Inquilab Logo

موسیٰ ؑ کی فرعون کے محل میں پرورش، شعیب ؑ سے ملاقات، قارون کا انجام اور مکڑی کی مثال

Updated: March 29, 2024, 12:25 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai

بیسویں پارے کا آغاز دلائل قدرت کے بیان سے ہوتا ہے۔ مشرکین مکہ سے پوچھا جارہا ہے کہ وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور تمہارے لئے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کے ذریعے خوش نما باغ اُگائے۔

Those who are proud of their wealth should learn from Qarun whose wealth was of no use to him. Photo: INN
مال و دولت پر گھمنڈ کرنے والوں کو قارون سے عبرت حاصل کرنا چاہئے جس کا خزانہ اس کے کچھ کام نہ آیا۔ تصویر : آئی این این

آج :انیسویں تراویح ۲۰؍واں پارہ : أَمَّنْ خَلَقَ 
بیسویں پارے کا آغاز دلائل قدرت کے بیان سے ہوتا ہے۔ مشرکین مکہ سے پوچھا جارہا ہے کہ وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور تمہارے لئے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کے ذریعے خوش نما باغ اُگائے۔ تمہارے لئے ممکن ہی نہیں تھا کہ تم ان باغوں کے درخت اُگاتے، کیا (اب بھی) اللہ کے ساتھ دوسرا معبود (مانتے ہو)؟ وہ کون ہے جس نے زمین کو جائے قرار بنایا، اور اس کے درمیان میں نہریں بنائیں، اور اس میں میخیں گاڑیں، اور دو سمندروں کے درمیان رکاوٹ بنادی وہ کون ہے جو مجبور کی دُعا سنتا ہے جب وہ اسے پکارے، اور اس کی تکلیف دور کرتا ہے اور تمہیں زمین میں خلیفہ بناتا ہے۔ وہ کون ہے جو بحر وبر کی تاریکیوں میں تمہیں راستہ دکھلاتا ہے، وہ کون ہے جو اپنی رحمت کے آگے ہواؤں کو خوش خبری لے کر بھیجتا ہے، یہ اور اسی طرح کے دلائل و براہین کے ساتھ بیسویں پارے کا آغاز ہوا۔ 
 آگے فرمایا کفار کہتے ہیں کہ جب ہم اور ہمارے باپ دادا مٹی میں مل چکے تو کیا واقعی ہمیں قبروں سے نکالا جائے گا، اس طرح کے وعدے ہم سے بھی کئے گئے اور ہمارے آباؤ اجداد سے بھی کئے گئے، مگر یہ گزشتہ زمانے کے افسانے ہی ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ ذرا زمین میں گھوم کر دیکھ لو مجرمین کا کیا انجام ہوا ہے، اور ان پر غم نہ کیجئے اور جو مکرو فریب یہ لوگ کر رہے ہیں اس سے تنگ دل مت ہوں۔ کچھ آگے جاکر فرمایا کہ اس روز جب ہم ہر امت میں سے ایک فوج کی فوج ان لوگوں کی گھیر کر لائیں گے جو ہماری آیات کی تکذیب کیا کرتے تھے، پھر ان کی جماعت بندی ہوگی اور جب سب حاضر ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ تم نے میری آیات کی تکذیب کی تھی۔ پھر فرمایا کہ وہ خوب جانتا ہے تم کیا کہا کرتے ہو۔ جو نیکی لے کر آئے گا اس کو اس سے بہتر صلہ ملے گا، اور وہ اس روز کی گھبراہٹ سے محفوظ ہوں گے اور جو بدی لے کر آئے گا ان کو اوندھے منہ جہنم میں ڈھکیل دیا جائے گا۔ یہ سورہ اسی مضمون پر ختم ہوئی۔ 
اب سورۂ قصص شروع ہوتی ہے۔ اس کا مرکزی موضوع ان شبہات کا خاتمہ ہے جو منکرین رسالت کے ذہنوں میں پیدا ہورہے تھے اور زبانوں پرآرہے تھے۔ اس سلسلے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ کچھ نئی تفصیلات کے ساتھ بیان کیا گیا کہ اللہ جو کچھ کرنا چاہتا ہے وہ بغیر اسباب کے بھی ایسے حالات پیدا کردیتا ہے جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لئے پیدا کئے۔ جس بچے کے ذریعے فرعون کی تباہی ہونی تھی اسی بچے کو فرعون کے گھر پرورش کرنے کے لئے بھیج دیا، حضرت موسیٰؑ کے قصے کے تعلق سے یہ کچھ الگ واقعات ہیں جو ابھی تک بیان نہیں کئے گئے تھے۔ فرمایا کہ ہم نے موسیٰ کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ تم ان کو دودھ پلاؤ اور جب تمہیں ان کے متعلق کچھ خوف ہوتو ان کو دریا میں ڈال دینا، نہ ڈرنا اور نہ رنج کرنا، ہم اس بچے کو تمہارے پاس لوٹادیں گے اور ہم اسے پیغمبر بنانے والے ہیں۔ آخر کار فرعون کی ذریت نے موسیٰ کو دریا سے نکال لیا تاکہ وہ ان کے لئے دشمنی اور رنج کا باعث بنیں، فرعون کی بیوی (بچے کو دیکھ کر) کہنے لگی کہ یہ میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، اسے مت قتل کرنا شاید اس سے ہمیں کوئی نفع پہنچے یا ہم اسے اپنا بیٹا بنا لیں (ادھر ) موسیٰ کی والدہ کا دل بڑا پریشان تھا۔ اگر ہم ان کا دل مضبوط نہ رکھتے تو بہت قریب تھا کہ وہ یہ راز فاش کردیتیں۔ والدہ نے ان کی بہن سے کہا پیچھے پیچھے جاکر پتہ لگا، بہن نے جاکر موسیٰ کو دور سے اس طرح دیکھا کہ انہیں پتہ نہ چل سکا اور ہم نے پہلے ہی دودھ پلانے والیوں کی چھاتیاں ان پرممنوع کر رکھی تھیں، تب بہن نے کہا کہ کیا میں تمہیں ایسے گھر والے نہ بتلادوں جو تمہارے لئے اس بچے کی پرورش کردیں گے۔ اس طرح ہم نے موسیٰ کو ان کی والدہ کے پاس لوٹا دیا تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ جب موسیٰ جوان ہوگئے اور باشعور ہوگئے تو ہم نے انہیں حکمت اور علم عطا فرمایا اور ہم نیک لوگوں کو اسی طرح صلہ دیتے ہیں۔ 
(ایک روز) موسیٰ شہر میں ایسے وقت داخل ہوئے کہ اس شہر کے لوگ خواب غفلت میں تھے، وہاں انہوں نے دیکھا کہ دو آدمی آپس میں لڑ رہے ہیں، ان میں سے ایک ان کی قوم کا تھا اور دوسرا ان کی دشمن قوم کا تھا، ان کی قوم کے آدمی نے موسیٰؑ کو دشمن قوم کے آدمی کے خلاف مدد کیلئے پکارا تو موسیٰؑ نے دشمن کے ایک مُکّا رسید کردیا جس سے وہ مر گیا۔ موسیٰؑ نے کہا یہ شیطان کا کارنامہ ہے (کہ اس نے مجھ سے اس شخص کو مروادیا) بلاشبہ وہ دشمن اور کھلا گمراہ کرنے والا ہے۔ کہنے لگے کہ اے میرے رب میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے آپ مجھے معاف فرمادیجئے۔ میں (اب) کبھی مجرمین کی مدد نہیں کرونگا۔ دوسری صبح وہ ڈرتے ڈرتے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے شہر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ کل جس نے انہیں مدد کیلئے پکارا تھا وہ پھر انہیں زور زور سے آوازیں لگا رہا ہے۔ موسیٰ اس سے کہنے لگے کہ تو بڑا ہی گمراہ انسان ہے، پھر جب موسیٰؑ نے یہ ارادہ کیا کہ وہ اس شخص کی طرف ہاتھ بڑھائیں جو دونوں کا دشمن تھا تو (ان کی قوم کا آدمی جو مدد کیلئے پکا ر رہا تھا) چیخ پڑا اور کہنے لگا کہ اے موسیٰ کیا تم مجھے بھی اسی طرح قتل کرنا چاہتے ہو جس طرح کل تم ایک دشمن کو قتل کرچکے ہو۔ (اس واقعے کے عام ہونے کے بعد) ایک شخص شہر کے آخری کنارے سے دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا کہ اے موسیٰ (دشمن قوم کے) سرداروں نے تمہیں قتل کرنے کی سازش تیار کی ہے، اس لئے تم یہاں سے دور نکل جاؤ، چنانچہ موسیٰؑ شہر سے خوفزدہ ہوکر نکل پڑے اور یہ دعا کرنے لگے کہ اے میرے رب مجھے ظالموں سے نجات عطا کر۔ جب موسیٰؑ نے (شہر) مدین کا رخ کیا تو کہنے لگے کہ امید ہے میرارب مجھے سیدھے راستے پر ڈال دے گا۔ 
جب وہ مدین کے کنویں پر پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ (اپنے جانوروں کو) پانی پلا رہے ہیں اور ان کے پیچھے دو عورتیں اپنے جانوروں کو روکے کھڑی ہیں۔ موسیٰؑ نے ان سے پوچھا کہ تمہارا کیا مسئلہ ہے؟ کہنے لگیں کہ ہم اپنے جانوروں کو اس وقت تک پانی نہیں پلا سکتیں جب تک یہ لوگ اپنے جانوروں کو نکال کر نہ لے جائیں اور ہمارے والد بڑے بوڑھے آدمی ہیں۔ موسیٰ نے ان کے جانوروں کو پانی پلایا اور ایک درخت کے سائے میں جا بیٹھے اورکہنے لگے کہ اے میرے رب جو خیر بھی مجھے عطا کریں میں اس کا محتاج ہوں۔ ان دونوں میں سے ایک لڑکی شرم وحیاء کے ساتھ چلتی ہوئی ان کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ آپ کو ہمارے والد بلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے جانوروں کو جو پانی پلایا ہے اس کا معاوضہ دے سکیں۔ جب موسیٰ ان (بوڑھے شخص) کے پاس آئے اور ان کو پورا قصہ سنایا تو انہوں نے کہا کہ ڈرنے کی ضرورت نہیں، اب تم ظالموں سے نجات پا چکے ہو، ان میں سے ایک لڑکی نے کہا کہ ابا جان ان کو اجرت پر رکھ لیجئے، بہترین آدمی جسے آپ اجرت پر رکھیں وہ ہوتا ہے جو طاقتور بھی ہو اور ایمان دار بھی ہو، انہوں (حضرت شعیب علیہ السلام) نے کہا کہ میں ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک کے ساتھ تمہارا نکاح اس شرط پر کرسکتا ہوں کہ تم میرے یہاں آٹھ سال تک ملازمت کرو اور اگر دس سال پورے کردو تو یہ تمہاری مرضی پر منحصر ہے۔ موسیٰ ؑنے کہا کہ یہ معاملہ میرے اور آپ کے درمیان طے شدہ ہے، ان میں سے جو بھی مدت میں پوری کردوں گا اس کے بعد مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہونی چاہئے اور اللہ ہمارے قول و قرار پر گواہ ہے۔ اس کے بعد حضرت موسیٰؑ ملازمت کی شرط پوری کرنے کے بعد اہل وعیال کو لے کر وطن واپسی کیلئے چلے کہ راستے میں نبوت سے سرفراز کئے گئے، بعد کے تمام واقعات پہلے بھی گزر چکے ہیں۔ 
دو تین رکوع کے بعد قارون کا تذکرہ ہے کہ قارون حضرت موسیٰؑ کی قوم میں سے ایک شخص تھا پھر وہ اپنی قوم کے مقابلے میں سرکش بن گیا، ہم نے اس کو اتنے خزانے عطا کئے تھے کہ ان کی کنجیاں طاقتور آدمیوں کی ایک جماعت مشکل سے اٹھا پاتی تھی، اس کی قوم کے لوگوں نے کہا کہ اترانے کی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ ایک دن وہ پورے لاؤلشکر اور ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ قوم کے سامنے آیا، جو لوگ دنیا کے طالب تھے وہ اسے دیکھ کر کہنے لگے کہ کاش ہمیں بھی وہی سب کچھ ملتا جو قارون کو ملا ہے، واقعی یہ شخص بڑی زبردست قسمت والا ہے اور جو اہل علم تھے وہ کہنے لگے کہ کم بختو اللہ کے یہاں کا اجر ان لوگوں کیلئے ہے جو ایمان لاتے ہیں اور عمل ِ صالح کرتے ہیں، اور یہ دولت صبر کرنے والوں ہی کو ملتی ہے، انجام یہ ہواکہ ہم نے اس کو اور اس کے محل کو زمین کے اندر دھنسا دیا۔ 
 اس سورہ کے بعد سورۂ عنکبوت شروع ہوئی۔ یہ سورہ اس دور میں نازل ہوئی جب مسلمان سخت مصائب وآلام میں مبتلا تھے اور کفار مکہ کی طرف سے ان کے اوپر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے، اس کے مختلف مضامین کے ذریعے سچے پکے مسلمانوں کو حوصلہ مندی اور استقامت کی تلقین کی گئی اور کفار مکہ کو دھمکی دی گئی کہ وہ اپنی حرکتوں سے اس عذاب کو دعوت نہ دیں جو ان جیسے لوگوں پر ہر دور میں نازل ہوتا رہا ہے، بعض نوجوان ایمان لاچکے تھے مگر ان کے والدین ان پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ یہ دین چھوڑ دیں، اس پر نوجوانوں سے کہا گیا کہ ہم خود والدین کے ساتھ حسن سلوک کی نصیحت کرتے ہیں، لیکن اگر وہ شرک پر مجبور کریں تو ان کی اطاعت مت کرنا، اسی طرح بعض قبیلوں کے لوگ اسلام لانے والوں سے کہا کرتے تھے کہ عذاب ثواب کا چکر چھوڑو، ہم خود نمٹ لیں گے تم تو بس اپنے دین پر رہو، اگر خدا تمہیں پکڑے گا تو ہم خود تمہیں چھڑائیں گے اور خدا سے کہیں گے کہ ان بے چاروں کا کوئی قصور نہیں ہم نے خود انہیں ایمان چھوڑنے پر مجبور کیا تھا، ایسے لوگوں سے کہا گیا کہ کوئی کسی کی غلطیوں کا ذمہ دار نہیں ہوتا، جو لوگ ایسا کہہ رہے ہیں وہ جھوٹے ہیں۔ اس سورہ میں کچھ انبیاء کے واقعات بھی بطور عبرت بیان کئے گئے ہیں تاکہ مسلمانوں میں حوصلہ پیدا ہو۔ اس پارے کے آخری رکوع میں سورہ کے نام کی مناسبت سے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر دوسرے دوست بناتے ہیں ان کی مثال مکڑی کی سی ہے جو اپنا ایک گھر بناتی ہے اور سب گھروں سے زیادہ کمزور گھر مکڑی ہی کا ہوتا ہے، کاش وہ یہ بات جان لیتے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK