Inquilab Logo Happiest Places to Work

گاؤں کی باتیں: جنگل میں منگل، مور کاناچ، بھوجپوری نغمے اور نیل گایوں کا قصہ

Updated: August 06, 2023, 7:05 AM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai

ممبئی۲۶؍ جولائی کو کیوں یاد کرتا ہے؟ اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ ہرسال اس تاریخ کو آسمان ٹوٹ کر برستا ہے۔ اس طرح ۲۶؍ جولائی کی لاج رہ جاتی ہے۔ گاؤں کی ایک ۲۶؍ جولائی دیکھئے۔ ممبئی کی ۲۶؍ جولائی سے بالکل مختلف، سوکھی سوکھی سی... لو کے تھپیڑوں والی....امس والی۔ اس سخت موسم میں آبادی میں رہنا مشکل تھا۔ ایسے میں اس کالم نگار نے جنگل کا رخ کیا۔

Goats grazing in the fields. Photo: INN
کھیتوں میں چرتی ہوئی بکریاں۔تصویر: آئی این این

ممبئی۲۶؍ جولائی کو کیوں یاد کرتا ہے؟ اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ ہرسال اس تاریخ کو آسمان ٹوٹ کر برستا ہے۔ اس طرح ۲۶؍ جولائی کی لاج رہ جاتی ہے۔ گاؤں کی ایک ۲۶؍ جولائی دیکھئے۔ ممبئی کی ۲۶؍ جولائی سے بالکل مختلف، سوکھی سوکھی سی... لو کے تھپیڑوں والی....امس والی۔ اس سخت موسم میں آبادی میں رہنا مشکل تھا۔ ایسے میں اس کالم نگار نے جنگل کا رخ کیا۔ شام کے وقت گاؤں کے باہر جنگل میں منگل تھا، مور ناچ رہے تھے، وہ بھی سب کی نگاہوں کے سامنے اور اتنی دیر تک کہ مور کا ناچ سب نے دیکھ لیا۔ آس پاس کےخالی کھیتوں میں بکریاں اور بھینسیں چر رہی تھیں۔ ہر عمر کے چرواہے ٹیوب ویل کی چھت اور اس کے حوض پربیٹھے تھے۔ کچھ بچوں کے ایک ہاتھ میں مویشی ہنکانے والا ڈنڈا اور دوسرے ہاتھ میں موبائل تھا۔ بھوجپوری نغمے جنگل کا سناٹا چیر رہے تھے۔ پتہ نہیں کس کی ڈیجیٹل آواز جنگل میں گونج رہی تھی؟ دوسری طرف چرند پرند تھے، رہ رہ کر ان کی حقیقی آوازیں ڈیجیٹل آوازوں پر حاوی ہوجاتی تھیں۔ مور چپ ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے، لگاتار بولے جا رہے تھے۔ دوسرے پرندے بھی چہچہا رہے تھے۔ انسانوں کی بستی سے دور گاؤں کے حصے میں میاں کابن ہے، سونتھوا(شیوناتھ)کا باغ ہے، بتاتے ہیں کہ کسی زمانے میں یہاں شیوناتھ کی مڈئی(منڈئی) تھی۔ اس ویرانے میں وہ سال بھر آم اور امرود کے باغ جوگاتے( نگرانی کرتے) تھے، ادھیا(بٹائی) پرگاؤں والوں کے کھیتوں کی بوائی بھی کرتے تھے۔ دن رات یہیں پڑے رہتے تھے۔ شیوناتھ نے بہت پہلے باغ اور کھیت چھوڑ دیا تھا۔ ندی کے اس پار اپنے گاؤں چلے گئےتھے۔ ایک دن اتنی خاموشی سے انتقال گرکئےکہ زندگی بھر جن کے باغوں اور کھیتوں کی نگرانی کی تھی، انہیں بھی خبر نہ ہوئی لیکن زمین کے جس ٹکرے پر کسی زمانے میں ان کی حکومت تھی، آج بھی وہ حصہ ان کے نام سے مشہور ہے۔ پرانے لوگ آج بھی ٹہلتے ٹہلتے وہاں پہنچ جاتے ہیں، اتفاق سے اُس وقت کوئی انہیں کال کرکے پوچھتا ہے کہ کہاں ہیں ؟ تو وہ بے ساختہ کہتے ہیں کہ سونتھوا کی مڑئی کے پاس، حالانکہ شیوناتھ کاباغ کیا؟ اطراف میں کوئی منڈئی نہیں بچی ہے۔ کبھی کبھار شیو ناتھ کی سابق سلطنت کا رخ کرنے والے سستانے کیلئے منڈئی نہیں بلکہ کسی بھی مینڈ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ 
 اس خطے میں لل گائیں (نیل گائیں ) بھی رہ رہ کر نظر آئیں۔ جنگل میں جابجا ان کے قدموں کے نشان تھے۔ نیل گائیں جہاں سے گزرتی ہیں، قدموں کے نشان چھوڑ جاتی ہیں، بڑے بوڑھے آسانی سے پہچان لیتے ہیں، آج بھی کچھ اتنے ماہر ہیں کہ ان کے کھر کے نشان سے کئی دن گزرنے کے بعد بھی ان کے موجودہ ٹھکانے تک پہنچ جاتے ہیں، اس عمل کو کھر بٹھانا کہتے ہیں۔ اسی سے اردو میں کھرکوج ہے جو نشان، سراغ اور پتہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ 
  نیل گائیں فصلوں کی دشمن ہیں، اس لئے انہیں ہنکانے اور فصلوں سے دور بھگانے کیلئےآج بھی کھر بٹھایا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اب گاؤں میں ایسے ماہرگنتی کے ہیں، انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ شاید بیس پچیس سال بعد ان ماہرین کی ضرورت بھی نہ رہے، کیونکہ اس دور میں حس کو کم کم زحمت دی جاتی ہے، ایسی مہارت انتہائی کم استعمال کی جا رہی ہے، ظاہر ہے کہ شہر سے لے کر گاؤں تک ہر جگہ ڈیوائس اور جدید آلات کی حکمرانی ہے، ایسے میں گاؤں والے ایسی مہارت کیاکریں گے؟ اس کا اچار تو بالکل نہیں ڈالیں گے۔ 
 ویسے نیل گائیں کہیں رُکتی نہیں، خانہ بدوشوں کی طرح اس گاؤں سے اس گاؤں پھرتی رہتی ہیں، صرف خاص خاص موقع پر گھنے جنگلوں کے درمیان رہتی ہیں۔ عام طور نیل گائیں جہاں گروپ کی شکل میں رہتی ہیں، وہاں زمین پر اُن کےفضلے ہوتے ہیں، اس وقت نر نیل گائے بھی ان کے ساتھ رہتے ہیں جنہیں پوروانچل کے گاؤں والے نربیل نہیں بلکہ گھگڑوج کہتے ہیں۔ 
 جنگل کی زمین میں تقریباً خیریت تھی، کچھ بدلا نہیں تھا، یہاں گاؤں پوری طرح زندہ تھا، جنگل کے اس علاقے پرکسی تہذیب اور کلچر کی پرچھائیں نہیں پڑی تھی۔ 
 اس کالم نگار نے نظر اٹھا کر دیکھا تو بادل کا ایک بھی ٹکڑا نہیں تھا، ادھر زمین پر دور دور تک پھیلے ہرے بھرے اور سرسبز کھیتوں میں گائے، بھینس، بکری، نیل گائے اور مور بھی تھے، ادھرنیلے آسمان پر کوئی بھینس اور کوئی ہاتھی نہیں چل رہا تھا، خالی خالی تھا۔ بس گاؤں والوں کی یہی خواہش تھی کہ آسمان بھی کالے کالے بادلوں کی فوج سے آباد ہوجائے تاکہ جب بھی نظر اٹھائیں، آسمان کی چھت پر کسی ہاتھی اور بھینس کے یہاں سے وہاں جانے کا گمان ہو۔ گاؤں والے یہی چاہتے ہیں کہ ۲۶؍ جولائی نہ سہی، اب ۶؍ اگست ہی ہوجائے۔ بادل کا کوئی ٹکڑا ٹوٹ کربرس جائے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK