Inquilab Logo

’’وہ غیر مسلم مجھے گاؤں میں اپنے گھر لے گیا اور اِفطار کرائی‘‘

Updated: March 29, 2024, 12:25 PM IST | Wasim Ahmed Patel | Mumbai

پنویل میں عید سے پہلے عید کی خوشی مل گئی۔ رمضان کے مہینے میں یہ الفاظ آپ کو کثرت سے سننے کو ملیں گے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

پنویل میں عید سے پہلے عید کی خوشی مل گئی۔ رمضان کے مہینے میں یہ الفاظ آپ کو کثرت سے سننے کو ملیں گے۔ آج مجھ سے بات مت کرو، مجھے روزہ لگ رہا ہے لیکن اس صورت میں اگر آپ کی ملاقات مقامی سماجی کارکن زبیر پٹو سے ہو جاجائے تو سمجھئے روزہ کو بہلانا آسان ہوجائیگا۔ ان کے پاس دلچسپ واقعات کا خزانہ ہے۔ ۵۸؍ سالہ زبیر پٹو، ایک دن بتانے لگے کہ ایک زمانے میں فجر کی نماز کے بعد مسلم نوجوان رمضان میں میدان پر کرکٹ کھیلا کرتے تھے جسے عام الفاظ میں ’’رمضانی ٹائم پاس‘‘ کہا جاتا تھا لیکن وقت کے ساتھ مسلم نوجوانوں میں تبدیلی آئی اور اب، بحمد للہ، وہ فجر کی نماز کے بعد سورج طلوع ہونے تک مسجدوں میں تلاوت اور ذکر میں مشغول رہتے ہیں اور دو رکعت نماز کی ادائیگی اور دعا کے بعد ہی مسجد سے نکلتے ہیں۔ انہوں نے ایک دلچسپ واقعہ بھی سنایا کہ کافی سال پہلے میونسپل الیکشن رمضان کے مہینے میں آئے تھے ایک دن ہم دیگر لوگوں کے ساتھ ایک سیاسی پارٹی کی امیدوار کیلئے ووٹ مانگنے نکلے۔ جب ہم ایک بلڈنگ کے تیسرے منزلے پر گئے تو ایک فلیٹ میں ایک خاتون نے ہم سبھی کو شربت کا گلاس پیش کیا جسے ہم نے لے بھی لے لیا۔ دراصل الیکشن کی گہما گہمی میں ہم یہ بھول گئے تھے کہ روزہ سے ہیں۔ خیال آتے ہی ہم نے وہ گلاس شکریہ کے ساتھ لوٹا دیا کہ ہمارا روزہ ہے۔ 
  میری رمضان ڈائری غریبوں اور قوم کے ہمدرد اقبال قاضی کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ میں نے اپنی زندگی میں کم از کم پنویل کی حدود میں ایسا دریا دل انسان نہیں دیکھا۔ وہ یوں تو سال بھر غریب، ضرورتمند اور مستحق طلبہ کی مدد کرتے رہتے ہیں لیکن ٹھیک رمضان سے پہلے ۴۰؍ لاکھ روپے زیادہ قیمت کا سامان تقسیم کرنا ان کے قد کو بڑھا دیتا ہے۔ اگر کوئی ان سے اس کیلئے شکریہ کہتا ہے تو سادگی سے جواب دیتے کہ اس کی ضرورت نہیں، میرے لئے اللہ سے دعا کیجئے۔ ایسے لوگ اپنے اجر کا صلہ صرف اللہ ہی سے چاہتے ہیں، خدا ان کے جذبے کو سلامت رکھے اور اس میں اضافہ فرمائے۔ 
 ہماری بستی کے ایک اور سماجی کارکن حنیف کچی کا کہنا ہے کہ ۲۲؍ جنوری کے معاملے میں مسلم بچوں کی رہائی کے بعد مسلم محلوں میں عید سے پہلے ہی عید کی خوشیاں آگئی ہیں۔ پہلے افطار کے وقت اچھی سے اچھی چیزیں بھی حلق سے نہیں اترتی تھیں کہ نہ جانے ان نوجوانوں کو جیل میں کیا میسر ہے یا نہیں۔ ان نوجوانوں میں سے اکثر نماز اور روزے کے پابند تھے۔ ایک دن میری ملاقات مسجد صفہ کے ایک ذمہ دار فوزان خان سے ہو گئی جو بتا رہے تھے کہ رمضان میں روزانہ سحری کے وقت ۱۰۰؍ سے زائد لوگوں کیلئے کھانے کا انتظام ہوتا ہے جس میں مختلف چیزیں جیسے انڈا سالن وغیرہ ہوتا ہے، صاحب حیثیت لوگ اس کیلئے اپنی طرف سے ہدیہ دیتے ہیں۔ 
  اسی طرح کا انتظام افطار کے وقت بھی ہوتا ہے۔ ایک غیر مسلم صحافی نے مجھے ایسا قصہ سنایا جس سے مَیں آبدیدہ ہوگیا۔ اُسے، اِس اعتراف میں کچھ تردد نہیں کہ ’’پہلے مسلمانوں کے تعلق سے میرے کوئی اچھے خیالات نہیں تھے مگر ایک دفعہ اتفاق ایسا ہوا کہ مجھے مجبوری میں ایک مسلم محلے میں فلیٹ کرائے پر لینا پڑا جو میرے بجٹ میں تھا، اتفاق سے ایک ہفتے کے بعد رمضان شروع ہو گیا، اس بلڈنگ میں مَیں اکیلا غیر مسلم تھا اور ہر روز افطار کے وقت میرے مسلم بھائی ایسی ایسی چیزیں مجھے بھیجتے تھے کہ جسے میں کھانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا، کئی دفعہ ایسا ہوا کہ میری بیوی کو مسلم بہنیں میری اجازت سے اپنے ساتھ افطار کیلئے لے جاتی تھیں اور افطار میں شریک کراتی تھیں۔ میرے بچوں کو عید کے دن اتنی عیدی ملی کہ وہ نہال ہوگئے۔ اس دِن کے بعد سے میرا مسلمانوں کے بارے میں سوچنے کا نظریہ بدل گیا اور مَیں نے ارادہ کر لیا کہ اگر فلیٹ کرائے پر لوں گا تو مسلم اکثریتی علاقے میں ہی لوں گا۔ سچ ہے اسلام اچھے اخلاق سے پھیلا ہے۔ ‘‘
  اس کالم نگار کے ساتھ ہر سال کوئی نہ کوئی ایک واقعہ ایسا ضرور پیش آتا ہے جسے اس رمضان ڈائری میں لکھنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ میرے ایک پہچان والے صاحب رکشہ چلاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ گارڈن ہوٹل کے قریب تھی افطار کے وقت میری رکشہ خراب ہو گئی، ساتھ میں افطار کا سامان بھی موجود تھا، موٹر سائیکل پر ایک غیر مسلم نوجوان پوچھنے لگا چاچا کیا تکلیف ہے، میں نے اسے اپنا مسئلہ بتایا تو اس نے مجھے اپنی موٹر سائیکل پر بٹھایا اور قریبی گاؤں میں اپنے گھر لے گیا، مجھے رمضان کی مبارکباد دی۔ ۲۲؍ جنوری کو یہاں جو ہوا وہ افسوسناک تھا لیکن اہم بات یہ دیکھنے میں آئی کہ دونوں فرقوں میں اب کوئی کشیدگی نہیں ہے۔ ہر سال رمضان میں معمول کے مطابق غیر مسلم کافی بڑی تعداد میں مسلم ناکے پر آتے ہیں اور انواع و اقسام کی غذا سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ایسے میں اُنہیں یہ سمجھاتے ہوئے بڑی دقت ہوتی ہے کہ رمضان کھانے پینے کا مہینہ نہیں بلکہ صبر و ضبط کا مہینہ ہے، عبادات کا مہینہ ہے اور زکوٰۃ و صدقات و خیرات کا مہینہ ہے۔ یہ خیرسگالی اور ہم آہنگی کا مہینہ ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK