Inquilab Logo

قطرکی سفارتی فتح

Updated: January 20, 2021, 12:15 PM IST | Parvez Hafiz

سعودی عرب نے بائیڈن کی حلف برداری سے قبل ہی قطر کے ساتھ مفاہمت کرنے میں اپنی عافیت سمجھی کیونکہ اسے ادراک ہوگیا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ دباؤ ڈال کر خلیج کا یہ تنازع ختم کروائے گا کیونکہ امریکہ کا سب سے بڑا بیرون ملک فوجی ا ڈہ دوحہ میں واقع ہے جہاں سے واشنگٹن پورے مشرق وسطیٰ کی سخت نگرانی کرتا ہے۔ وجہ خواہ جو ہو ناکہ بندی کا خاتمہ اور خلیجی ریاستوں سے رشتوں کی بحالی قطر کی بہت بڑی سفارتی کامیابی بھی ہے اور اخلاقی فتح بھی۔

Althani - Pic : INN
التھانی ۔ تصویر : آئی این این

مئی ۲۰۱۷ء میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ریاض کے دورے کے پندرہ دنوں کے بعد سعودی عرب اور اس کے خلیجی اتحادیوں نے پانچ جون کو قطر کا مکمل سفارتی اور اقتصادی بائیکاٹ کرکے اس کی زمینی، بحری اور فضائی ناکہ بندی کردی تھی۔ کیسا اتفاق ہے کہ ٹرمپ کی وہائٹ ہاؤس سے رخصتی سے ٹھیک پندرہ دن قبل سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی کو گلے لگا کر بائیکاٹ کے خاتمے کا اعلان کیا! در حقیقت یہ اتفاق نہیں ہے۔
 ساڑھے تین سال قبل سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے قطر کا بائیکاٹ کیا تو تھا علاقائی تنازعوں کے سبب تاہم ان کے اس فیصلے کے پیچھے واشنگٹن کا بھی ہاتھ تھا۔ اس وقت ٹرمپ نے ٹوئٹ کرکے مشرق وسطیٰ کے چار بڑے ممالک کی اپنے برادر ملک کے خلاف کی گئی اجتماعی محاذآرائی کا کریڈٹ بھی لیا تھا۔ قطر کے خلاف الزامات یہ تھے کہ وہ اسلامی عسکریت پسند تنظیموں اخوان المسلمین، حماس اور حزب اللہ کی حمایت اور دہشت گردوں کی مالی امداد کرتا ہے۔ قطر سے ناراضگی کی ایک اور بڑی وجہ ترکی کے ساتھ اس کے بڑھتے دفاعی اور عسکری رشتے بھی تھے۔ اس بائیکاٹ سے قطر کو بے پناہ مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ ناکہ بندی سے قطر کی معیشت اس بری طرح لرز گئی کہ اقتصادی بحران کا خطرہ پیدا ہوگیا جسے ٹالنے کیلئے دوحہ کو قومی رزرو فنڈز سے پینتالیس بلین ڈالر نکالنا پڑا۔  
 قطر کا محاصرہ ختم کرنے کے لئے سعودی عرب اور اتحادیوں نے تیرہ شرائط رکھے تھے۔ قطر سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ایران سے صرف محدود تجارتی تعلق رکھے، ترکی کا فوجی اڈہ ہٹادے، ٹی وی چینل الجز یرہ بند کردے، اخوان المسلمین جیسی تنظیموں کی مدد نہ کرے اور ہرجانے کے طور پر ایک بھاری رقم انہیں ادا کرے۔ ان شرائط کو ماننے کے لئے قطر کو محض دس دنوں کا وقت دیا گیا تھا۔
 قطر نے ان شرائط کو ایک آزاد ملک کی خود مختاری پر حملہ قرار دیتے ہوئے یہ اعلان کردیا کہ وہ کوئی شرط نہیں مانے گا۔ وہ اپنے اس موقف پر اڑا رہا کہ ایک خود مختار ملک کے حیثیت سے یہ اس کا حق ہے کہ وہ کس ملک کے ساتھ دوستانہ رشتے رکھے۔ قطر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات چھ  رکنی خلیج تعاون کونسل ( GCC)  کا ایک اہم رکن ہے اس کے باوجود اس کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک اس لئے کیا گیا کیونکہ سعودی عرب اور یو اے ای کو خطے میں ایران اور ترکی کا بڑھتا اثر و رسوخ کسی صورت گوارا نہیں تھا۔ اسے روکنے کے لئے وہ دیرینہ دشمن (اسرائیل) سے ہاتھ ملا بھی سکتے تھے اور دیرینہ دوست (قطر) کا ہاتھ جھٹک بھی سکتے تھے۔ قدرتی گیس نے قطر کو مالا مال کرکے اسے ایک ننھے منے جزیرہ نما سے دنیا کے امیر ترین ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ خلیج فارس میں واقع دنیا کے سب سے بڑے گیس کے ذخیرے میں قطر اور ایران دونوں کی حصہ داری ہے۔ اس لئے ایران کے ساتھ اچھے رشتے قطر کی ضرورت بھی ہیں اور مجبوری بھی۔ لیکن سعودی عرب اور یو اے ای اس کی ایران دوستی سے بر گشتہ تھے۔ ناکہ بندی کے دوران ایران اور ترکی نے اچھے دوست کی طرح قطر کی دل کھول کر مدد کی۔ اپنی خطیر دولت کے علاوہ ایران اور ترکی کی مکمل حمایت اور تعاون کے بدولت ہی قطر اس مفلوج کردینے والے بائیکاٹ کا مقابلہ کرپایا۔ بائیکاٹ کرنے والے ممالک کوبھی یہ احساس ہو گیا کہ پانسہ الٹا پڑ گیا ہے۔ دوحہ، تہران اور انقرہ سے پہلے سے بھی زیادہ قریب آگیاہے۔ادھر عالمی منظرنامہ بھی تبدیل ہوگیا۔ ٹرمپ کے دور اقتدار میں ریاض کے واشنگٹن کے ساتھ رشتے بے حد مستحکم ہوگئے اور ولی عہد MBSاور ٹرمپ کے یہودی النسل داماد جیرڈ کشنرگہرے دوست بن گئے۔ سعودی فرمانروا اور ٹرمپ انتظامیہ ایک دوسرے کی خوشی اور خوشنودی کیلئے سب کچھ کرنے کو تیار تھے۔ خواہ یمن کی جنگ ہو جس میں ہزاروں یمنی شہری مارے جاچکے ہیں یا عدنان خشوگی کا سفاکانہ قتل، ٹرمپ نے ریاض یا ولی عہد محمد بن سلمان کے خلاف ایک لفظ تک نہیں کہا بلکہ ہمیشہ انہیں بچانے کی کوشش کی۔ لیکن جو بائیڈن نے کھل کر سعودی خارجہ پالیسیوں اور اس کی جنگ کی تنقید کی ہے اور انتباہ کیا ہے کہ وہ خشوگی کے قتل کا حساب لیں گے۔
  سعودی عرب نے بائیڈن کی حلف برداری سے قبل ہی قطر کے ساتھ مفاہمت کرنے میں اپنی عافیت سمجھی کیونکہ اسے ادراک ہوگیا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ دباؤ ڈال کر خلیج کا یہ تنازع ختم کروائے گا کیونکہ امریکہ کا سب سے بڑا بیرون ملک فوجی ا ڈہ دوحہ میں واقع ہے جہاں سے واشنگٹن پورے مشرق وسطیٰ کی سخت نگرانی کرتا ہے۔ وجہ خواہ جو ہو ناکہ بندی کا خاتمہ اور خلیجی ریاستوں سے رشتوں کی بحالی قطر کی بہت بڑی سفارتی کامیابی بھی ہے اور اخلاقی فتح بھی۔ اس کا کریڈٹ امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی اور وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی کی میچور اور سلجھی ہوئی خارجہ پالیسی اور سفارتی صلاحیتوں کو جاتا ہے۔ قطر نے جارحیت کا جواب جارحیت سے دینے کے بجائے تحمل اورتدبر سے کام لیا۔ دوحہ نے سعودی عرب کے خلاف بیان بازی سے احتراز کیا، بین الاقوامی سطح پر بااثر ممالک کی حمایت حاصل کی اور اپنی معیشت درست کرنے کے اقدام کئے۔ دوحہ نے صدر ٹرمپ سے بھی رشتے نہیں بگاڑے بلکہ اہم امور پر مسلسل ان کا ساتھ دیا۔ پچھلے سال فروری میں طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان ایک تاریخی معاہدہ ہوا تھا۔ اس معاہدے کے لئے زمین قطر نے ہموار کی تھی۔ دونوں فریقین کے مابین گزشتہ چند برسوں میں مذاکرات کے درجنوں راؤنڈ دو حہ میں ہی منعقد ہوئے۔ امریکی افواج کا انخلا ٹرمپ کا دیرینہ مشن تھا اور اس کی تکمیل قطر کے تعاون سے ہی ممکن ہوپائی۔
 پس نوشت: پانچ جنوری کے دن سعودی عرب کے الاولا میں خلیج تعاون کونسل کے سربراہی اجلاس میں رکن ممالک نے قطر کے ساتھ ساڑھے تین سال طویل تنازع ختم کرکے مکمل سفارتی تعلق بحال کرنے کے معاہدے پرجس وقت دستخط کئے اس وقت وہاں جیرڈ کشنر بھی موجود تھے تاکہ ناکہ بندی ختم کرانے کا کریڈٹ لے سکیں۔ واشنگٹن پوسٹ نے یہ سنسنی خیز انکشاف کیا ہے کہ ٹرمپ کے داماد کشنر نے ہی ۲۰۱۷ء  میں قطر کے بائیکاٹ کیلئے سعودی عرب کو اکسایا تھا کیونکہ قطرنے اس کے خاندانی رئیل اسٹیٹ کے بزنس میں پیسہ لگا نے سے انکار کردیا تھا۔ کشنر کے باپ نے قطر کے وزیر خزانہ سے مل کر نیویارک میں اپنی ایک زیر تعمیر بلڈنگ کیلئے خطیر رقم طلب کی تھی جو انہیں نہیں دی گئی۔کشنر اور غالباً ٹرمپ بھی قطر کی اس حکم عدولی پر چراغ پا ہوگئے۔ قطر کے انکار کے چند ہفتوں کے اندر اس کی ناکہ بندی کا اعلان کردیاگیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK