سات دسمبر کی شام تھی، سورج کی کرنیں مدھم ہونے لگی تھیں
EPAPER
Updated: February 20, 2023, 5:35 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai
سات دسمبر کی شام تھی، سورج کی کرنیں مدھم ہونے لگی تھیں
سات دسمبر کی شام تھی، سورج کی کرنیں مدھم ہونے لگی تھیں، ان کی تمازت کم ہونے لگی تھی،نتیجتاً سرد ہواؤں کا تھوڑا بہت اثر ہونے لگا تھا۔ ایسے میں بچے گاؤں کی سیر کیلئے نکلے تھے، اچھل کود رہے تھے، بھاگ دوڑ رہے تھے، شور کررہے تھے۔ایک دوسرے کو ہنسا رہے تھے، رُلا رہے تھے، چڑا رہے تھے، ستا رہے تھے، بہلا رہے تھے۔ بس اسی طرح ان کا قافلہ بڑھتا رہا۔ چلتے چلتےپکی سڑک ختم ہوگئی۔ کھڑنجہ آگیا، دونوں طرف ساگوان کے درخت تھے، بچے ان کی پتیاں توڑ کر اپنی ہتھیلیاں لال کرنے لگے۔ مہندی نما ڈیزائن بنانے لگے۔ایک کہتا کہ دیکھو میرا ہاتھ زیادہ لال ہے، دوسرا کہتا کہ نہیں میرا ہاتھ زیادہ لال ہے۔کچھ بچوں کے ہاتھ میں ڈنڈا تھا جس سے وہ سرسوں کا سر قلم کررہے تھے،یعنی پھول کو پودے سے جدا کررہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کچا راستہ آگیاجس کے دونوں طرف کھیت تھے، کوئی بھی کھیت خالی نہیں تھا، چاروں طرف ہریالی تھی، شادابی تھی۔ مٹراورسرسوں کے ساتھ ارہر کے پودے بھی لہلہا رہے تھے، کھیت کے اوپر اکا دکا بھینسیں چررہی تھیں۔ایک جگہ چھوٹے بچے بھینسوں کو دیکھ کر ٹھٹک گئے، ان کے قدم رک گئے،خوف سے برا حال ہوگیا،کسی طرح آگے بڑھنے کیلئے تیار نہیں ہو رہے تھے۔ انہیں دیکھ کر چرواہے نے اپنا ڈنڈا سنبھال لیا اور ان کی معصومیت پر ہنستے ہوئے بچوں کو یقین دلایا:جا بابو بھینسیا نہ ماری، ہم ہیں نا۔ (جاؤ بابو بھینس نہیں مارے گی، ہم ہیں نا۔) اس طرح کئی بار :نہ ماری بابو جا۔ نہ ماری جا بابوجا... سننے کے بعد یہ بچے بہت مشکل سے آگے بڑھے۔مڑ مڑ کئی بار بھینسوں کی طرف دیکھا۔خوف دور ہونے ہی پر اپنے پرانےرنگ ڈھنگ میں آئے۔
اس زمانے کے بچے اسی طرح بھینسوں سے ڈرتے ہیں،ان سے دور بھاگتے ہیں۔ایک دور تھا جب بچے بھینسوں کی پیٹھ پر سوار ہوجاتے تھے،گھنٹوں ان کے ساتھ کھیلتے تھے۔ اس وقت گھر گھر میں بھینس پالی جاتی تھی بلکہ ہر دروازے کی شان ہوتی تھی۔ بچے بھی ان سے حددرجہ مانوس ہوتے تھے، عام طور پر بھینسیں انہیں نقصان نہیں پہنچاتی تھیں، دوستی کے بعد ان بچوں کے سامنے گردن جھکا دیتی تھیں، انہیں اپنائیت سے دیکھتی تھیں۔ بچوں کے پیٹھ پر سوار ہونے کے بعد ہلتی ڈولتی نہیں تھیں،خاموش کھڑی رہتی تھیں اور بچے جھک جھک کر ان کے سینگ چھوتے تھے، کان پکڑتے تھے، ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے تھے۔ زیادہ ادھر ادھر میں کبھی کبھی گر بھی جاتے تھے لیکن وہاں بچانے والے پہلے سے موجود رہتے تھے جو کسی بھی حال میں بچوں کو گرنے نہیں دیتے تھے۔
کسی وجہ سے بھینس کسی اور گاؤں منتقل ہوتی تو بچے آسمان سر پہ اٹھا لیتے تھے۔ رو رو کر بے حال ہوجاتے تھے، بھینس کو روکنے کیلئے ہر حربہ اپناتے تھے، بڑے بوڑھوں کی ناک میں دم کردیتے تھے مگر اس زمانے میں بڑوں کا فیصلہ بہت مشکل سے بدلتا تھا۔ بھینس اور بچوں کی جدائی کے جذباتی مناظر رلا دیتے تھے۔ بھینس کے جانے کے بعد بچوں کی زندگی بے رنگ ہوجاتی تھی۔ کھانے پینے میں بھی ان کی دلچسپی کم ہوجاتی تھی، اس صدمے سے نکلنے میں ہفتہ عشرہ لگ جاتا تھا۔ اتنے میں نئی بھینس آجاتی تھی۔ اس طرح دوستی کی ایک نئی عبارت لکھی جاتی تھی۔
اکادکا مرکہی(مارنے والی) بھینسیں بھی ہوتی تھیں جو بچوں کی الٹی سیدھی حرکتوں سے چڑجاتی تھیں اور اپنے سینگ چلادیتی تھیں لیکن ایسی بھینسیں ’نادھ‘ دی جاتی تھیں، یعنی انہیں نکیل ڈالی جاتی تھی، ان کا پگہا(رسی) بھی چھوٹا ہوتا تھا، تاکہ زیادہ اچھل کود نہ کرسکیں۔مانوس ہونے کے بعد مرکہی بھینس بھی بچوں کی دوست ہوجاتی تھی اور ان کی اشارے سمجھنے لگتی تھی بلکہ اشاروں پر ناچنے لگتی تھی لیکن باہر کےبچوں کیلئے وہ اسی طرح مرکہی رہتی۔ کالم نگار کو یاد ہے،بچپن میں محلےمیں ایک بھینس کا ’آتنک‘ تھا، اس کے سامنے کوئی بھی شرارت کرنے کی ہمت نہیں کرتا تھا۔ ایک دن ایک ڈھیٹ قسم کے نوجوان کی شامت آئی۔ گاؤں میں اس کی بہادری کا شہرہ تھا، لوگ اس نوجوان کے بارے میں کہتے تھے کہ وہ بڑے سے بڑا کام کرسکتا ہے، اونچے سے اونچا درخت اس کے سامنے چھوٹا ہے، وہ ہر درخت پر آسانی سے چڑھ جاتا تھا،پتلی شاخوں پر بے خوف گھنٹوں بیٹھا رہتا تھا۔ دیوار پھاندنے میں بھی اس کا جواب نہیں تھا۔ ایک دن اس نوجوان سے کہا گیا کہ تمہارا بڑا نام ہے،ذرا اس بھینس کے سامنے جاکر دکھاؤ، مان جائیں گے تم کچھ ہو۔ نوجوان گیا، اس نے اس بھینس کو’ ہوکا‘(بھڑکا) دیا۔ مرکہی بھینس بے قابو ہوگئی اور اس نے نوجوان کے سینے پر لات رکھ دیا۔ اتنے میں مالک وہاں پہنچا۔ اس نے کسی طرح سے اس کی جان بچائی۔ کہنے والے یہی کہہ رہے تھےکہ اگر بھینس کو روکا نہ گیا ہوتا تو وہ نوجوان کاکچومر بنادیتی اور اس کی جان لےکر ہی چھوڑتی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کچھ دیر بعد اسی بپھری اور مرکہی بھینس کو گھر کا سب سے چھوٹا بچہ معمولی ڈندے سے ہنکاتے ہوئے گھر لے گیا۔