Inquilab Logo

ہمارے نوجوان سیاسی بازیگری کو سمجھیں، صبر و حکمت سے کام لیں اور ہر وقت اپنے ہدف پر نظر رکھیں

Updated: January 21, 2024, 4:35 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

۶؍دسمبر ۱۹۹۲ء کے بعد اب ۲۲؍جنوری ۲۰۲۴ء ایک اور آزمائش والا دن ہے۔ ۶؍دسمبر کو ملک کی عدالت عظمیٰ نے ایک قدیم مسجد کے تحفظ کیلئے تمام تر اقدامات اُٹھانے کا حکم دیا تھا۔

Students should focus their full attention on education, this is the demand of the situation. Photo: INN
طلبہ اپنی پوری توجہ تعلیم پر مرکوز رکھیں، یہی حالات کاتقاضا ہے۔ تصویر : آئی این این

۶؍دسمبر ۱۹۹۲ء کے بعد اب ۲۲؍جنوری ۲۰۲۴ء ایک اور آزمائش والا دن ہے۔ ۶؍دسمبر کو ملک کی عدالت عظمیٰ نے ایک قدیم مسجد کے تحفظ کیلئے تمام تر اقدامات اُٹھانے کا حکم دیا تھا۔ اب ۳۲؍سال بعد اُسی عدالت نے وہاں ایک مندر بنانے کی اجازت دی اورموجودہ حکومت اُس کو ایک عالیشان ایونٹ میں تبدیل کرنے پر آمادہ ہے۔ 
 کسی غیر معمولی سیاسی اتھل پُتھل سے سب سے زیادہ نوجوان اور کیمپس کا طالب علم متاثر ہوجاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سیاستداں اپنی روٹیاں سینکنے کیلئے ہمیشہ نوجوانوں کا استعمال کرتے ہیں۔ اِن سیاسی بازیگروں سے ہمارے نوجوانوں کو، اُن کے اہداف کو اور اُن کے خوابوں کو بکھرنے سے کیسے بچانا ہے اِس کیلئے ہمیں اُن کے ذہنوں میں اُٹھنے والے سوالوں کے تشفّی بخش جوابات دینے ہوں گے: 
سوال: آخر یہ رام جنم بھومی کا معاملہ شروع کیسے ہوا؟
جواب:ہر کوئی جانتا ہے کہ چھ صدی پُرانی اس مسجد میں ۲۲/۲۳؍دسمبر ۱۹۴۹ء کی رات میں رام للا کی مورتی رکھی گئی اور دوسری صبح ہنگامہ کھڑا کیا گیا کہ رام ’نمودار‘ ہوئے۔ نوجوانو! یہ معاملہ اس قدر معمولی اہمیت کا حامل تھا کہ مقامی پولیس اسٹیشن بھی اُس کو چٹکیوں میں حل کرسکتاتھاالبتہ اکثریتی فرقے کے ایک انتہا پسند گروہ نے اُس کو بڑا ایشو بنادیا۔ بات اُس وقت کےیوپی کے وزیر اعلیٰ تک پہنچی اور اُنھوں نے مسجدہی کو تالا لگانے کا حکم صادر کردیا۔ 
سوال: اُس وقت پنڈت نہرو جیسے مُدبر اور سیکولر انسان وزیر اعظم تھے۔ 
جواب: دراصل اِس ملک میں آزادی کے قبل ہی سے ایک ایسی انتہاپسند تنظیم وجود میں آگئی تھی جس کے اراکین کو یہ تربیت دی جارہی تھی کہ بڑی چالاکی سے ہر تنظیم میں شامل ہوجائو اور اپنا کام کئے جائو۔ تاریخ کے طلبہ ذرا اُس زمانے کی سیاسی سائنس کو سمجھ لیں کہ (الف) اِس ملک کی مرکزی کابینہ سے استعفیٰ دینے والے پہلے وزیر کا نام تھا شیاما پرساد مکھرجی، جنھوں نے نہرو کی کابینہ سے استعفیٰ دے دیا اور دوسرے ہی دن جن سنگھ کی بنیاد ڈالی۔ پنڈت نہرو جیسے ذہین انسان کو بھی اندازہ نہیں ہوپایا کہ اُن کی کابینہ میں ایک انتہا پسند بھی موجود ہے۔ (ب) نہرو چاہتے تھے کہ وہ مورتیاں مسجد سے فوراً ہٹالی جائیں البتہ اُنہی کی پارٹی کے یوپی کے وزیر اعلیٰ گووند ولبھ پنت نے وہ حکم نظر انداز کردیا۔ (ج) اُس کے بعد ۶؍دسمبر ۱۹۹۲ء کو بابری مسجد کی شہادت کے وقت نرسمہا رائو وزیر اعظم تھے جو پوری مسجد کا انہدام ہونے تک خاموش رہے۔ کانگریس پارٹی سمجھ نہیں پائی تھی کہ اُنھوں نے نرسمہا رائو کی شکل میں ایک سنگھی وزیر اعظم کو حلف دلایا تھا۔ 
سوال: سپریم کورٹ نے بابری مسجد سےمتعلق جو فیصلہ دیا، وہ بھی تو غلط تھا؟
جواب: اُس فیصلے کا روشن پہلو یہ تھا کہ اُس میں یہ اعتراف کیا گیا تھا کہ (الف) بابر کے معاون میر باقر نے کوئی مندر ڈھا کر مسجد تعمیر نہیں کی تھی۔ (ب) ۲۲/۲۳؍دسمبر ۱۹۴۹ء کی درمیانی رات میں مسجد میں زبردستی مورتیاں رکھی گئی تھیں اور اُس دھاندلی کی شکایت کرنے والے برادرانِ وطن تھے (ج) ۶؍دسمبر ۱۹۹۲ء کو مسجد کا انہدام ایک بڑا جرم تھا۔ 
سوال: پھر فیصلہ رام مندر کے حق میں کیسے آگیا؟
جواب: فیصلہ ’آستھا‘ (عقیدے) کی بنیاد پر دیا گیا۔ 

یہ بھی پڑھئے: ادیب، شاعر اور استاذ ہمارے دانشور اورعلمی، ادبی اورتعلیمی تقریبات ہماری دانش گاہیں ہیں

سوال: ہم لاء کے طلبہ ہیں، ہمیں بتائیں کہ آستھا کی بنیاد پر فیصلے کیونکر ہوتے ہیں ؟
جواب:سارے عدالتی نظام جانتے ہیں کہ آستھا کی بنیاد پر کبھی عدالتی فیصلے نہیں ہوا کرتے۔ دراصل جمہوریت میں یہی ہوتا ہے کہ اکثریتی فرقے کو کوئی سیاسی پارٹی ناراض کرنا اور اپنا ووٹ بینک دیوالیہ کرنانہیں چاہتی۔ وہیں سیاستداں بدقسمتی سے عدلیہ کو بھی آمادہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ اکثریتی فرقے کو ناراض کرکے ملک میں بدنظمی پھیل جائے گی۔ 
سوال: اس فیصلے کے بعد بھی عدلیہ کے کئی فیصلے صرف اکثریتی فرقے کے حق میں صادر ہوئے، کیا مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوتا رہے گا؟
جواب: اب یہاں ماتم کیجئے آزادی سے قبل کی ہماری لیڈر شِپ پر (الف) ہم نے ۷۰۰؍سال تک اس ملک پرحکومت کی اورپھر اچانک ایک ایسی قیادت اُبھری جس نے دوقومی نظریے کی وکالت شروع کی۔ (ب) جد و جہد آزادی کے دوران ہمیں مُدبّر، مفکّر مفسرِ قرآن مولانا آزاد کواپنا قائد اعظم بنانا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ حالانکہ ریاضی کا پرائمری اسکول کا بھی یہ کلّیہ جانتا ہے کہ تقسیم سے قیمت گھٹتی ہے۔ (ج) دراصل جدو جہد آزادی سے بہت پہلے ہم سرسیداحمد کو بھی اپنا قائد تسلیم کرسکتے تھے جن کے افکار میں ۱۰؍فیصد انگریزیت تھی، اُس پر ہمیں بھی اختلاف ہے البتہ ۹۰؍ فیصد قومیت تھی، اسلئے اُنھیں قائد تسلیم کرنے پر صرف علی گڑھ میں نہیں بلکہ ملک بھر میں تعلیمی اداروں کاجال بچھاہوتا اور اُس علمی بیداری کی بنا پر تقسیم ہند کی نوبت بھی نہیں آتی۔ (د) نوجوانو! یہ کڑوا سچ حلق سے نہیں اُترے گا البتہ غلط انتخاب کی بنا پر ہماری حیثیت ایک ہارے ہوئے معرکے کے قیدی کے طورپر ہوگئی۔ بدبختی سے اس کا مطلب یہ تھا کہ اکثریتی فرقہ، اکثریتی پارٹی، اکثریتی پارلیمان، اکثریتی عدلیہ جو بھی اور جیسے بھی فیصلے کریں، ہمیں منظور ہے۔ 
سوال :اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اقلیتوں کے ساتھ اب ہمیشہ صرف نا انصافی ہی ہوتی رہے گی؟
جواب: نہیں (الف) برادرانِ وطن میں آج بھی ایک بڑا طبقہ ہے جو جذباتی نہیں ہے، جو سمجھتا ہے کہ جذباتی و جوشیلی قیادت سے ملک کی معیشت ۵۰؍ سال پیچھے چلی گئی ہے۔ (ب) آج یہ ملک فکر کے لحاظ سے دو حصّوں میں بٹا ہوا ہے: جنوبی ہندوستان اور شمالی ہندوستان۔ لگ بھگ پورا جنوبی ہند حقیقت پسند ہے البتہ تکنیکی وجوہات کی بنا پر یہاں سے ملک کے لوک سبھا کی صرف ۱۳۲؍نشستیں ہیں اور شمالی ہند میں ۴۰۰؍نشستیں۔ 
سوال: اس کا علاج کیا ہے؟ 
جواب: اس گھُپ اندھیرے میں ہمیں آغاز کچھ اس طرح کرنا ہے: (الف) سب سے پہلے ہماری معاشرتی بیماریوں سے چھٹکارہ پانا ہے، مثلاً جہیز، فضول خرچی اور نام و نمو دکی نمائش وغیرہ۔ (ب) یہ آیت ربّانی خصوصی طور پر ہمارے ذہنوں میں ہمیشہ گونجتی رہنا چاہئے کہ علم والے اور بغیر علم والے کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔ (ج) سارے جدید علوم اورٹیکنالوجی سے اپنے بچّوں کو آراستہ کرنا ہے (د)حصولِ علم کی مد میں سرمایہ کاری کا شعور اپنے اندر پیدا کرنا ہے۔ 
سوال: ۲۲؍جنوری ۲۰۲۴ء اور اُس کے بعد اشتعال انگیزی کی جائے تو ہم نوجوان کیا کریں ؟
جواب: صبر و حکمت سے کام لینا ہے۔ 
سوال : ہر بار صرف صبر....؟
جواب: صبر کو ’صرف‘ نہ کہیں۔ آخری کتاب میں صبر کو زندگی میں حقیقی سرخروئی و کامیابی حاصل کرنے کیلئے ایک بڑا ہتھیار کہا گیا ہے۔ حکمت کا بھی بڑا مرتبہ ہے، حکمت نہ برتی گئی تو ہم جو بھی کام کریں گے اُسے صرف حماقت کہا جائے گا۔ 
سوال: اب کیا ہوگا؟
جواب: اِن ۱۵؍دِنوں میں دو باتوں کا امکان ہے: (الف) بھجن، کیرتن، کرتے کرتے ہی پردھان سیوک لوک سبھا کے الیکشن کا اعلان کردیں گے (ب) یا بجٹ کا خصوصی اجلاس طلب کیا جائے گا اور اُس میں (۱) یکساں سوِل کوڈ اور (۲) دفعہ ۳۰؍یعنی تعلیمی اداروں کے اقلیتی کردار کے تحفظ کے خاتمہ کا اعلان ہوجائے۔ 
سوال : ہم نوجوان کیا کریں ؟
جواب: احتجاج ہرگز نہ کریں، راستے پر نہ اُتریں، ہمارے یہاں بھی کچھ لوگ ریلیف کمیٹیاں قائم کرنے کے خواہاں ہیں اور انتہا پسند اکثریتی فرقے میں تو کچھ لوگ غزہ میں جاکر اقلیتوں کی نسل کشی کی ٹریننگ حاصل کرنے کیلئے بیتاب ہیں۔ اسلئے فی الحال ہمارے لئے صرف صبر و حکمت ہی واحد راستہ ہے۔ حکمت و عمل کا فارمولہ وہی جو ہمارے اکابرین نے اپنایا تھا کہ اپنے دین کی تبلیغ وہ صرف اور صرف اپنے اعمال سے کیا کرتے تھے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK