’’اور (اللہ) بہت سی چیزیں (تمہارے فائدے کیلئے) پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم تک نہیں ہے ‘‘(النحل:۸)۔
EPAPER
Updated: September 26, 2025, 4:49 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai
’’اور (اللہ) بہت سی چیزیں (تمہارے فائدے کیلئے) پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم تک نہیں ہے ‘‘(النحل:۸)۔
موجودہ دور کے انقلابات میں ایک نمایاں اور حیرت انگیز انقلاب مصنوعی ذہانت (اے آئی) ہے۔ اس نے جہاں طب، تجارت، صنعت اور دیگر میدانوں میں ایک نیا انقلاب برپا کیا ہے، وہیں یہ علم و ادب کے متلاشیوں کے لئے بھی ایک غیر معمولی تحفہ ثابت ہوئی ہے۔
مصنوعی ذہانت (اے آئی) نے تحقیق کے طویل سفر کو ایک معنی میں مختصر اور آسان بنا دیا ہے۔ وہ خزانے جو کبھی صرف بڑے کتب خانوں یا محققین کی دسترس میں ہوتے تھے، آج ایک حد تک ہر طالب ِ علم اور ہر لکھنے والے کے سامنے لمحوں میں بکھر جاتے ہیں۔ گویا فکر کی دنیا میں یہ انقلاب صرف سہولت نہیں، علم کے افق پر نئی روشنی ہے جس نے مطالعہ اور تحریر دونوں کو سرعت بخشی ہے۔
اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو ہر وہ ایجاد اور ہر وہ سہولت جو انسانی زندگی کو آسان بناتی ہے، دراصل اللہ رب العزت کی عظیم نعمتوں میں سے ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور (اللہ) بہت سی چیزیں (تمہارے فائدے کیلئے) پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم تک نہیں ہے۔ ‘‘ (النحل: ۸) اس آیتِ کریمہ میں صاف اشارہ ہے کہ ہر دور میں انسان کے سامنے نئی نئی ایجادات اور انکشافات آتے رہیں گے اور یہ سب دراصل اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی نعمتوں کا حصہ ہیں۔ اسی تناظر میں اگر مصنوعی ذہانت کو دیکھا جائے تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کے علم و حکمت کا ایک مظہر ہے جو انسانوں کیلئے آسانی اور سہولت کا ذریعہ بن رہا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:ایسے ہوتے تھے نبی ٔ آخر الزماں ؐ کے پاکیزہ شب و روز
مصنوعی ذہانت دراصل انٹرنیٹ پر پہلے سے موجود علمی ذخیرے کو بنیاد بنا کر مطلوبہ معلومات سامنے لاتی ہے۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو اس میں اصل کارنامہ اُن اہلِ علم کا ہے جنہوں نے پہلے سے ہی اپنی محنت اور کاوش سے اسلامی علوم و معارف کو نیٹ کی دنیا میں منتقل کیا ہے۔ بلاشبہ ان کی یہ خدمت نہ صرف دورِ حاضر میں طلبہ اور محققین کے لئے آسانی کا سبب ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی روشنی کا مینار ہے۔ مزید یہ کہ حدیث ِ نبویؐ میں واضح طور پرفرمایا گیا ہے کہ انسان کے مرنے کے بعد اُس کے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں لیکن اگر کسی نےنفع بخش علم چھوڑا ہے تو اس کا ثواب اسے ملتا رہتا ہے۔ (ابن ماجہ) اس حدیث کی بنیاد پر جب کوئی شخص اے آئی کے ذریعے ان علوم سے استفادہ کرتا ہے تو یہ اُن اہلِ علم کے لئے صدقہ جاریہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے جو قیامت تک ان کے نامۂ اعمال میں نیکیوں کا اضافہ کرتا رہے گا۔
یہاں یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ انٹرنیٹ پر اسلامی معلومات کا بیش بہا خزانہ موجود ہے، مگر اس میں ایسا حصہ بھی ہے جو یا تو سرے سے مستند نہیں ہے یا کم معتبر ہے۔ اس میں غیر مسلم مستشرقین کی تحریریں بھی ہیں، جن کی نظر ہمیشہ تنقید اور تحریف کے زاویے سے اسلام کو دیکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مصنوعی ذہانت اگرچہ سہولت فراہم کرتی ہے لیکن یہ محض ایک آلہ ہے، جو صحیح اور غلط کے امتیاز کے بغیر ہر چیز سامنے رکھ دیتا ہے۔ لہٰذا اسلامی علوم کے طالب علم کیلئے ناگزیر ہے کہ وہ اس سہولت سے استفادہ کرتے وقت تمیز اور بصیرت کا دامن تھامے، ورنہ خطرہ ہے کہ وہ گمراہی کو پھیلانے کا ذریعہ بن جائے۔ اس طرح یہ ایک امتحان بھی ہے کہ آیا ہم اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو حکمت و بصیرت کے ساتھ استعمال کرتے ہیں یا ان کے غلط استعمال کے سبب معتوب قرار پاتے ہیں۔ اس پس منظر میں ہمیں یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہئے کہ رسولؐ مقبول نے اپنی امت کو دین کے باب میں امانت داری اور صداقت کی سخت تاکید فرمائی ہے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا :’’جو شخص جان بوجھ کر میری طرف جھوٹی بات منسوب کرے، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔ ‘‘ (بخاری) یہ حدیث نہایت سخت وعید پر مشتمل ہے اور اس سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا اسلام کی طرف کسی ایسی بات کو منسوب کرنا جو درحقیقت اللہ نے یا آپؐ نے نہ فرمائی ہو، ایک سنگین جرم اور ناقابلِ معافی گناہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی علوم میں روایت و درایت کی تحقیق کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، تاکہ دین کی اصل شکل میں حفاظت ہو اور امت گمراہی کے اندھیروں میں نہ بھٹکے۔ اس روشنی میں ہمیں انٹرنیٹ اور مصنوعی ذہانت جیسے ذرائع سے معلومات حاصل کرتے وقت انتہائی احتیاط برتنی چاہئے، تاکہ کسی جھوٹی یا من گھڑت بات کو اسلام یا رسولؐ اللہ کی طرف منسوب کر کے ہم اللہ کی پکڑ میں نہ آجائیں۔
یہ بھی پڑھئے:کامیابی اور فلاح کا واحد راستہ سیرتؐ کی پیروی ہے
مصنوعی ذہانت چونکہ محض مطالبے کے مطابق انٹرنیٹ پر موجود مواد کو جمع کر کے پیش کرتی ہے، اس لئے اس پر اندھا دھند اعتماد کرنا علمی دیانت کے منافی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ اس کے فراہم کردہ مواد میں احادیث خلط ملط ہو گئی ہیں یا قرآنی آیات کے تراجم میں الٹ پھیر سامنے آجاتی ہے، جو کہ نہایت نازک اور حساس معاملہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مصنوعی ذہانت سے حاصل شدہ معلومات کو ہمیشہ محققانہ نظر سے پرکھنا ضروری ہے۔ اصل مراجع، معتبر کتب اور اہلِ علم کی رہنمائی کے بغیر ان پر اعتماد کرنا انسان کو علمی خطا ہی نہیں بلکہ دینی گمراہی تک میں دھکیل سکتا ہے۔ لہٰذا ایک سنجیدہ طالب ِ علم یا محقق کے لئے لازم ہے کہ وہ اسے صرف ایک ذریعہ سمجھےنہ کہ حتمی منبع۔
اسی حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے آج اہلِ حق علماء اور دانشوروں پر ایک نہایت اہم اور بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسلامی علوم و معارف کو بڑے پیمانے پر انٹرنیٹ پر منتقل کریں۔ اگر درست اور معتبر دینی ذخیرہ آن لائن موجود ہوگا تو مصنوعی ذہانت کے آلات بھی صحیح مواد سے استفادہ کریں گے اور دنیا کے سامنے اسلام کا اصل اور مستند تعارف پہنچے گا۔ بصورتِ دیگر خطرہ ہے کہ گمراہ فرقوں اور مستشرقین کا پھیلایا ہوا مشتبہ مواد ہی بنیاد بن جائے، جس سے تحقیق اور رہنمائی کے طلبگار افراد غلط سمت میں چلے جائیں۔ لہٰذا یہ کام نہ صرف علمی خدمت ہے بلکہ عہدِ حاضر کی ایک دینی ضرورت اور امت پر عظیم احسان بھی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کو صرف اس کے مثبت پہلو سے دیکھنا کافی نہیں، بلکہ اس کے منفی پہلو پر بھی گہری نظر رکھنا لازمی ہے۔ اگر ہم اس ایجاد کو محض سہولت سمجھ کر بغیر تحقیق کے استعمال کریں تو یہ تن آسانی گمراہی اور غلط فہمی پر منتج ہو سکتی ہے، لیکن اگر اس سے سنجیدگی اور بصیرت کے ساتھ فائدہ اٹھایا جائے تو یہی ٹیکنالوجی اسلامی تعلیمات کی ترویج و اشاعت کا ایک مضبوط اور مؤثر ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے۔ n