Inquilab Logo

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی: ماضی،حال اور مستقبل

Updated: January 28, 2024, 5:02 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ موجودہ مرکزی حکومت نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مسلمانوں کے ۵۰؍فصدریزرویشن کی تجویز کو رد کرنے کیلئے اعلان بھی کر دیا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔

Sir Syed had a dream of a system of his own, a formula to fight against life and times, an organized plan to bring back the dignity of Muslims... Photo: INN
سرسید کا خواب تھا اپنے ایک نظام کا، زندگی اور زمانے سے مقابلہ کرنے کے فارمولے کا، مسلمانوں کے وقار کو واپس لانے کے منظّم منصوبے کا ....تصویر : آئی این این

وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ موجودہ مرکزی حکومت نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مسلمانوں کے ۵۰؍فصدریزرویشن کی تجویز کو رد کرنے کیلئے اعلان بھی کر دیا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ پڑھے لکھے مسلم طبقہ میں صف ماتم بچھ گئی جب کہ سنگھ پریوار میں جشن کا ماحول ہے۔ معاملہ عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے۔ وہاں سے آنے والے فیصلے کے اثرات کیا ہوں گے اس پر ہم آگے چل کر گفتگو کریں گے البتہ نئی نسل کو ہمارے اس بیش قیمت اثاثے یعنی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام کے پس منظر، اُس کے ضمن میں سرسیّد کے ویژن و مشن، اُن کی قربانیوں سے واقف کرائیں نیز یہ بھی بتائیں کہ اس ادارے کے تعلق سے کہاں اور کس سے غلطی یا غلطیاں سرزد ہوئیں ؟
 ۱۸۵۷ء کی خونیں جنگ بظاہر تو جنگ آزادی تھی مگر وہ سیدھے سیدھے معرکہ تھا انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان اور اس معرکۂ میں مسلمانوں کی مکمل پسپائی کی صورت میں جو قیامت صغریٰ ان پر اور ان کی تہذیب و ثقافت پر گزری، اس کی تاریخ لکھتے وقت مورّخ کے ہاتھ آج بھی کانپ اٹھتے ہیں۔ مغلیہ سلطنت جو اس سے چند سال قبل ہی لال قلعہ کی چہار دیواری تک محدود ہو کر رہ گئی تھی، اس شورش کے بعد ایک حرف غلط کی طرح مٹادی گئی اور پھر انگریزوں نے سارے مسلمانوں کو اپنے جبر وستم کا شکار بنانا شروع کردیا۔ بغاوت کے جرم میں اصحاب ثروت کو اور صاحب عزت وو قار کو ذلیل و خوار کیا گیا اور تو اور کئی ارباب علم ودانش کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ البتہ برِّصغیر کے مسلمانوں کے اس بڑے المیہ پر سب سے زیادہ جو شخص آٹھ آٹھ آنسورویاوہ سرسیّد تھا۔ ان کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جو اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں بھی اُجالے کے خواب اپنی آنکھوں میں سجائے تھے اور مسلمانوں کے جاہ وجلال اور وقار وتہذیب کے ٹوٹے ہوئے شیش محل کی کرچیں چنتے چنتے اپنی انگلیوں کو لہولہان کرنے کیلئے بھی تیار تھے۔ ان حالات میں سرسید نے جو خواب بُنا وہ صرف ایک درس گاہ یا یو نیورسٹی کا نہیں تھا۔ وہ خواب تھا اپنے ایک نظام کا، زندگی اور زمانے سے مقابلہ کرنے کے فارمولے کا، مسلمانوں کے وقار کو واپس لانے کے منظّم منصوبے کا ! 
 اب اسے کیا کیجئے کہ تمام علوم کی موجد اس مسلم قوم کو گزشتہ دو صدیوں سے عصری علوم کی طرف راغب کرانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا۔ ان دو صدیوں میں اس قوم میں قیامت کے غم میں گھلنے والوں کی تعداد میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ قوم ہر روز ایک قیامت سے گزر رہی ہے۔ مسلمانوں کے ایک چھوٹے سے طبقے میں عصری علوم پر لعنت بھیجنے کا سلسلہ تو آج بھی جاری ہے۔ آج سے ڈیڑھ صدی قبل اس میں کتنی شدّت رہی ہوگی، اس کا اندازہ کیجئے۔ ایسےمیں ان سب کو جھیل گئے سرسیّد! یہ کسی مردِ آہن کیلئے بھی ممکن نہیں تھا کیونکہ اس وقت کے حالات کا تذکرہ خود سر سیّد کے الفاظ میں سنئے :

یہ بھی پڑھئے: ہمارے نوجوان سیاسی بازیگری کو سمجھیں، صبر و حکمت سے کام لیں اور ہر وقت اپنے ہدف پر نظر رکھیں

 ’’ اگر ہماری قوم میں جہالت ہوتی تو چنداں مشکل نہ تھی۔ مشکل تو یہ ہے کہ قوم کی قوم جہل مرکب میں مبتلا ہے‘‘ مزید یہ کہ اس زمانے کے ’پڑھے لکھے‘ سمجھے جانے والوں میں سے بھی ایک طبقے کو ملّت کے ترجیحات کا احساس تھا نہ پاس۔ ان حالات میں مسلمانوں کو جدید دنیا سے ہم آہنگ کرانے کا جب عزم انہوں نے کیا ان کے ذہن میں کیا خیالات اُبل رہے تھے ملاحظہ فرمایئے:
 ’’جب مسلمانوں میں کچھ تعلیم کی تحریک ہوتی ہے تو ان کی سعی ہمیشہ اس بات پر مقصود ہوتی ہے کہ وہی پُرانا مورثی طریقہ تعلیم کا اور وہی ناقص سلسلہ نظامیہ درس کتب کا اختیار کیا جاتا ہے مگر میں سچّے دل سے کہتا ہوں کہ وہ محض بے فائدہ ہے اور محض لغو ہیں اور ان سے کچھ بھی قومی فائدہ ہونے کی توقع نہیں۔ زمانہ اور زمانے کی طبیعت اور علوم اور علوم کے نتائج سب تبدیل ہو گئے ہیں۔ ‘‘
 اس زمانے میں جو علوم رائج تھے اس کے بارے میں سرسیّد کا کہنا یہ تھا :
 ’’جو علوم مسلمانوں میں مروجہ ہیں وہ بلا شبہ غیر مفید ہیں اور حسبِ احتیاج وقت نہیں ہے اور یہی باعث ان کے مفلسی اور محتاجی ہے کیونکہ مفلسی کا اصلی سبب جہل ہے اور غیر مفید علوم کا عالم اور جاہل دونوں برابر ہیں اسلئے نہ ان سے لوگوں کو کچھ فائدہ پہنچتا ہے اور نہ خود اپنا کچھ بھلا کر سکتے ہیں۔ ‘‘
 ان حالات میں سرسیّدسے عصری علوم اور انگریزی تعلیم کے حصول میں قدرے شدّت پسندی آنی فطری بات تھی، سو وہ آگئی تھی اور مخالفین سرسیّد کو انگشت نمائی کا بڑا نا در موقع ہاتھ آیا۔ اس میں دورائے نہیں کی علم اور تعلیم کی تعریف وضع کرنے میں سرسید سے چند فکری لغزشیں سرزد ہوئیں جو ان کی تفسیر قرآن میں واضح نظر آتی ہے دراصل ان کا یہ فکری انحراف ان کی شدید عقلیت پسندی کا نتیجہ تھا البتہ اس دَور کا مطالعہ کریں تو اس کا پس منظر بھی آپ کی سمجھ میں آجائے گا کہ انیسویں صدی کے وسط میں عقلیت پسندی اپنی عروج پرتھی۔ مغربی دنیا اس خمار میں ڈوب چکی تھی مشرقی دنیا کے کئی علاقے بھی اس کی یلغار کی زد میں آچکے تھے۔ اس عقلیت کے اثر سے سرسید کا بچنا بھی محال تھا مگر جس انداز سے انہیں گھیرا گیا تھا۔ کفر کے فتوے بھی صادر ہوئے تھے اور ان کے خلاف لکھے جانے والے مضامین کے عنوان ہوا کرتے تھے :’مسخرا‘، ’ دیوانہ‘، ’خبطی‘، ’ فرنگیوں کا پٹھو‘ وغیرہ۔ اس کے بعد کسی بھی شخص میں فکری شدّت میں پیدا ہونا قطعی فطری بات تھی۔ اس کے باوجود سرسید چاہتے تھے کہ ہر شخص ان کی تحریک میں شامل ہو، ان کے مقاصد کو سمجھے اور اپنی رائے دے، اسلئے انہوں نے ۱۸۷۰ء میں ایک کمیٹی ’بنام خواست کارترقی تعلیم مسلمانان ہند‘ بنائی جس کا کام یہ طے پایا کہ وہ یہ معلوم کرے کہ مسلمان جدید تعلیم یا مغربی تعلیم پر کیوں لعنت بھیج رہے ہیں ؟کیوں وہ مغربی تعلیم سے پر ہیز کر رہے ہیں ؟ لوگوں میں دلچسپی پیدا کرنے اور اپنی طرف ان کی توجہ مبذول کرنے کیلئے اس کمیٹی نے مضامین لکھنے کا ایک مقابلہ طے کیا اور انعام کے طور پر اس زمانے کی ایک خطیر رقم کا اعلان کیا گیا: پہلا انعام پانچ سوروپے، دوسرا انعام تین سو روپے اور تیسرا ڈیڑھ سوروپے۔ شمالی ہند سے جہاں سرسید کا اثر زیادہ تھا ۳۲؍ مضامین موصول ہوئے اور سب نے کم و بیش مشتر کہ باتیں لکھیں وہ یہ تھیں :
  (۱) مسلمانوں کا انگریزی پڑھنا مذ ہبی طور پر نا جائز ہے۔ (۲) جو کتابیں انگریزی کے اسکول میں پڑھائی جاتی ہیں وہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ (۳) انگریزی تعلیم انسانی اخلاقیات پر بُرااثر ڈالتی ہے۔ (۴) انگریزی زبان اور انگریزی تعلیم کا پھیلاؤ مسلمانوں کے خلاف ایک منظم سازش ہے۔ (۵) انگریزی پڑھنے سے مسلمان گمراہ اور عیسائیت کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ (۶) سرکاری اسکول کے اساتذہ ان کے ہم مذہب نہیں ہوتے اور دوسرے مذہب کے اساتذہ انہیں کیا تعلیم دیں گے۔ 
  سرسیّد نے مرض پہچان لیا اور اس کے علاج پر سر جوڑ کر بیٹھے۔ اس ضمن میں ان کا پہلا اقدام تھا:۱۸۷۰ء میں تہذیب الاخلاق رسالے کا اجراء ! اس رسالے میں سرسید نے مسلمانوں کو بیدار ہونے اور زمانے سے ہم آہنگ ہونے کیلئے ایسے ایسے مضامین لکھے جو صرف وہی لکھ سکتے تھے۔ ان مضامین میں فکر تھی، مثبت فکر، سچائی تھی، کڑوی سچائی، درد تھا، حقیقی درد، دُور بینی تھی، گہرائی و گیرائی تھی، ان کی تحریرسطحی نہیں تھی، کسی بھی تحریر میں لفاظی نہیں تھی۔ وہ موجودہ زمانے کے’ ماہرین تعلیم‘ اور ’دانشوران قوم‘ جیسے نہیں تھے جو تعلیمی ادارے دکانوں کی طرح چلاتے ہیں، تعلیمی فکر کے جو کورے ہوتے ہیں اور اداروں کے نظم کیلئے وہ دانشوروں اور ماہرین کو کرائے پر لیتے ہیں۔ اس کے بر عکس علی گڑھ تحریک سے قبل سرسید نے آکسفورڈ یونیورسٹی، کیمبرج یونیورسٹی اور دیگر مغربی تعلیمی اداروں کے نظام تعلیم کا مطالعہ کیا تھا۔ اس کی اچھائیاں بھی سمجھیں اور ان کی کمیوں اور خامیوں پر بھی بلا شبہ ان کی نظر تھی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK