Inquilab Logo

آر ایس ایس ، گاندھی اور بی جے پی

Updated: March 03, 2024, 1:39 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

گاندھی جی کے قتل کے بعدگولوالکر کو احساس ہوگیا تھا کہ اگراس کی تفصیلات سامنے آجائیں گی تو آر ایس ایس کی مشکلات بڑھ جائیںگی ۔ انہوں نے نہرو،پٹیل اور دیوداس گاندھی کو خط لکھ کراس کی مذمت کی تھی اور یہ ظاہر کرنےکی کوشش کی تھی کہ اس واردات سے انہیںشدید صدمہ پہنچا ہے

Photo: INN
تصویر:آئی این این

آئندہ سال دنیا کی سب سے بڑی غیر سرکاری تنظیم ’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ کے قیام کو ۱۰۰؍ سال مکمل ہورہےہیں ۔۱۹۲۵ء میں    ناگپور میں  محض ایک شاکھا سے شروع ہونے والی اس تنظیم کی اپنی ویب سائٹ کے مطابق آج  ملک بھر میں  ۵۷؍ ہزار شاکھائیں  موجود  ہیں ۔آر ایس ایس کا کہناہے کہ وہ اپنے اراکین کا ریکارڈ نہیں  رکھتا، اس لئے اسے بھی نہیں  معلوم کہ اس کے اراکین کی کُل تعداد کتنی ہے ۔ اس  کے قیام کامقصد بی جےپی کی آفیشیل تاریخ جو   ۲۰۰۶ء میں   ۶؍ جلدوں   میں    شائع ہوئی  ہے، میں  موجود  ہے۔  بی جےپی کی مذکورہ تاریخ  میں  ہندو مہا سبھا کے لیڈر بی ایس مونجے  کے بیان کا حوالہ دیا گیا ہے کہ ناگپور میں  مسلمان حالانکہ ۲۰؍ ہزار ہی تھےمگر  شہر میں   اکثر فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑتا تھا،’’ہم (ہندو) عدم تحفظ کا شکار رہتےتھے کیوں  کہ مسلمان ۱ء۳؍ لاکھ ہندوؤں  سے کبھی ڈرتے ہی نہیں  تھے۔‘‘مُونجے کا خیال تھا کہ اس کی وجہ ہندوؤں  کا مختلف خانوں  میں منقسم ہوناتھا۔ان کے مطابق اس کے برخلاف مسلمان ’’ایک برادری کی طرح  متحد، مذہبی لحاظ سے منظم اور نظم وضبط کے پابند‘‘  تھے۔اس کی وجہ سے ’’سماج کے کسی بھی حصے کو کہیں  بھی اگر کوئی تکلیف پہنچتی تواسے ہر جگہ محسوس کیا جاتا۔‘‘
 کتاب کے مطابق آر ایس ایس کے قیام کا مقصد ہندوؤں   کے اس عدم اتحاد کے مسئلہ کو حل کرنا اور ان کے اتحادو یکجہتی کو  نیز ثقافتی قوم پرستی کو فروغ دینا تھا۔ اس کے بانی کے بی ہیڈگیوار نے ہندو سماج کو منظم کرنے کی کوشش شروع کی اور اس کے دو بنیادی مسائل عدم اتحاد اور  ذات پات پر توجہ دی  ۔ا نہوں  نے یہ کا م شاکھاؤں  کے ذریعہ شروع کیا جہاں  تمام ذاتوں  کے ماننے والے ہندو ایک گھنٹے کیلئے اکٹھا ہوتے، مل کر مختلف کھیل کھیلتے، ورزش کرتے، مارچ کرنا سیکھتے اور کچھ مشقیں  بھی کرتے۔  وہ بھارت ماتا کو مخاطب کرکے ایک سُر میں  گیت بھی گاتے۔ ذات پات کے مسئلہ  کوساتھ کھیلنے اور ساتھ کھانا کھانے کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ آر ایس ایس کے تیسرے سرسنگھ چال ایم ڈی دیورس  نے اسے اس طرح بیان کیا ہے کہ ’’ میں  سنگھ کی پہلی شاکھا میں  موجود تھا، اس  میں  بڑی تعداد  میں    مہار برادری کے بھائی بندھو موجودتھے۔ کھانا کھانے کے وقت بہت سے لوگ ان کے ساتھ بیٹھنے میں  پس وپیش کرنے لگے،  انہوں   نے  اس سے قبل اپنی زندگی میں  کبھی کسی مہار کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں   کھایا تھا۔انہوں  نے اپنا مسئلہ ڈاکٹر جی (ہیڈگیوار) کے سامنے پیش کیا۔ انہوں  نے ان پر شاکھا کا نظم وضبط نافذ کرنے کے بجائے انہیں  نکل جانے کیلئے کہا۔انہوں  نے بس اتنا کہا کہ ہمارا طریقہ ساتھ  بیٹھنے کا ہے اورہمیں  اسی طرح کرنا ہوگا۔ ہم سب نے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایاوہ چند افراد جنہیں  پس وپیش تھا، الگ قطار میں  بیٹھےمگراگلی مرتبہ کھانے کے وقت  وہی لوگ ڈاکٹر جی کے پاس آئے اور معافی مانگی اور پھراپنی مرضی سے ہم سب کے ساتھ بیٹھے۔ ‘‘ ۱۹۴۰ء میں   جب ہیڈگیوار کی موت ہوئی تب تک آر ایس ایس ناگپور کے باہر تک پھیل چکاتھا اوراس  کے اراکین کی تعداد ایک لاکھ کے قریب پہنچ گئی تھی۔ ان کے جانشیں  گولوالکرتھے۔ وہ قانون کے پابند آدمی تھے، ۱۹۴۳ء میں  جب انگریزوں  نے ہندوستانیوں  کیلئے فوجی یونیفارم اور مشق کو ممنوع کردیاتو آر ایس ایس نے فوری طور پر اسے ترک کردیا۔ 
   بی جے پی کے مطابق دسمبر ۱۹۴۷ء میں  دہلی میں  آر ایس ایس کی ریلی میں  بڑی بھیڑ اکٹھا ہوئی۔ ہندو راجا، تاجر اور دیگر تنظیموں   کے ہندو لیڈر بھی آئے۔اس مقبولیت نے کانگریس کو چوکنا کردیا، بالخصوص جواہر لال نہرو زیادہ محتاط ہوگئے۔۳۰؍ جنوری ۱۹۴۸ء کومہاتما گاندھی کا قتل ہوگیا ۔گولوالکرکو اس کے بعد یہ احساس ہوگیا   کہ اگرگاندھی جی کے قتل کی تفصیلا ت سامنے آجائیں گی تو اس سے آر ایس ایس کی مشکلات بڑھ جائیں  گی۔ انہوں  نے فوری اقدام کیا۔  یہ سانحہ ۳۰؍ جنوری کو پیش آیا  تھا۔ گولوالکر نے آر ایس ایس کی شاخوں کو ٹیلی گرام بھیجتے ہوئے انہیں  ۱۵؍ دنوں تک سرگرمیاں  روکنے کی ہدایت دی ۔اسی دن انہوں  نے جواہرلال نہرو، سردار پٹیل اوردیوداس گاندھی کو بھی پیغام بھیجااورتعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’ ہم اس جان لیوااور بے رحمانہ حملےسے سکتے میں  ہیں ،ایک عظیم شخصیت سے ملک محروم ہوگیا ۔‘‘اس کے اگلےدن انہوں  نے پھرنہروکو ایک تحریری پیغام بھیجا اور گاندھی جی کے قتل پر شدید حیرت کااظہار کرتے ہوئےگوڈسے کو لا پروااور گمراہ شخص قراردیا ۔انہوں  نے گاندھی کے قتل کوناقابل معافی اورملک سے غداری قراردیاتھا۔ اسی  دن انہوں  نے سردار پٹیل کو بھی  خط  لکھا کہ ’’میرا دل گہرے رنج میں ڈوبا ہوا ہے،اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں  کیلئے مذمت کے  الفاظ ڈھونڈکر لانا بھی مشکل ہے۔‘‘ گولوالکر اس سے جو چاہ رہے تھے ،وہ نہیں ہوا ۔سردار پٹیل نے ۲؍ فروری کو آر ایس ایس پر پابندی لگا دی ۔انہوں  نے اس تعلق سے جو نوٹیفکیشن جاری کیا اسکے  مطابق ’’ہندوؤں کی ذہنی ،جسمانی اور اخلاقی تربیت کو فروغ دینا آر ایس ایس کے قیام کا مقصد تھا۔  ان میں  اخوت ومحبت اورخدمت کے احساس کو پروان چڑھانابھی شامل تھا لیکن اس دوران افسوس کے ساتھ دیکھا گیا ہےکہ تنظیم کے کارکنان ان مقاصدسے منحرف ہو چکے  ہیں ۔
 سنگھ کے کارکنان ایسی سرگرمیوں کا ارتکاب کررہے ہیں جو نہ صرف غیر ضروری ہیں بلکہ خطرناک بھی ہیں ۔ کارکنان قتل ، لوٹ مار اور ڈاکہ زنی جیسی وارداتوں  میں ملوث پائے جارہے ہیں  اور غیر قانونی طورپر اسلحہ بھی جمع کررکھا ہے ۔ انہیں ایسے پمفلٹ تقسیم کرتے ہوئے دیکھا گیا ہےجن میں  لوگوں کودہشت گردانہ طریقے اختیار کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے۔انہی وجوہات کی بناء پر یہ ضروری ہوگیا ہےکہ حکومت سَنگھ سے اپنے اختیارات کے مطابق نپٹےاورکارروائی کرے۔‘‘گولوالکرکو۲۰؍ہزار سویم سیوکوں کے ساتھ ۳؍فروری کو گرفتار کرلیاگیاتھا ۔
 آر ایس ایس کا کہنا ہےکہ اسے حیرت ہےکہ کسی سیاسی پارٹی یا لیڈر نے اس کیلئےآواز نہیں اٹھائی ۔اس پر یہ پابندی ۱۷؍ مہینوں  تک برقراررہی ۔آر ایس ایس کو یہ ہدایت دیتے ہوئےکہ وہ اپنا آئین وضع کرے،  پابندی ہٹا ئی گئی ۔بعد ازاں آئین لکھا گیا  اورپیش کیا گیا۔ ۱۱؍ جولائی ۱۹۴۹ء کوپابندی ختم کردی گئی ۔اس کے فوراً بعدآر ایس ایس نے اپنے ترجمان اخبار’ دی آرگنائزر ‘ کے توسط سے سیاست پر بحث کرنا شروع کیا ۔کے آر ملکانی اور دیگر کارکنوں کے مضامین آرگنائزر میں  شائع ہونے لگے جوآر ایس ایس کو لازمی طور پر سیاست میں شامل کرنے کی ترغیب پرمبنی ہوتے تھے۔ اس طرح کے مضامین میں آر ایس ایس کو مشورے دئیے جاتے تھے کہ وہ’ غیر بھارتی ‘ اور ’بھارت مخالف‘سیاست کو روکنے کے اقدامات کرے اور ریاستی مشینری کے ذریعے ’بھارتیتا‘ (ہندو ستانیت )کے ہدف کی طرف پیشقدمی شروع کرے۔یہیں سے جن سنگھ کی بنیاد پڑی جو بعدمیں بی جےپی بنی جو آج دنیا کی سب سے بڑی پارٹی بن چکی ہے اور کہا جا سکتا ہےکہ سب سے بڑی این جی او کی اولاد ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK