Inquilab Logo

سابق چیف جسٹس آف اِنڈیا رنجن گوگوئی کی پارلیمنٹ میں کارکردگی کا جائزہ

Updated: February 20, 2023, 5:19 PM IST | unnati sharama|Shanker Arnimesh | Mumbai

راجیہ سبھا میں نامزد کئے جانے کے بعد تین سال کے دوران ۸؍ اجلاس میں ایک بھی سوال نہیں پوچھا، کسی بحث میں حصہ نہیں لیا اور کوئی بل بھی پیش نہیں کیاجبکہ انہوں نے میڈیا سے کہا تھا کہ پارلیمنٹ میں میری موجودگی مقننہ کے سامنے عدلیہ کے خیالات کو پیش کرنے کا ایک بہترین موقع ثابت ہو گا

According to the records, Rajya Sabha member Ranjan Gogoi`s attendance in Parliament is only 29%
ریکارڈ کے مطابق راجیہ سبھا کے رکن رنجن گوگوئی کی پارلیمنٹ میں حاضری بھی محض ۲۹؍ فیصد ہے


گزشتہ دنوں آندھرا پردیش کے گورنر کے طور پر اپنی تقرری کے ساتھ، جسٹس عبدالنظیربھی سابق چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی اور جسٹس اشوک بھوشن کی فہرست میں شامل  ہوگئے۔ یہ دونوں جج بھی سبکدوشی کے بعد حکومت کی عنایت سے فیضیاب ہوئے ہیں۔بطور گورنر ان کی تقرری کے بعد ہی جسٹس گوگوئی کی بطور رکن پارلیمان خدمات کا جائزہ لینے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ مذکورہ تینوں جج، پانچ ججوں کے اُس آئینی بنچ کا حصہ تھے جس نے نومبر۲۰۱۹ء میں رام جنم بھومی بابری مسجد کیس میں ’متفقہ‘ فیصلہ سنایا تھا۔ اس فیصلے کے تحت ایودھیا میں متنازع ۲ء۷۷؍ ایکڑ اراضی کی ملکیت رام مندر ٹرسٹ کو دے دی گئی۔ جسٹس اشوک بھوشن جو جولائی۲۰۲۱ء میںسبکدوش ہوئے تھے، کو نومبر ۲۰۲۱ء میں’ نیشنل کمپنی لاء اپیلیٹ ٹریبونل‘ کا چیئرمین بنایا گیا تھا۔ رنجن گوگوئی، جن کی میعاد نومبر۲۰۱۹ء میں ختم ہوئی تھی، کو مارچ ۲۰۲۰ء میں راجیہ سبھا کے رکن کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔ جسٹس عبدالنظیر کو سبکدوشی کے ۴۰؍ دن بعد پوسٹنگ مل گئی ہے۔
 ریٹائرمنٹ کے بعد  پوسٹنگ کی بات کریں تو جسٹس گوگوئی مذکورہ تین سبکدوش ججوں میں سب سے طویل عرصے تک خدمات انجام دینے والی شخصیت ہیں، لیکن پارلیمنٹ میں ابھی تک سابق چیف جسٹس آف انڈیا کی کارکردگی متاثر کن نہیں رہی ہے۔
 راجیہ سبھا کے اراکین کی اوسط حاضری۷۹؍ فیصد ہے۔ اس کے مقابلے گزشتہ ۳؍ برسوں میں گوگوئی کی صرف۲۹؍ فیصد کی اوسط پارلیمانی حاضری ریکارڈ کی گئی ہے۔ایوان بالا کیلئے ہونے والی اپنی تقرری کے موقع پر، گوگوئی نے ایک نیوز چینل سے کہا تھا کہ ’’میں نے راجیہ سبھا کیلئے نامزدگی کی پیشکش کو اس پختہ یقین کی وجہ سے قبول کیا ہے کہ مقننہ اور عدلیہ کو کسی وقت ملک کی تعمیر کیلئے مل کر کام کرنا چاہئے۔ پارلیمنٹ میں میری موجودگی مقننہ کے سامنے عدلیہ کے خیالات کو پیش کرنے کا ایک بہترین موقع ثابت ہو گا۔دسمبر۲۰۲۱ءمیں، جسٹس رنجن گوگوئی نے اپنی خود نوشت’ جسٹس فار جج‘ میں پوسٹنگ لینے کے اپنے فیصلے کا ایک بار پھر دفاع کیا تھا... اور وضاحت کی تھی کہ انہوں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے نامزدگی کو قبول کیا تھا کیونکہ وہ پارلیمنٹ میں عدلیہ اور شمال مشرقی خطہ ، جہاں سے ان کا تعلق ہے،کے مسائل کو اٹھانا چاہتے تھے۔
 آئین یہ جواز فراہم کرتا ہے کہ ہندوستان کے صدرادب، سائنس، آرٹ اور سماجی خدمات کے حوالے سے خصوصی علم یا عملی تجربہ  رکھنے والے ۱۲؍ افراد کو راجیہ سبھا کیلئے نامزد کر سکتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اس طرح نامزدگی پانے والے سابق چیف جسٹس آف انڈیا اپنی کارکردگی سے متاثر نہیں کرپائے ہیں۔ اس نامزدگی کے بعد۳؍ سال کے درمیان راجیہ سبھا کے۸؍ اجلاس منعقد ہوئے۔ پارلیمنٹ کے ریکارڈ کے مطابق ان ۸؍ اجلاسوں میں سابق سی جے آئی نے ایوان بالا میں ایک بھی سوال نہیں پوچھا، کسی بحث میں حصہ نہیں لیا اور  بطور پرائیویٹ ممبر  بھی کوئی بل پیش نہیں کیا۔ اس تعلق سے ہم نے گوگوئی سے فون پر رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی، لیکن انھوں نے اس رپورٹ کی اشاعت تک کوئی بھی جواب نہیں دیا۔
 راجیہ سبھا کے ریکارڈ کے مطابق، گوگوئی نے۱۳؍ فروری تک۱۰؍ دنوں میں سے۶؍ دنوں کیلئے ہونے والے بجٹ اجلاس میں شرکت کی ہے۔ اس کے برعکس گزشتہ بجٹ اجلاس میں وہ ۲۹؍ میں سے صرف۷؍ دن  ہی ایوان میں موجود رہے تھے۔ گزشتہ چند اجلاسوں میں گوگوئی کی موجودگی میں اضافہ دیکھا گیا ہے، لیکن قانون سازی میں ان کی طرف سے کوئی خاص شراکت نہیں ہوئی ہے۔ راجیہ سبھا کےدیگر اراکین کے برعکس، گوگوئی کی طرف سے گزشتہ برسوں میں ایوانِ بالا میں کوئی تحریری اور غیرتحریری سوالات نہیں پوچھے گئے ہیں۔ خیال رہےکہ پارلیمنٹ میں تحریری سوالات کے جواب تحریری  اور زبانی سوالات کے جواب زبانی طور پر دیئے جاتے ہیں۔ اس حوالے سےان کے  کھاتے میں کوئی’ قابل ذکر‘ کارنامہ درج نہیں ہے، جو کہ اراکین پارلیمان عوامی اہمیت کے معاملات پر کرتے ہیں۔ اس دوران سابق ’سی جے آئی‘ نے کسی بحث میں بھی حصہ نہیں لیا، جبکہ اراکین پارلیمان کی اس طرح کی شرکت کا قومی اوسط ۵۶ء۹؍ فیصد ہے۔اگر ہم ان کا موازنہ ایتھلیٹ پی ٹی اوشاکی پارلیمنٹ میں انجام دی گئی کارکردگی کے ساتھ کریں تو پی ٹی اوشا کو ہم کافی آگے پائیں گے۔  انہیں جولائی ۲۰۲۲ء میں نامزد کیا گیا تھا۔اس کے بعد ہونے والے ۳؍ اجلاسوں میںان کی اوسط حاضری۹۱؍ فیصد رہی ہے۔ اس دوران انہوں نے۸؍ سوالات بھی پوچھے ہیں اور تینوں اجلاس کے دوران تین مباحثوں میں بھی حصہ لیا ہے۔
 اپنے عہدے پر رہتے ہوئے گزشتہ تین سال میں، حزب اختلاف کے اراکین کی نعرے بازی کے درمیان حلف لینے والے سابق چیف جسٹس گوگوئی، نے پارلیمنٹ میں ابھی تک عدلیہ یا شمال مشرق سے متعلق کسی بھی معاملے میں کسی طرح کی کوئی مداخلت نہیں کی ہے۔ اس دوران مارچ ۲۰۲۲ء میں، راجیہ سبھا نے شمال مشرقی خطے کی ترقی کی وزارت کے کام کاج پر بحث کی تھی لیکن گوگوئی نے اس میں حصہ نہیں لیا تھا۔ اسی طرح ۲۰۲۱ء کے آخر میں، ایوان بالا نے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں (تنخواہیں اور سروس کی شرائط) سے متعلق ترمیمی بل پر بحث کی۔ اس دوران کئی ممبران نے عدلیہ سے متعلق سماجی تنوع جیسے مسائل پر گفتگو کی، لیکن یہاں بھی سابق چیف جسٹس نے شرکت نہیں کی تھی۔
 دسمبر۲۰۲۱ء میں ایک انٹرویو  کے دوران انہوں نے راجیہ سبھا سے اپنی غیر موجودگی کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’کووڈ کی وجہ سے، میں ڈاکٹر کے مشورے پر اجلاس میں شرکت نہیں کر رہا ہوں۔‘‘انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’میں وہاں اپنی مرضی سے جاتا ہوں اور میں اپنی مرضی سے باہر آتا ہوں۔ میں کسی پارٹی وہپ  کا پابند نہیں ہوں۔ میں ایک آزاد رکن ہوں۔‘‘
  صدر کی طرف سے ایوان بالا میں نامزدگی کے فوراً بعد گوگوئی کو، جولائی ۲۰۲۰ء میں خارجہ امور کی پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی میں شامل کیا گیا تھا۔ اس کے بعد۲۰۲۱ء میں، انہیں مواصلات اور آئی ٹی کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں بھی رکھا گیا۔کمیٹی کے ذرائع نے بتایا کہ گوگوئی کو ستمبر۲۰۲۲ء میں خارجہ امور کی کمیٹی میں دوبارہ نامزد کیا گیا تھا، لیکن ’’اس کے تمام ۹؍ اجلاسوں میں  وہ شامل نہیں ہوئے۔‘‘راجیہ سبھا کے ریکارڈ کے مطابق، گوگوئی نے مواصلاتی کمیٹی کے حصے کے طور پر۸؍ ماہ تک ’خدمات‘ انجام دیں لیکن اس دوران انہوںنے ایک بھی میٹنگ میں شرکت نہیں کی۔ یہ وہی دورانیہ ہے جب کمیٹی نے’’شہری حقوق کی حفاظت اور سماجی اور آن لائن نیوز پلیٹ فارموں کے غلط استعمال کو روکنے‘‘ جیسے اہم معاملات پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ اسلئے اس میں گوگوئی کی شرکت اہم ہو سکتی ہے۔
 لوک سبھا کے رکن’ این کے پریما چندرن‘ جو خارجہ امور کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے رکن بھی ہیں، نے بتایا کہ ’’وہ (گوگوئی) کسی میٹنگ میں شریک نہیں ہوئے۔ نامزد اراکین بھی، عام اراکین پارلیمان کی طرح خصوصی مراعات سے  فیضیاب ہوتے ہیں،اسلئے انہیں بطور  رکن پارلیمان اپنی  ذمہ داری ادا کرنی چاہئے۔ ان کا ایک قابل ذکر کریئر رہا ہے۔‘‘
 راجیہ سبھا کے ایک اور نامزد رکن غلام علی نے  بتایا کہ منتخب اور نامزد اراکین کو یکساں مراعات اور حقوق حاصل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں نے کمیٹی کے اجلاسوں میں شرکت کے علاوہ شکریہ کی تحریکوں میں بھی حصہ لیا ہے۔‘‘
بشکریہ: دی پرنٹ

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK