Inquilab Logo

آزادی کی قدروقیمت کو نہ سمجھنے کی سزا

Updated: November 19, 2021, 9:27 AM IST | Mumbai

حیرت ہے کہ ایک اداکارہ ملک کی جدوجہد آزادی، مجاہدین آزادی کی قربانیوں کی شاندار تاریخ اور بابائے قوم پر پے در پے حملے کررہی ہو اور اسے کچھ اس طرح نظر انداز کیاجائے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو! یقین نہیں آتا کہ سرزمین وطن پر ایسا بھی کچھ ہوسکتا ہے مگر ایسا ہورہا ہے

Freedom fighters
مجاہدین آزادی

حیرت ہے کہ ایک اداکارہ ملک کی جدوجہد آزادی، مجاہدین آزادی کی قربانیوں کی شاندار تاریخ اور بابائے قوم پر پے در پے حملے کررہی ہو اور اسے کچھ اس طرح نظر انداز کیاجائے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو! یقین نہیں آتا کہ سرزمین وطن پر ایسا بھی کچھ ہوسکتا ہے مگر ایسا ہورہا ہے، وہ بھی تسلسل کے ساتھ۔ اس اداکارہ کے ذریعہ گاندھی جی کے قول (ایک گال اور دوسرا گال) کا نشانہ بنایا جانا بھی ناقابل برداشت ہے۔ اس کے خلاف اب تک قانونی چارہ جوئی ہوجانی چاہئے تھی مگر اس کے ہر حملے کے خلاف کارروائی کے نام پر مکمل خاموشی اور بے عملی کے سبب اس کا حوصلہ بڑھ رہا ہے۔ اگر پہلے بیان (کہ آزادی بھیک میں ملی) کے خلاف بلاتاخیر کارروائی کی جاتی تو اس کی ہمت اتنی نہ بڑھتی۔ آزادی وہ غیر معمولی نعمت ہے جس سے ہزاروں نعمتیں جنم لیتی ہیں۔ جو لوگ اس ملک میں آزادیٔ تحریر و تقریر کا فائدہ اُٹھارہے ہیں اُنہیں یہ حق بھی ۱۹۴۷ء کی آزادی ہی سے ملا ہے اور وہ جس جمہوری فضا میں سانس لے رہے ہیں وہ بھی اُسی آزادی کا فیضان ہے۔ آزادی پر سوال اُٹھانے والے لوگ ایسی سیکڑوں اور ہزاروں نعمتوں کا انکار کرتے ہیں۔ یہ شدید احسان فراموشی نہیں تو اور کیا ہے۔ 
 اس اداکارہ (کنگنا رناوت) نے جدوجہد آزادی کی تاریخ پڑھی ہوتی، مجاہدین کے سولی پر لٹکائے جانےکے روح فرسا واقعات میں مضمر جذبۂ قربانی کو محسوس کیا ہوتا، پھانسی کے پھندے کو بہ رضا و رغبت چومنے لیکن ظالم انگریز حکمرانوں کے آگے سر تسلیم خم نہ کرنے کی جرأت رندانہ پر دھیان دیا ہوتا تو شاید اس کے دل میں وہ کیفیت پیدا ہوتی جس کے بعد ان محسنوں کے تئیں جذبہ استحسان و تشکر کے علاوہ کوئی دوسرا جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔ ہم وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ اداکارہ ایسا کیوں کررہی ہے یا اس کے پس پشت کون ہے مگر اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اس کے گستاخانہ بیانات کو برداشت کیا جارہا ہے وہ بھی ایسے دور میں جب ملک میں ’’آزادی کا امرت مہوتسو‘‘ منایا جارہا ہے۔ 
 اس میں شک نہیں کہ اہل اقتدار کا رویہ نہایت افسوسناک ہے مگر اس میں قصور سابقہ حکومتوں کا بھی ہے (جنہوں نے آزادی کا احساس دلانے کیلئے کچھ نہیں کیا)، محکمہ ہائے تعلیم کا بھی ہے (جنہوں نے نصاب میں تاریخ آزادی کو ضروری اہمیت نہیں دی) اور اُن تمام لیڈروں کا بھی ہے جو گزشتہ ۷۰؍ سال میں ملک کے بااثر لوگوں میں شامل رہے (مگر عوام کو آزادی کی قدروقیمت کا احساس نہیں دلایا)۔ قصورسب کا ہے۔ آزادی کیلئے دی جانے والی قربانیاں چونکہ ہمارے اسلاف کی ہیں اس لئے بعد کی نسلوں نے اُن کے جذبۂ حریت کو اس کی تمام تر جزئیات کے ساتھ نہیں سمجھا چنانچہ اس کی شایان شان قدر نہیں کی۔ آج بہتیرے لوگ ایسے ہیں جنہیں طویل تاریخ آزادی کے چند ایک ابواب سے زیادہ کا علم نہیں ہے۔ لاعلمی سے ناقدری پیدا ہوتی ہے اور جب ناقدری عام ہوجاتی ہے تو کسی ایک فرد یا گروہ کے ہذیان بکنے سے عام زندگی متاثر نہیں ہوتی۔ 
 کارروائی نہ ہونے سے لوگوں کا حوصلہ بڑھتا ہےچنانچہ عجب نہیں کہ آج جس گستاخی کا مظاہرہ ایک اداکارہ کی جانب سے ہورہا ہے، ویسے گستاخانہ واقعات  معمول بن جائیں۔ اسلئے ان واقعات کی مذمت اشد ضروری ہے کیونکہ اگر آزادی کی تحقیر عام ہوگئی تو آزادی کی حفاظت میں ہر خاص و عام کی شرکت نہیں ہوسکے گی جو کہ پہلے بھی ضروری تھی، آج بھی ضروری ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔ n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK