سابق چیف الیکشن کمشنر ڈاکٹر ایس وائی قریشی نے اپنی کتاب’انڈیاز ایکسپریمنٹ وِتھ ڈیموکریسی‘ میں اپنے تجربات بیان کرتے ہوئےانتخابی عمل کا جائزہ لیا ہے ۔ اس کے علاوہ دوسرے موضوعات پر بھی انہوں نے کھل کر گفتگو کی ہے۔
EPAPER
Updated: May 12, 2024, 3:01 PM IST | Ghulam Arif | Mumbai
سابق چیف الیکشن کمشنر ڈاکٹر ایس وائی قریشی نے اپنی کتاب’انڈیاز ایکسپریمنٹ وِتھ ڈیموکریسی‘ میں اپنے تجربات بیان کرتے ہوئےانتخابی عمل کا جائزہ لیا ہے ۔ اس کے علاوہ دوسرے موضوعات پر بھی انہوں نے کھل کر گفتگو کی ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی بنیاد، خود ہم ہندوستان کے لوگ ہی ہیں۔ جمہوریت کی اثر پذیری کا انحصار بڑی حد تک اس بات پر ہوتا ہے کی عوام کا تصورِجمہوریت کیا ہے۔ ڈیموکریسی اپنے کئی عناصر اور خوبیوں کے ساتھ ایک وسیع تر سیاسی تصور ہے، لیکن عام لوگوں کیلئے جمہوریت کے سب سے نمایاں معنی رائے دہی کا حق اور اس حق کے استعمال کا عمل یعنی الیکشن ہیں۔
ایس وائی قریشی کی نئی کتاب ’انڈیاز ایکسپریمنٹ وِتھ ڈیموکریسی‘ (جمہوریت کے ساتھ ہندوستان کے تجربات) ہندوستانی قوم کی زندگی کو اس کے انتخابات کے ذریعہ سمجھنے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے۔ کتاب میں ملک کے جمہوری عمل کے اِرتقاء کی عُمدگی کے ساتھ تفہیم کرائی گئی ہے۔ کتاب، ہندوستانی انتخابات کے سفر کی پیچیدگیوں کو بخوبی اُجاگر کرتی ہے، جمہوری عمل کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتی ہے اور جمہوریت کو درپیش چیلنجوں کا ایک جامع تجزیہ پیش کرتی ہے۔
ڈاکٹر قریشی ۱۹۷۱ء میں آئی اے ایس افسر بنے۔ نوکر شاہی کے اتنے طویل تجربے نے ان کو ہندوستانی سیاست اور جمہوریت کے متعلق عمیق فہم سے نوازا۔ پھر الیکشن کمشنر اور چیف الیکشن کمشنر کی حیثیت سے ذمہ داریوں نے ان کو انتخابات کے انتظام و انصرام کے عملی تجربات کا قیمتی ذخیرہ عطا کیا۔ یہ ان کی تیسری کتاب ہے۔ ملک کے انتخابی سفر کیلئے وہ زمانی ترتیب کا راستہ منتخب نہیں کرتے بلکہ متعدد اور مختلف موضوعات وعنوانات کی پتھریلی سڑکوں پرایک مہم جو کی طرح چلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ کتاب قاری کے ذہن میں ہندوستانی انتخابات اور ارد گرد کے سارے معاملات کا ایک مجموعی خاکہ تیار کردیتی ہے۔
الیکشن کمیشن اور ساکھ کا بحران
گزشتہ برسوں میں الیکشن کمیشن کے طریقہ کارکردگی پرمسلسل سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ اس سے کمیشن کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ مصنف نے کمیشن کی ساخت، طریقہ تشکیل، اختیارات اور اس کے رول پر کُھل کر اظہارِخیال کیا ہے۔ ۲۰۱۹ء میں عام انتخابات کے دوران کمیشن کا رول لوگوں کے اعتماد میں کمی کا باعث بنا۔ سابق بیوروکریٹس کے ایک گروپ نے صدر جمہوریہ کو خط لکھ کر اس جانب توجہ بھی مبذول کرائی تھی۔ اُن انتخابات کے دوران وزیراعظم مودی اور اس وقت کے بی جے پی صدر امیت شاہ کے خلاف متعدد شکایتوں پر تقریبا ایک ماہ تک الیکشن کمیشن نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا جہاں کمیشن کو فوری طورپر شکایتوں کے ازالہ کیلئے کہا گیا۔ کمیشن ایک آزاد دستوری ادارہ ہے۔ اس نے شکایتوں کا ازالہ اس طرح کیا کہ دونوں حضرات کو فوری طور پر کلین چٹ سے نوازا دیا.... البتہ اس معاملے کا ایک روشن گوشہ یہ بھی تھا کہ تین میں سے ایک کمشنر نے اس فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ : ’’ انہوں نے وہاٹس ایپ یونیورسٹی سے پڑھائی کی ہے‘‘
آزاد اور منصفانہ الیکشن ہمارے آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہیں۔ قریشی نے ۱۹۷۷ء میں سپریم کورٹ کے ایک تبصرے کا حوالہ دیا ہے’’ جہاں یہ (موجودہ قوانین) موجود نہیں ہیں اور کسی صورت حال سے نمٹنا ہے، وہاں چیف الیکشن کمشنر کا کام یہ نہیں ہے کہ ہاتھ جوڑ کر خُدا سےغیبی مدد کیلئے دعا کرے کہ وہ اُسے اپنے فرائض کو انجام دے سکنے کے قابل بنائے یا کسی بیرونی اتھاریٹی کی طرف دیکھے اوراُس سے طاقت کے حصول کی اُمید کرے۔ الیکشن کے انعقاد سے متعلق تمام امور میں، اُسے خود آزادی کے ساتھ اپنے اختیارات کا قانونی طورپر استعمال کرنا چاہئے اور یہ یقینی بنانا چاہئے کہ انتخابی عمل آزادانہ اور منصفانہ طریقے پر مکمل ہو۔ ‘‘
مصنف اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ الیکشن کمیشن کی آزادی اور غیر جانبداری بالکل عدالت عظمیٰ جیسی ہونی چاہئے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب کمشنروں کے تقرریوں کا طریقہ تبدیل کیا جائے۔ حکومتِ وقت کے ذریعہ تقرری سے فطری طور پر کمیشن پر اثر انداز ہونے کی راہ ہموار ہوتی ہے اور کمیشن کی آزادی مجروح ہوتی ہے۔ اس کیلئے قریشی ایک وسیع تر کالیجیئم کی سفارش کرتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے تو موجودہ کالیجیئم سے بھی چیف جسٹس کو درکنار کردیا ہے۔ اب صرف وزیراعظم، ایک اور وزیر اور قائدِ حزب اختلاف اس کالیجیئم کا حصہ ہیں۔ اور اس طرح کمیشن پر سرکار کا مکمل کنٹرول ہوگیا ہے۔ ایسے میں بڑے پیمانے پر شکوک و شبہات کا راستہ خود بخود ہموار ہوگیا ہے۔
قریشی نے اپنی میقاتِ عہدہ (۲۰۱۰ء تا ۲۰۱۲ء ) کا ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ ایک دفعہ اُس وقت کے وزیرِ قانون ویرپا موئلی نے ان کو فون کرکے چائے پر بلایا تاکہ انتخابی اصلاحات کے معاملے پر گفتگو کی جا سکے۔ قریشی صاحب کو اپنے عہدے کی پوزیشن کا احساس تھا۔ انھوں نے انکار کیا اور خود وزیر قانون کو کمیشن آنے کا مشورہ دیا۔ موئلی صاحب، کمیشن میں ان سے آکر ملے بھی۔
موئلی، انتخابی اصلاحات کے خاکے پر ۶؍ ماہ سے کام کر رہے تھے۔ اسی دوران قلمدانوں کے ہیر پھیر کی وجہ سے اُن کی وزارت سلمان خورشید کو ملی۔ بحیثیت چیف الیکشن کمشنر، قریشی نے براہ راست وزیرِاعظم منموہن سنگھ سے شکایت کی اور اصلاحات میں تاخیر کا اندیشہ ظاہر کیا۔ منموہن سنگھ نے کہا کہ وہ فکر نہ کریں۔ خورشید اس کام کو آگے بڑھائیں گے۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ’’ میں سلمان کو آپ کے پاس بھیجتا ہوں۔ ‘‘ قابلِ ذکر ہے کہ انھوں یہ نہیں کہا کہ ’’ ان ( وزیر قانون) سے جاکر مل لیجئے۔ ‘‘ یہ تھا ایک فرض شناس اور عہدے کے وقار کا پاس رکھنے والے الیکشن کمشنر کے عمل کا اثر۔
الیکشن اور پیسوں کا کھیل
قریشی الیکٹورل بونڈس پر شدید تنقید کرتے ہیں۔ بونڈس کے ذریعے سرمایہ داری یارانے Crony Capitalism کو فروغ ملا۔ شفافیت مجروح ہوئی اوراحتساب میں کمی واقع ہوئی۔ واضح رہے کہ حالیہ مہینوں میں عدالت عظمیٰ نے ان انتخابی بونڈس کو غیر آئینی قرار دے کر بند کروا دیا ہے۔ مصنف نے بہت عرصہ قبل اپنے خدشات ظاہر کردیئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کو حل کرنا ان جمہوری اصولوں کے تحفظ کیلئے بہت ضروری ہے جو ہندوستان کے سیاسی نظام کی بنیاد ہیں۔ بونڈس کا یہ نظام کارپوریشنوں کو ان کی وابستگیوں کو ظاہر کئے بغیر خطیر رقوم دینے کی اجازت دے رہا تھا جس سے سیاسی منظر نامے پرغیر ضروری اثر و رسوخ کی راہ ہموار ہو رہی تھی۔ قریشی کے مطابق، اس طرح کے نظام کے نتائج ایک ایسے منظر نامے کو جنم دے سکتے ہیں جہاں سرمایہ دار زیادہ قانونی طریقے سے ملک پر اہم کنٹرول حاصل کر سکتے ہیں۔
انتخابات میں کالے دھن کا استعمال، سِسٹم میں بہت ساری خرابیوں کا باعث بنتا ہے۔ پارٹیوں کو اپنے کام کیلئے یقینا ً پیسوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ قریشی کی رائے میں انتخابات میں کرپشن کو لگام لگانے کیلئے پارٹیوں کو باقاعدہ سرکاری مالی امداد فراہم کی جانی چاہئے اور دیگر ہر طرح کے چندوں پر سختی سے پابندی عائد کردی جانی چاہئے۔ مالی مدد پارٹیوں کے کام کیلئے ہو۔ گزشتہ انتخابات میں جس پارٹی کو جتنے ووٹ ملیں، اس کی مناسبت سے فی ووٹ سو روپے یا ایک ایسی کوئی مقررہ رقم دی جاسکتی ہے۔ اس رقم کے خرچ کا باقاعدہ آڈٹ ہو۔ ملک کے۵۵؍ کروڑ ووٹوں پر۵۵۰۰؍ کروڑ روپے سرکاری خزانے سے خرچ ضرور ہوں گے لیکن اس طرح ہارس ٹریڈنگ اور کرپشن پر لگام لگے گا۔ نمائندوں پر خرچ کی حد مقررہے۔ اسی طرح پارٹیوں کے خرچ کی بھی انتہائی حد مقرر کی جانی چاہئے۔ پارٹیوں کے کام میں اندرونی جمہوریت، شفافیت لائی جانی چاہئے اور ان کو آر ٹی آئی کے دائرے میں لایا جانا چاہئے۔
اس مُبصّر نے گرچہ اس کتاب میں درج، پارٹیوں کو سرکاری فنڈ کی تجویز کو غور سے پڑھا لیکن یہاں خود مصنف کا ذہن پوری طور پر واضح اور مطمئن ہے، ایسا نہیں محسوس ہوتا۔ کئی مُلکوں میں انتخابات کی اسٹیٹ فنڈنگ ہوتی ہے لیکن ہندوستان کا معاملہ کافی پیچیدہ ہے۔ بہرحال اس موضوع پرایمانداری کے ساتھ وسیع ترغور وخوض بہت ضروری ہے۔ کہیں تو شروعات کرنی ہوگی۔ سیاست، بطور خاص اقتدار پر فائز جماعتوں کی سیاست کے موجودہ فیشن کے مدّ نظر، ایسے کسی اصلاحی اقدام کا سردست اس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
کتاب میں دیگر کئی اہم امور پر بھی بحث کی گئی ہے۔ ہم نے اختصار کی خاطر صرف دوموضوعات کا خلاصہ اپنے تبصرے کے ساتھ نقل کیا ہے۔ ڈاکٹرقریشی کی تحریر قابل فہم ہے۔ مسائل پر اپنی رائے رکھتے ہیں اور صفائی سے بیان بھی کردیتے ہیں۔ سرکاری افسروں کی طرح اسلوب کافی متوازن ہے۔ چھ ماہ قبل شائع ہونےوالی اس کتاب کا مطالعہ سب کیلئے بہت مفید ثابت ہوگا۔