Inquilab Logo

رمضان میں دن میں رات اور رات میں دن کا معمول

Updated: March 14, 2024, 2:03 PM IST | Asim Jalal | Mumbai

ماہ رمضان میں  مسلم بستیوں میں زندگی کی ہلچل ظہر کے بعد ہی شروع ہوتی ہے اور پھر دھیرے دھیرے بڑھتے ہو ئے مغرب کی اذان تک نقطہ عروج پر پہنچ جاتی ہے۔

A street scene at night in the month of Ramadan. Photo: INN
ماہ رمضان میں رات کے وقت سڑک کا ایک منظر۔ تصویر: آئی این این

رمضان المبارک کا چاند نظر آتے ہی بہت کچھ بدل جاتاہے۔ مسجدوں میں  نمازیوں کی تعداد میں   اضافہ، بازاروں  میں  رونق اور نیکی کے جذبہ کے اپنے عروج پر پہنچ جانے کے ساتھ ہی مسلم بستیوں  میں معمولات زندگی بھی یکسر بدل جاتے ہیں۔ اگر یہ کہیں  کہ رات دن میں  اور دن رات میں تبدیل ہو جاتا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ فجر کی نماز میں  اعلان ہوا کہ ’’جنازہ آیا ہواہے، نماز جنازہ میں شرکت کریں۔ ‘‘ مصلّیان کی بڑی تعدادنمازجنازہ میں شرکت کیلئے رُک گئی مگر اس سے بڑی تعداد نے گھر کا رخ کیا۔ کچھ وہ تھے جن کے معمولات انہیں رُکنے کی اجازت نہیں دیتے، کچھ وہ ہیں جو رات بھر جاگتے ہیں اور پھر بڑی مشکل سے سحری کے بعد فجر کی نماز تک جاگ پاتے ہیں۔ ان کیلئے رات کی شروعات فجر کے بعد ہوتی ہے، ایسی نیت کر کے سوتے ہیں  کہ کبھی کبھی ظہر کی جماعت بھی مشکل سے مل پاتی ہے۔ 
ماہ رمضان میں  مسلم بستیوں  میں  زندگی کی ہلچل ظہر کے بعد ہی شروع ہوتی ہے اور پھر دھیرے دھیرے بڑھتے ہو ئے مغرب کی اذان تک نقطہ عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ تراویح کے وقفہ کے بعد بازاروں  کا رُخ بدل جاتاہے، وہ جگہیں  جہاں  نماز سے پہلے ٹھیلوں پر پھل فروٹ اور افطار کی اشیاء فروخت ہورہی تھیں، وہیں  اب دیگر چیزوں  کی دکانیں  لگ چکی ہوتی ہیں۔ چوراہےآباد ہوجاتے ہیں اور کھانے پینے کی محفلیں  سج جاتی ہیں۔ 
چیتاکیمپ میں رمضان کی رات کی رونقیں  پہلے مین روڈ اور بازار روڈ کو جوڑنے والے تراہے تک محدود تھی، بطور خاص بنگالی چاچا کی پان کی دکان کے سامنے اس کا مرکز ہوا کرتا تھا جہاں  حبیب چاچا کا بنایا ہوا مالپوہ لوگوں  کو اپنی طرف متوجہ کرتا تھا۔ چیتاکیمپ میں  رمضان کے مہینے میں  لگنےوالی مالپوہ کی یہ پہلی دکان تھی اس کے بعد کئی دکانیں  کھل گئیں  مگر حبیب چاچا کے ہاتھ کا ذائقہ کوئی نہیں  دے سکا، شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے انتقال کے بعد اب وہ دکان کچھ ویران ویران سی نظرآتی ہے۔ 
وقت کے ساتھ جس طرح بستی وسیع ہوئی ہے، اسی طرح بازار بھی وسیع تر ہوتاچلا گیا مگر جو خصوصی حیثیت مین روڈ کو حاصل ہے، وہ کوئی اور سڑک حاصل نہیں  کرسکی۔ جنتا بیکری سے جنتا ہوٹل تک لذت کام ودہن کیلئے طرح طرح کی چیزیں  اپنی طرف راغب کرتی ہیں۔ اس بیچ فردوس بھائی کی چپل کی دکان جو پورے چیتاکیمپ میں ’’ماموں کی دکان‘‘ کے طور پر مشہور ہے، کا چبوترا رات میں   علاقے کے دانشور طبقہ کی بیٹھک بن جاتا ہے۔ معروف صحافی جمال سنجر یہاں  بیٹھنے والوں   میں  ممتاز نام ہیں، کچھ لوگ مذاقاً اسے ’’چیتاکیمپ کی پارلیمنٹ ‘‘ بھی کہتے ہیں ۔ کبھی عالمی موضوعات توکبھی علاقائی موضوعات موضوع بحث رہتے ہیں۔ جمال سنجر کے ساتھ عبدالحمید شولاپوری، این اے سلام، افروز بھائی اورسرور بھائی اس بیٹھک کے مستقل رکن ہیں  ۔ جمال صاحب سے بدھ کو گفتگو ہوئی تو افطار کے وقت بازار میں   ہونے والی غیر معمولی بھیڑ کا حوالہ دیتے ہوئے بتانے لگے کہ عصر اور مغرب کے درمیان تل دھرنے کو جگہ نہیں  ہوتی، کھوے سے کھوا چھلتا ہے، ایسے میں   اکثر نوجوان بائیک لے کر آجاتے ہیں جس کی وجہ سے خواتین کو بڑی دقتوں  کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیا ہی بہتر ہوکہ پولیس اس جانب توجہ دے اور افطار کی خریداری کے وقت موٹر سائیکل کے داخلے کو ممنوع کردے۔ 
چیتاکیمپ میں  رمضان کا بازار وقت کے ساتھ وسیع ہوتاچلا گیا ہے۔ اب بازار روڈ سے ہوتے ہوئے علاقے کی معروف شخصیت خان احمد علی کے گھر کے آگے ڈی سیکٹر تک لگنے لگاہے۔ مغر ب تک افطار کاسامان فروخت ہوتا ہے اور مغرب بعد کھانے پینے کی چیزیں  سج جاتی ہیں  ، ساتھ ہی سحری کیلئے پائے کی دکانیں  بھی اپنی طرف راغب کرتی ہیں۔ یہ سوال بہرحال قائم ہے کہ رمضان میں   ہم رات بھر کیوں  جاگتے ہیں ؟ بدھ کو بیٹی کا بورڈ کا امتحان تھا، صبح اسے اس کے سینٹر تک چھوڑنےکیلئے آٹو رکشہ میں سوار ہوئے تو ڈرائیور نےبھی یہی سوال کیا کہ’’ سریہاں  اب تک دکانیں  کیوں نہیں  کھلی ہیں ؟‘‘ پتہ چلاکہ وہ ڈرائیور علاقے کا نہیں تھا بلکہ باہر سے کہیں سے کسی مسافر کو لایاتھا۔ یہاں  پہنچنے کے بعد اسے کسی دوا کی ضرورت محسوس ہوئی مگر صبح ۱۰؍ بجے کوئی میڈیکل اسٹورکھلا نہیں ملا۔  اب میں اسے کیا بتاتا کہ اکثر لوگ رات بھر جاگتے ہیں اور زیادہ تر صبح کی نماز کے بعد سوتے ہیں اس لئے دیر سے اٹھتے ہیں، ایسے میں  گاہک نہیں  ہوتے تو میڈیکل اور دیگر دکانیں بھی بند رہتی ہیں۔ بہرحال چپ رہا، ڈرائیور نے خود ہی ڈرائیور نے بتایا کہ اسے بعد میں ایک اسپتال کے قریب کا میڈیکل اسٹور کھلا ہوا ملا اور وہاں  سے اس نے دوا لی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK