بحیثیت مسلمان پیدا ہوجانا کافی نہیں بلکہ اپنے مسلمان ہونے پر خدا کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ جو منصبی فرائض اور بحیثیت مسلم جن اوصاف کا ہونا ضروری ہے اُنہیں اپنے اند ر پیدا کرنا چاہئے تاکہ زندگی ویسی گزرے جیسی گزرنی چاہئے۔
EPAPER
Updated: May 17, 2024, 12:10 PM IST | Mujahid Shabir Ahmad Falahi Qasmi | Mumbai
بحیثیت مسلمان پیدا ہوجانا کافی نہیں بلکہ اپنے مسلمان ہونے پر خدا کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ جو منصبی فرائض اور بحیثیت مسلم جن اوصاف کا ہونا ضروری ہے اُنہیں اپنے اند ر پیدا کرنا چاہئے تاکہ زندگی ویسی گزرے جیسی گزرنی چاہئے۔
حضرت تمیم داریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’دین خیر خواہی کا نام ہے۔ ہم نے پوچھا:کس کے لئے؟ آپؐ نے فرمایا: اللہ کے لئے، اس کی کتاب کے لئے، اس کے رسول کے لئے، مسلمانوں کے ائمہ کے لئے اور عام مسلمانوں کے لئے۔ ‘‘ (مسلم، کتاب الایمان، باب بیان أن الدین النصیحۃ:۹۵)
یہ حدیث عظیم الشان مرتبے کی حامل ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ یہ حدیث ان چار حدیثوں میں سے ایک ہے جو اسلام کے تمام امور کی جامع ہیں اور جن پر اسلام کا دارومدار ہے۔ (مسلم شرح النووی، ص ۳۷، ج ۱، جز۲)
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے جب اللہ کے رسولؐ کی یہ حدیث سنی تو انھوں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول !یہ خلوص اور خیر خواہی کا جذبہ ہم اپنے دلوں کے اندر کس کے لئے پیدا کریں ؟ اللہ کے رسولؐ نے ترتیب کے ساتھ پانچ چیزوں کا تذکرہ کیا۔
(۱) اللہ کے لئے
اللہ کے لئے خلوص کا مطلب یہ ہے کہ ہم اللہ کو ایک جانیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اسی طرح اللہ کی صفات کو اسی کے لئے مختص کریں، جیسے خالق، مالک، رازق، حافظ، رحمن، رحیم، حیّ، قیوم وغیرہ صفات اسی کے شایانِ شان ہیں۔ قرآن شریف میں بے شمار مواقع پر اللہ تعالیٰ کی صفات کا تفصیل کے ساتھ ذکر ہوا ہے۔ کوئی بھی مخلوق ان صفات کی متحمل نہیں ہو سکتی، جیسے سورۂ حشر کی یہ تین آیات:
’’وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، غا ئب اور ظاہر ہر چیز کا جاننے والا، وہی رحمن اور رحیم ہے۔ وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ بادشاہ ہے نہایت مقدس، سراسر سلامتی، امن دینے والا، نگہبان، سب پر غالب، اپنا حکم بہ زور نافذ کرنے والا، اور بڑا ہی ہوکر رہنے والا۔ پاک ہے اللہ اس شرک سے جو لوگ کر رہے ہیں۔ وہ اللہ ہی ہے جو تخلیق کا منصوبہ بنانے والااور اس کو نافذ کرنے والا اور اس کے مطابق صورت گری کرنے والا ہے۔ اس کے لئے بہترین نام ہیں۔ ہر چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے اس کی تسبیح کر رہی ہے، اور وہ زبردست اور حکیم ہے۔ ‘‘ (الحشر:۲۲-۲۴)
یہ بھی پڑھئے: سیاست کو اخلاقی اقدار سے مربوط کرنے کی ضرورت
اللہ کو ہی قانون ساز تسلیم کرنا، اسی کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا، اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرنا، یہ سب اسی اخلاص کے مظاہر ہیں۔ اسی بات کو اللہ کے رسولؐ نے ایک چھو ٹے سے فقرے میں یوں بیان کیا ہے: ’’میں اللہ کے رب ہونے پر راضی ہوا۔ ‘‘ (مسلم، کتاب الایمان)، یعنی اس اقرار کے بعد اگر پوری دنیا میری مخالف ہو جائے تب بھی میں اس عہد سے نہ پھروں گا۔ اللہ کو رب تسلیم کرنے کا مطلب اللہ کے سوا تمام معبودوں کا انکارہے، چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہوں۔ اللہ کو رب تسلیم کرنے کے بعد جو کیفیت ایک بندے کی ہوتی ہے، اس کا بیان اس آیت میں ہوا ہے: ’’بے شک میری نماز، اورمیرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لئے ہے۔ ‘‘ (الانعام:۱۶۲) یہ تمام اعما ل ادا کرتے ہوئے اسے کسی اور کی خوشی اور رضا مطلوب نہیں ہوتی، اسے کسی کے انعام و اکرام کا لالچ نہیں ہوتا، اور وہ اللہ کی محبت پر کسی کی محبت کو ترجیح نہیں دیتا۔
گویا اس کی زندگی کا لمحہ لمحہ اللہ کی بندگی میں گزرتا ہے۔ تمام معاملات میں وہ اپنی خواہشات کا پیرو نہیں ہوتا، بلکہ اس کے رب نے جس چیز کے کرنے کا حکم دیا ہے، اس پربغیر کسی لیت و لعل کے عمل کرتا ہے اور اس کے رب نے جس چیز سے بھی روکاہے اس سے رک جاتا ہے۔ اگر کسی کے اندر واقعی یہ کیفیت پیدا ہو، تو یہی دراصل اللہ کے لئے نصح اور خیر خواہی ہے۔
(۲) اللہ کی کتاب کے ساتھ خیر خواہی
اللہ کی کتاب کے ساتھ خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے ایمان لایا جائے کہ یہ کتاب اللہ کی نازل کردہ ہے جس کو اللہ نے اپنے برگزیدہ فرشتے کے ذریعے اپنے پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا۔ اس میں کسی طرح کی کوئی ٹیڑھ نہ رکھی: ’’ تعریف اللہ کیلئے ہے جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب نازل کی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہ رکھی۔ ‘‘ (الکہف :۱)
اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ اگر کوئی چیز انسانوں کی ہدایت کے لئے نازل ہوئی تو وہ یہی کتاب ہے۔ اس کے علاوہ اس کتاب کے تمام احکام کو بے چوں و چرا تسلیم کیا جائے، اور ان میں تھوڑی سی بھی تبدیلی کو گوارا نہ کیا جائے۔ عملی طور پر اللہ کی کتاب کے ساتھ خیر خواہی یہ ہے کہ اس کی تلاوت اس طرح کی جائے جیسا کہ اس کا حق ہے: ’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ اُسے اُس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے۔ ‘‘ (البقرۃ :۱۲۱)اس کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی جائے، اس کو یادکیا جائے، اس کی حقیقی دعوت کو عام کیا جائے، اس کے احکام سے انسانوں کو آگاہ کیا جائے، اور ان کو اپنی عملی زندگی میں اپنایا جائے۔
(۳) اللہ کے رسولؐ کے ساتھ خیر خواہی
اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کا رسول تسلیم کیا جائے، آپ ؐ کی تمام تعلیمات پر صدق ِ دل سے ایمان لایا جائے، آپ ؐ کے اوامر و نواہی کی اطاعت کی جائے اور آپ ؐ کے لائے ہوئے دین کی حفاظت کے لئے ہمیشہ تیار رہا جائے۔ ان لوگوں کو دشمن سمجھا جائے جو اللہ کے رسول ؐ کے ساتھ دشمنی کرتے ہوں اور ان لوگوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کئے جائیں جو اللہ کے رسول ؐ کے ساتھ دل و جان سے محبت کرتے ہوں۔ اللہ کے رسول ؐ کی عزت و توقیر کی جائے، آپؐ کی سنتوں پر عمل کیا جائے، آ پؐ کی لائی ہوئی شریعت کی طرف دعوت دی جائے اور اس کی اشاعت کی جائے۔ آپ ؐ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کےاعتراضات کا منہ توڑ جواب دیاجائے۔ یہ تمام چیزیں آپ ؐ کی خیر خواہی کے اجزا ہیں۔
آپ ؐ کے اہل بیت اور صحابہ ؓ کی محبت اپنے دلوں میں پیداکرنااورجو شخص آپ ؐ کی لائی ہوئی شریعت میں بدعت کا مرتکب ہو رہا ہو اس سے لاتعلقی کا اظہار کرنا بھی اسی کے مظاہر ہیں۔ اس کے علاوہ آپ ؐ کی محبت کو تمام محبتوں پر غالب رکھنا کمالِ ایمان اور کمالِ اخلاص کی دلیل ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی مومن نہیں ہے جب تک کہ میں اسے اس کے والدین، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں۔ ‘‘ (بخاری) اپنی تمام خواہشات کو اللہ کے رسول ؐ کی لائی ہوئی شریعت کے تابع کرنا ایمان کو مزید پختگی بخشتا ہے: ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہیں ہوجاتیں۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: واقف ہو اگر لذتِ بیداریٔ شب سے
(۴) ائمہ مسلمین کے ساتھ خیر خواہی
ائمہ سے مراد مسلمانوں کے خلفاء اور ان کے اُمراء ہیں۔ ان کے ساتھ خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ حق کے معاملے میں ان کی اطاعت کی جائے اور ان کی معاونت کی جائے۔ اگر ان سے کبھی صحیح راستے سے انحراف ہو رہا ہو تو نرمی کے ساتھ عوام میں مشتہر کئے بغیر ان کو اس کی طرف متوجہ کیا جائے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ’’تم میں سے جو شخص کسی حکمراں کو کسی چیز کی نصیحت کرنا چاہے تو علانیہ اس کا اظہار نہ کرے، بلکہ اس کا ہاتھ پکڑ کراسے تنہائی میں نصیحت کرے۔ اگر اس نے قبول کی تو بہتر، ورنہ تم نے اس کے بارے میں اپنی ذمہ داری ادا کر ہی دی۔ ‘‘ (مسند احمد)
(۵) عام مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی
عام مسلمانوں سے خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ ان کے ساتھ بہتر سے بہتر سلوک کیا جائے۔ ان کو کسی قسم کی کوئی تکلیف پہنچانے سے گریز کیا جائے۔ ان کے جو بھی حقوق ہوں، انہیں ادا کیا جائے، مثلاً ہمسایہ ہو تو اس کے ساتھ کسی ظلم و جبر کا معاملہ نہ کیا جائے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ’’وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کا ہمسایہ اس کے شر سے محفوظ نہ ہو۔ ‘‘(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان تحریم ایذاء الجار، ۱۷۲)
مہمان کے بارے میں فرمایا: ’’جو شخص آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے‘۔ ‘(بخاری، کتاب الادب، باب اکرام الضیف:۶۱۳۵) اسی طرح اَن پڑھ لوگوں کو تعلیم دی جائے، کمزوروں کی مدد کی جائے، یتیموں اور مسکینوں کے مسائل میں دلچسپی لی جائے، اپنے قول و فعل سے ان کی مدد کی جائے اور ان کے عیوب کو چھپایا جائے۔ بڑوں سے عزت اور چھوٹوں سے شفقت کا معاملہ کیا جائے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا:
’’جو شخص ہمارے چھوٹوں پر رحم اور ہمارے بڑوں کی عزت نہیں کرتا، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ ‘‘(ترمذی)
اسی طرح عام لوگوں کو بہترین نصیحت کی جائے، ان کو معروف کا حکم اور منکر سے روکنے کی کوشش کی جائے، اور اس کام میں نرمی، اخلاص، شفقت اور محبت کا اظہار ہو۔ ان کے ساتھ بُغض اور حسد نہ رکھا جائے (بخاری)۔ ان کو دھوکا نہ دیا جائے، اس لئے کہ ’’جس نے ہمیں دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ ‘‘ (مسلم)
اسی طرح ان کے لئے خیر میں وہی چیز پسند کرنا جو انسان خود کے لئے پسند کرتا ہو، اور ان کے لئے شرکو نا پسند کرنا جس طرح اپنے لئے شر کو ناپسند کرتا ہو۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے اندر صحیح معنوں میں نصح اور خیر خواہی کا جذبہ پیدا کرے کہ یہی جذبہ ہمیں کامرانی سے ہمکنار کرسکتا ہے۔