو حاصل شدہ مالی تعاون کو پیداواری استعمال میں لانے کے قابل نہ ہو مثلاً جو معذور ہو، نہایت خستہ حال ہو، بے حد کمزور ہو، وغیرہ۔ ملیشیا میں پیداواری غریبوں میں ۸۰؍ فیصد رقم تقسیم کی جاتی ہے اور غیر پیداواری غریبوں میں ۲۰؍ فیصد۔ معلوم ہوا کہ ملیشیا کے صاحبان خیر تعمیری انداز اپناتے ہیں۔
 کاش یہ بات ہم بھی ذہن نشین رکھیں اور مستحقین کی مدد کرتے وقت یہ دیکھیں کہ کون پیداواری غریب ہے اور کون غیر پیداواری۔ پیداواری غریب کو زیادہ سے زیادہ دیا جائے تاکہ وہ بھی دینے والا بن جائے۔ اس سلسلے میں زکوٰۃ کے فلسفے سے رہنمائی ملتی ہے۔ زکوٰۃ کا فلسفہ یہ ہے کہ ’’لینے والا‘‘ جلد یا بہ دیر ’’دینے والا‘‘ بن جائے۔ اگر صدقات و خیرات دیتے وقت بھی یہ نکتہ ذہن میں رہے تو کیا کہنا!  n

ramdan Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK