Inquilab Logo Happiest Places to Work

تزکیہ ٔ نفس: چند توجہ طلب پہلو

Updated: March 03, 2023, 10:54 AM IST | Khwaja Muhammad Masoom Sirhandi | Mumbai

خواجہ محمد معصوم سرہندیؒ (۱۰۰۷-۱۰۷۹ھ / ۱۵۹۹-۱۶۶۸ء)حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے فرزند ثالث تھے۔ اپنے والد ماجد کے انتقال (۱۰۳۴ھ/۱۶۲۴ء) کے بعد ان کے جانشین کی حیثیت سے مسند ارشاد پر فائز ہوئے۔ ان کے مکاتیب میں دعوت الی اللہ، عقائد کی اصلاح، اعمال اور اخلاق کی درستی اورفکرآخرت جیسے مضامین ہیں۔انھوں نے اپنے خطوط میں ان کی اصلاح اور تربیت کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ ذیل کا مضمون: مکتوبات خواجہ محمد معصوم سرہندیؒ سے ماخوذ ہے۔ مترجم: مولانا نسیم احمد فریدی

photo;INN
تصویر :آئی این این

 اتباعِ سنت نبویؐ
جو شخص مسند مشیخت پر بیٹھا ہوا ہے اور اس کا عمل موافق ِ سنت رسولؐ نہیں ہے اور نہ خود زیورِ شریعت سے آراستہ ہے، خبردار، خبردار! اس سے دُور رہنا بلکہ (احتیاطاً) اُس شہر میں بھی نہ رہنا جس میں ایسا مکار رہتا ہو۔ ایسا نہ ہو کہ کچھ عرصے بعد اس کی طرف دل کا میلان ہو جائے اور کارخانۂ روحانیت خلل پزیر ہو۔ ایسا شخص ہرگز اقتداء کے لائق نہیں ہوتا۔ وہ تو درحقیقت ایک چور ہے پنہاں۔ ہرچند کہ اس سے طرح طرح کے خوارق عادات دیکھو اور اس کو دنیا سے بظاہر بے تعلق بھی پائو ( تب بھی اس کی طرف ملتفت نہ ہونا)، اس کی صحبت سے اس طرح بھاگنا جس طرح شیر سے بھاگتے ہیں۔
 سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی قدس سرہ فرماتے ہیں: ’’کامیابی کے تمام راستے بند ہیں سوائے اس شخص کے راستے کے جو آنحضرت ﷺ کے نقش قدم کی پیروی کرے۔‘‘ سیدالطائفہ ہی کا یہ قول ہے کہ مقربین صادقین کا راستہ درحقیقت کتاب و سنت کے ساتھ وابستہ ہے۔ اور وہ علماء جو شریعت و طریقت پر عامل ہیں اور وارث النبیؐ کہلانے کے مستحق ہیں وہ اقوال، اخلاق اور افعال میں آنحضرتؐ کے متبع  ہوتے ہیں۔
 مکرر لکھتا ہوں کہ آداب نبویؐ کا خیال نہ رکھنے والے اور سنن مصطفویؐ کو چھوڑنے والے کو ہرگز ہرگز ’’عارف‘‘ خیال نہ کرنا، اس کے (ظاہری) خوارق عادات (خلاف عادت باتیں، معجزے، کرشمے)، زہد و توکل اور (زبانی) معارفِ توحیدی پر فریفتہ و شیفتہ نہ ہو جانا… مدارِکار، اتباعِ شریعت پر ہے اور ’’معاملہ ٔ  نجات‘‘ پیروی ٔ نقشِ قدمِ رسولؐ سے مربوط ہے۔ محق و مبطل (حق و باطل) میں امتیاز پیدا کرنے والی چیز اتباع پیغمبر ہی ہے۔ زہد و توکل اور تبتل بغیر اتباع رسولؐ کے نامعتبر ہیں… ’’اذکار و افکار‘‘ اور ’’اشواق و اذواق‘‘ سرکار دوعالمؐکے توسل کے بغیر مفید نہیں۔ خوارقِ عادات کا دارومدار بھوک اور ریاضت پر ہے۔ اُس کو معرفت سے کیا تعلق؟
 حضرت عبداللہ بن مبارکؒ نے فرمایا ہے: ’’جس نے آداب سے سستی برتی وہ سنن سے محروم ہو گیا۔ جس نے سنن سے غفلت اختیار کی وہ فرائض سے محروم ہوا اور جس نے فرائض سے تہاون (کوتاہی، غفلت) کیا وہ معرفت سے محروم ہو گیا۔‘‘
 شیخ ابوسعید ابوالخیرؒ سے لوگوں نے کہا کہ فلاں شخص پانی پر چلتا ہے۔ انہوں نے فرمایا: ہاں! گھاس کا تنکا بھی پانی پر چلتا ہے (یہ کوئی کمال کی بات نہیں ہے)۔ پھر کہا گیا کہ فلاں آدمی ہوا میں اُڑتا ہے۔  فرمایا: (ٹھیک ہے) چیل اور مکھی بھی ہوا میں اُڑتے ہیں۔ پھر کہا گیا کہ فلاں آدمی ایک لحظہ میں ایک شہر سے دوسرے شہر چلا جاتا ہے۔ فرمایا: (اس میں کیا رکھا ہے) شیطان تو ایک دم مشرق سے مغرب تک چلا جاتا ہے۔ ان باتوں کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ مردِ حق دراصل وہ ہے جو مخلوق کے درمیان نشست و برخاست یا میل جول رکھے، اس کے بیوی بچے ہوں اور پھر ایک لحظہ کیلئے بھی خدائے عزوجل سے غافل نہ رہے۔
 شیخ علی ابن ابی بکر قدس سرہٗ نے معارج البدایہ میں فرمایا ہے کہ ’’ہر انسان کا حسن و کمال تمام امور میں ظاہراً و باطناً، اصولاً و فروعاً، عقلاً و فعلاً اور عادتاً و عبادتاً کامل اتباعِ رسولؐ میں مضمر ہے۔‘‘
توبہ و استغفار
 اگر کوئی گناہ وقوع میں آجائے تو بہت جلد اس کا تدارک توبہ و استغفار سے کر لینا چاہئے، گناہِ پوشیدہ کی توبہ پوشیدہ طریقے پر اور گناہِ آشکارا کی علانیہ طریقے پر توبہ ہو۔ توبہ میں دیر نہ کی جائے۔ منقول ہے کہ: کراماً کاتبین تین ساعت تک گناہ لکھنے میں توقف کرتے ہیں۔ اگر اس درمیان میں توبہ کر لی تو اس گناہ کو نہیں لکھتے ورنہ اپنے رجسٹر میں اس گناہ کا اندراج کر لیتے ہیں۔ جعفر بن سنانؒ فرماتے ہیں: ’’توبہ سے غفلت کرنا ارتکابِ گناہ سے بھی زیادہ بری بات ہے۔‘‘ اگر جلدی توبہ میسر نہ ہو سکے تو جب بھی توبہ کرے، غرغرئہ موت سے پہلے پہلے… وہ توبہ مقبول ہے۔ حدیث میں آیا ہے، اللہ تعالیٰ رات کو اپنا دست ِ نوازش دراز کرتا ہے تاکہ دن کا گنہگار توبہ کر لے اور دن کو بھی اپنا ہاتھ بڑھاتا ہے تاکہ رات کا گنہگار توبہ کر لے۔ انسان کو چاہئے کہ ورع و تقویٰ کو اپنا شعار بنائے اور منہیات میں قدم نہ رکھے کیونکہ اس راہِ سلوک میں نواہی سے باز رہنا (درحقیقت) اوامر کے امتثال (احکام بجا لانا)سے زیادہ ترقی بخش اور سودمند ہے۔ ایک درویش نے کہا ہے کہ: ’’اچھے اعمال تو نیک اور فاجر دونوں کر لیتے ہیں لیکن معاصی سے بچنے کا (اہتمام) ’’صدیق‘‘ کا کام ہے۔‘‘حدیث میں آیا ہے کہ حلال بھی ظاہر ہے اور حرام بھی۔ جو چیز تجھے شک میں ڈالے اس کو چھوڑ دے۔ (بخاری‘ مسلم)
کسب حلال اور توکل
 اگر اپنے اور اہل و عیال کے لئے تجارت یا اس کے مانند کوئی  حلال کسب کرے تو وہ مضر نہیں ہے بلکہ مستحسن ہے کیونکہ سلف نے اس کو اختیار کیا ہے۔ احادیث میں فضل کسب بہت کچھ بیان کیا گیا ہے۔ اگر کوئی توکل اختیار کرے،  تو یہ بھی بہتر ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ پھر کسی سے طمع نہ رکھے.ابومحمد منازلؒ نے فرمایا ہے کہ ’’توکل کسب حلال کے ساتھ ساتھ کرنا بہتر ہے بمقابلہ خالی توکل کے۔‘‘ کھانا کھانے میں اعتدال کا خیال رکھے، نہ اتنا زیادہ کھائے کہ وہ کھانا عبادت میں کسل اور سستی پیدا کردے اور نہ اس قدر کم کھائے کہ (ضعف کے باعث) اذکار و طاعات سے باز رہے۔ حضرت خواجہ نقشبندؒ کا ارشاد ہے کہ ’’لقمہ تر کھائو، لیکن (دینی) کام خوب کرو۔‘‘ 
 حسنِ اخلاق
 تمام افعال و حرکات میں اس کا قصد کرے کہ نیت صحیح ہو۔ جب تک نیت صالحہ نہ ہو حتی الامکان کوئی قدم نہ اٹھائے۔ لوگوں کے ساتھ اختلاط بقدرِ ضرورت کرے۔ وہ اختلاط جو برائے افادہ و استفادہ ہو، محمود بلکہ ضروری ہے۔ ہر نیک و بد کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آنا چاہئے خواہ اس سے باطن میں انبساط پیدا ہو یا انقباض۔ جو شخص عذر خواہی کرے اس کے عذر کو قبول کرنا چاہئے۔ اخلاق اچھے ہوں۔ (خواہ مخواہ) اعتراض کسی پر نہ کیا جائے، نرم و ملائم گفتگو ہو۔ کسی کے ساتھ سخت درشتی سے معاملہ نہ کرے، ہاں خدا کے لئے سختی کر سکتا ہے۔ شیخ عبداللہ ؒ نے فرمایا ہے کہ: ’’درویشی نہ فقط نماز روزے کا نام ہے اور نہ صرف بیداریٔ  شب کا، یہ تو اسباب بندگی ہیں۔ درویشی یہ ہے کہ کسی کی دل آزاری نہ کی جائے۔ اس خوبی کو حاصل کرے گا تو بامراد ہوگا۔‘‘
 محمد بن سالم ؒسے لوگوں نے دریافت کیا: ’’اولیاءکی پہچان کیا ہے؟‘‘ انہوں نے فرمایا: ’’اولیاء کی علامات یہ ہیں: لطف ِ لسان، حسنِ اخلاق، بشاشت ِ چہرہ، سخاوت نفس، قلّت اعتراض، عذرخواہ کے عذر کو قبول کرنا، تمام مخلوقِ خدا پر شفقت کرنا خواہ نیکوکار ہوں یا بدکار۔‘‘
 ابو عبداللہ احمد مقری قدس سرہٗ فرماتے ہیں: ’’جوانمردی یہ ہے کہ تو جس شخص سے کدورت رکھتا ہو اُس سے حسن خلق سے پیش آئے اور جس آدمی سے کراہت کرتا ہو اس پر مال خرچ کرے اور جس سے نفرت ہو اُس سے اچھا سلوک کرے۔بات چیت کرنے میں ’رعایت قلّت‘ مدنظر رہے۔ زیادہ نیند اور زیادہ ہنسنا بھی درست نہیں کیونکہ اس سے دل مردہ ہو جاتا ہے۔ اپنے تمام اُمور کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرے اور خدمت ِ مولیٰ میں چست ہو جائے۔ ایسا کرے گا تو تدبیر امور سے فارغ ہو جائیگا (اور سب کام غیب سے بن جائیں گے)۔  حضرت جنید بغدادیؒ نے خوب فرمایا ہے کہ: ’’دنیا کی تمام حاجتوں میں کامیابی کا راز ان حاجتوں کو ترک کر دینے میں پوشیدہ ہے۔ جب دل ایک جانب (خدا کی طرف) ہو جائے گا، خداوند کریم سب کام پورے کردے گا۔‘‘
  حدیث میں ہے: ’’جو شخص اپنے تمام غموں کو ایک غم (غمِ آخرت) بنا دے، اللہ تعالیٰ اس کے دنیا اور آخرت کے تمام کام بنا دے گا۔‘‘ نیز ایسا کرنے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو تیرے اوپر مہربان کر دے گا کہ وہ تیرے کاموں کو (خود بخود) انجام دیں گے۔
 اس سلسلے میں حضرت یحییٰ معاذ رازیؒ فرماتے ہیں: 
 ’’جس قدر تجھے اللہ سے محبت ہوگی، مخلوقِ خدا بھی تجھ سے اتنی ہی محبت کرے گی۔ تجھے خدا کا جس قدر خوف ہوگا مخلوق بھی تجھ سے اتنا ہی ڈرے گی اور تو جتنا خدا کے حکموں میں مشغول ہوگا، مخلوق بھی تیرا اتنا ہی کہنا مانے گی۔‘‘
مواعظ حسنہ
 کسی پر اعتماد سوائے فضل پروردگار کے نہ ہو۔ اہل و عیال کے ساتھ نیک سلوک کرنا چاہئے اور بقدرِ ضرورت ان سے اختلاط ہو تاکہ ان کا حق ادا ہو جائے۔ ’’موانست ِ تام‘‘ ان سے نہ ہو۔ اس صورت میں اللہ تعالیٰ سے اعراض کا اندیشہ ہے۔ ’’احوالِ باطن‘‘ نااہل سے نہ بیان کئے جائیں۔ مالداروں سے حتی المقدور میل جول نہ رکھا جائے۔ جمیع حالات میں سنت نبویؐ کو اختیار کیا جائے، بدعت سے حتی الوسع اجتناب ہونا چاہئے۔ عیوبِ مردم پر نظر نہ کرے اور اپنے عیوب ہمیشہ پیش نظر رکھے۔ اپنے آپ کو کسی مسلمان پر ترجیح نہ دے، سب کو اپنے سے بہتر سمجھے۔ ہر مسلمان کے متعلق یہ اعتقاد رکھے کہ اس کی برکت اور دعا سے مجھے کشود کار(مشکل کا آسان اور مسئلہ کا حل ہونا) میسر ہو سکتا ہے۔ سلف صالحین کے حالات پیش نظر رکھے۔ مساکین کی ہم نشینی پسند کرے۔ کسی کی غیبت کی جانب خود بھی مائل نہ ہو اور جہاں تک ہو سکے دوسرے کو بھی اس سے روکے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اپنا شیوہ بنائے۔  اللہ کے راستے میں انفاقِ مال پر حریص ہو۔ حسنات کے صدور سے خوشی محسوس کرے اور سیئات کے ارتکاب سے دُور رہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ: جو شخص ایسا ہو کہ اپنا گناہ اس کو ناگوار گزرے اور نیکی اُس کو خوش کرے، بس وہ مومن (کامل) ہے۔ (مسند احمد، دارمی)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK