Inquilab Logo

آزادیٔ خیال کی اہمیت اور اس پر قدغن کا جبر

Updated: May 29, 2023, 12:32 PM IST | Anil Trivedi | Mumbai

بعض لوگ یا جماعتیں چاہتی ہیں کہ انسان اپنے دماغ سے نہ سوچے، اپنے خیالات کو اہمیت نہ دے بلکہ جو کچھ اسے بتایا اور سمجھایا جائے اُسی کو حرفِ آخر مان لے۔ یہ طرز عمل نامناسب ہے۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

آٹھ ارب آبادی کی اِس دُنیا میں پرانی اور نئی باتوں پر تسلسل کے ساتھ بات چیت اور تبادلۂ خیال ہوتا رہتا ہے۔ ضروری نہیں کہ آدمی کے ذہن میں آنے والی کوئی بھی بات یا خیال پورے انسانی معاشرہ کے طرز فکر اور طرز عمل کو بدل دے۔ خیال، محض خیالی پلاؤ بھی ہوسکتا ہے۔ انسانی معاشرہ اور افراد کے ذہنوں میں تغیر اور تبدیلی کیلئے طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔ ذہنوں کی تبدیلی کوئی ایسا عمل نہیں کہ اِدھر آپ نے چاہا اور اُدھر وہ تبدیلی رونما ہوگئی۔
 ہمارا رہن سہن، خیالات، گھر خاندان اور اس کے افراد میں خیالات اور رجحانات کی سطح پر تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں۔ یہ ایک مسلسلعمل ہے۔ ایسی کئی چیزیں ہیں جو تبدیلی کے عمل سے گزرتی رہتی ہیں۔ موجودہ دور میں سیاست، معیشت اور بازار یا منڈی کا طور طریقہ اگر بدل رہا ہے تو اس میں حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ خیالات کا دھارا ہمیشہ ایک سمت میں نہیں بہتا۔ وہ اپنا رُخ بدلتا بھی ہے۔ خیالات کی تبدیلی کے سبب انسانی طرز عمل ہی نہیں بدلتا اس کے ردعمل کا طریقہ بھی بدلتا ہے۔ اسی طریقۂ تغیر کا نتیجہ ہے کہ زندگی یکسانیت کا شکار نہیں ہوپاتی۔ اس میں کبھی دھوپ ہے تو کبھی چھاؤں، کبھی صبح کی نرم اور تازہ ہوا ہے تو کبھی شام کے خوشگوار جھونکے، کبھی تیز دھوپ ہے تو کبھی لو‘ کے تھپیڑے۔
 جب ایک طرز فکر کے حامل دو افراد یکجا ہوتے ہیں تو اُن میں ذہنی رابطہ پیدا ہوتا ہے۔ مختلف طرز فکر رکھنے والوں میں ذہنی رابطہ کا سوال نہیں پیدا ہونا چاہئے مگر وہ بھی ہوتا ہے کیونکہ ان میں بھی ذہنی رابطہ ہوتا ہے یہ الگ بات کہ اُن میں اختلاف رائے کی کیفیت ہمیشہ بنی رہتی ہے۔ بعض افراد کے آزادانہ خیالات کی اپنی اہمیت ہوتی ہے جس سے اُن کی الگ پہچان تشکیل پاتی ہے۔ ایسے افراد کسی خاص نظریہ کے پابند نہیں ہوتے۔ وہ نہ تو کسی خاص نظریہ سے اثر قبول کرتے ہیں نہ ہی کسی خاص نظریہ کی مخالفت کرتے ہیں۔ انسانی معاشرہ کا جائزہ لیا جائے تو یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ دُنیا میں جتنے انسان موجود ہوتے ہیں، اُتنے ہی خیالات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔اگر ایک جیسے دو افراد کا ہونا ممکن نہیں ہے تو ایک جیسے خیالات کے دو افراد کا ہونا بھی مشکل ہے۔ شاید اسی لئے آزادانہ خیال سے زیادہ اہم منظم اور منضبط خیال ہوتا ہے۔ 
 مگر، منظم اور منضبط خیال، انسانی معاشرہ کو بھیڑ بکری کی طرح سے ہانکنے پر یقین رکھتا ہے اسی لئے آزادانہ خیال سے کوئی متفق ہوتا ہے یا اتفاق نہیں کرتا ہے لیکن منظم اور منضبط خیال سے انسان کے عدم اتفاق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسے دوسرے الفاظ میں اِس طرح کہہ سکتے ہیں کہ جو شخص کسی منظم خیال سے اتفاق کرلے وہ اُس سے عدم اتفاق نہیں کرتا۔اگر آؑپ منظم خیال سے متفق نہیں ہیں تو  منظم زمرہ کے سرغنہ آپ کو نظم و ضبط مخالف قرار دے کر برخاست کرسکتے ہیں اور ایسا اکثر ہوتا ہے کیونکہ وہ کچھ اور چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ خود کو آزاد خیالات کا حامل قرار دیں یا باور کرائیں مگر وہ آزادانہ خیال پر یقین نہیں رکھتے بلکہ ایک محدود دائرہ میں سفر کرتے ہیں اسی لئے اگر آپ اُن سے متفق نہیں ہیں تو وہ آپ کو برخاست کرنا چاہیں گے۔ آزادانہ خیال میں برخاست کیا جانا ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ ہوا اور پانی کی طرح آزاد اور سب کیلئے دستیاب ہے۔
  آزاد خیال سے انقلاب بھی آسکتا ہے اور ابہام بھی پھیل سکتا ہے جو عوام کو مغالطے میں ڈالے اور اُنہیں مخمصے میں پھنسا دے۔ اس کے باوجود منظم خیال کے جیسی برخاستگی اس میں ممکن نہیں۔ منظم خیال آپ کو پریشان بھی کرسکتا ہے، خوفزدہ بھی کرسکتا ہے اور آپ کیلئے کئی مسائل بھی پیدا کرسکتا ہے۔ مگر انسان کی آزادانہ سوچ کا عمل ایسا ہے کہ اِسے نہ تو خوف روک سکتا ہے نہ ہی لالچ، نہ تو کوئی منظم گروہ اس میں رکاوٹ ڈال سکتا ہے نہ ہی حکومت اس پر قدغن لگا سکتی ہے۔  
 حقیقت یہ ہے کہ آزادانہ سوچ قدرت کی عطا کردہ ایسی نعمت ہے جسے نہ تو چھینا جاسکتا ہے نہ ہی، جیسا کہ عرض کیا گیا، اس پر قدغن لگ سکتی ہے۔ جب تک انسان ہے آزادانہ سوچ رہے گی، کوئی انسان خواہ اس کا اظہار کرے نہ کرے، خیالات کے سوتے پھوٹتے رہتے ہیں، یہ بہتے پانی کی طرح ہیں کہ جب خیالات آتے ہیں تو آتے ہی چلے جاتے ہیں۔ جب تک انسان زندہ رہتا ہے اُس کا ذہن خیالات کی آماجگاہ بنا رہتا ہے، نئے خیالات پیدا ہوتے رہتے ہیں جو پرانے خیالات کی جگہ لیتے ہیں یا اپنی نئی جگہ بناتے ہیں۔     
 اس دُنیا میں ازمنۂ قدیم سے لے کر آج تک انسان کی زندگی خیالات کی تبدیلی اور اس کی وجہ سے حالات کی تبدیلی سے عبارت ہے۔ یہ ایسی داستان ناتمام ہے کہ جب تک انسان ہے خیالات بھی رہیں گے اور ان کی وجہ سے حالات میں تغیرات بھی آتے رہیں گے۔ حالات بدلنے سے خیالات بدل سکتے ہیں اور اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے بلکہ ہوتا ہے یعنی خیالات بدلنے سے حالات بدلتے ہیں۔ اسی تبدیلیٔ خیالات کا نتیجہ ہے کہ انسان نے زمانۂ قدیم سے لے کر آج تک کا سفر کیا جسے انسان کے ارتقائی یا ترقی کے سفر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس سے انسانی خیالات کی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے اس کے باوجود بعض لوگ یا گروہ یا جماعتیں اپنے ہی خیالات کو بہتر اور حتمی سمجھتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ ہر انسان اُنہیں من و عن قبول کرلے اور اس کے برعکس کسی دوسرے یا نئے خیال کا اظہار نہ کرے۔ یہ طرز عمل ٹھیک نہیں ہے کیونکہ جس طرح کسی ایک فرد، گروہ یا جماعت کو اپنے خیالات کے اظہار کا حق ہے اسی طرح دوسروں کو بھی ہے۔ آپ دلائل کے ذریعہ لوگوں کو قائل کرسکتے ہیں مگر زبردستی ہمنوا بنانا چاہیں تو یہ ممکن نہیں ہے۔
 جب کوئی ایک شخص بہت سے خیالات کا حامل ہوسکتا ہے یا وقت کے ساتھ اس کے خیالات میں تبدیلی آسکتی ہے تو بہت سے لوگوں کے خیالات تو اور بھی زیادہ ہوں گے۔ اس نکتے کو سمجھے بغیر اگر بہت سے لوگ اپنے ہی خیال کو مقدم سمجھتے ہیں اور منوانے پر بضد رہتے ہیں تو یہ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ 
(مضمون نگار تعلیمات ِ گاندھی سے متاثر اہل قلم ہیں)
(بشکریہ ’’پتریکا‘‘ راجستھان)

freedom Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK