Inquilab Logo

ووٹرس کے مختلف گروپ تیار کئے جاتے ہیں اور پھر اُن میں منفی یا مثبت جذبات کو پروان چڑھایا جاتا ہے

Updated: April 21, 2024, 2:57 PM IST | Ghulam Arif | Mumbai

امریکی یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ شیوم شنکر سنگھ نے اپنی کتاب ’ہاؤ ٹو وِن ، این انڈین الیکشن‘ میں انتخابات جیتنے کے کئی حربوں کاانکشاف کیا ہے، کتاب لکھنے سے قبل انہوں نے پرشانت کشور اوربراہ راست بی جے پی کیلئے بھی کام کیا ہے، بعد میں بی جے پی سے علاحدگی اختیار کرلی۔

Book cover and (left) author Shivam Shankar Singh. Photo: INN
کتاب کا سرورق اور (بائیں جانب) مصنف شیوم شنکر سنگھ۔ تصویر : آئی این این

۲۰۱۴ء کے عام انتخابات کے بعد الیکشن لڑنے کے طور طریقوں میں ہونے والی تبدیلیاں لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی ہیں لیکن آج بھی بہت کم لوگ ان تبدیلیوں کو ٹھیک سے سمجھ پائےہیں۔ ’’ہندوستان میں الیکشن کیسے جیتیں ؟‘‘یہ کتاب ایک نوجوان سیاسی کارکن کی آپ بیتی ہےجو ملک کے انتخابی معرکوں میں استعمال کئے جانے والے جدید ہتھیاروں کا تعارف کرواتی ہے۔ اس کے علاوہ انتخابی حکمت عملی مرتب کرنے اور اس پر عمل درآمد کرنے کی نئی ترکیبوں پرروشنی ڈالتی ہے۔ کتاب کے سرورق پر مصنف نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ سیاسی جماعتیں نہیں چاہتیں کہ آپ ان سب باتوں کوجانیں اور سمجھیں۔ وہ باتیں کیا ہیں ؟ کسی انتخابی مہم میں سیاسی مشیر کیا کردار ادا کرتے ہیں ؟ سیاسی جماعتیں کس طرح تکنیکی اوزار جیسے ڈیٹا کا تجزیہ، تفصیلی سروے اور متبادل ذرائع ابلاغ کا موثراستعمال کرکے رائے دہندگان کو ہدف بنا کر مہم چلاتی ہیں ؟ پیسے کا استعمال انتخابی نتائج پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے؟ فرقہ وارانہ پروپیگنڈا اور جعلی خبروں کو بڑے پیمانے پر پھیلانے کا کام کس طرح کیا جاتا ہے ؟ ایسے حالات میں ملکی سیاست کا کیا مستقبل ہے؟
 یہ کتاب ایک نوجوان سیاسی مبصر، شیوم شنکر سنگھ کے عملی تجربات کی سچی کہانی ہے۔ شیوم، مشی گن یونیورسٹی سے معاشیات کی ڈگری حاصل کرکے ہندوستان لوٹے۔ پنجا ب کے ایک رکن پارلیمان کے ساتھ بطورمعاون کام کیا۔ پرشانت کشور کے ادارے میں شامل ہوئے اور ۲۰۱۴ میں نریندر مودی اور بعد میں نتیش کماراور کیپٹن امریندر سنگھ کی کامیاب الیکشن مہموں میں شامل ہوکر زمینی سطح کے کام کی باریکیوں کی خوب سمجھ حاصل کی۔ بعد میں رام مادھو نے ان کوباقاعدہ بی جے پی میں شامل کرکے شمال مشرق میں الیکشن مہم کی اہم ذمہ داریاں سونپیں۔ اس طرح شیوم کو الیکشن لڑنے سےمتعلق تمام امور کی بھرپور معلومات اور گہری بصیرت حاصل ہوئی۔ کچھ عرصے بعدضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے شیوم شنکر نے بی جے پی سے علاحدگی اختیار کرلی۔ 
ڈیٹا اورٹیکنالوجی
 ٹیکنالوجی نے سیاست اورانتخابات پربہت گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ ڈیٹا کا جادو ہر میدان میں سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ مصنف نے تفصیل سے بتایا ہے کہ ڈیٹا کس طرح حاصل کیا جاتا ہے۔ آپ کے اور ہمارے مکمل کوائف مختلف ٹکڑوں میں انٹرنیٹ پر الگ الگ مقامات پر موجود ہوتے ہیں۔ ٹیلیفون بل، بی پی ایل فہرست، نیشنل سیمپل سروے، مردم شماری کے اعداد و شمار اور ایسے دیگر کئی ذرائع ہیں جہاں سے معلومات حاصل کی جاتی ہے۔ پیشہ ورمہارت کے ساتھ ڈیٹا جمع کرکے فروخت کرنے کا کام کرنے والی کمپنیاں موجود ہیں۔ مقصد ایک تفصیلی ڈیٹا بیس تیار کرنا ہوتا ہے تاکہ ووٹروں کی درجہ بندی کی جا سکے۔ جنس، مذہب، ذات اور پیشوں کے لحاظ سے متعدد گروپ تیار کئے جاتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کی مدد لی جاتی ہے۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ رجحان کیا ہے۔ پھر ان ووٹروں کو ہدف بنا کر ان کے ذہنوں پر اثر انداز ہونا ایک اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ اس طرح لوگوں میں کسی شخص، گروہ یا پارٹی کیلئے منفی یا مثبت جذبات کو پروان چڑھانا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: کیا کانگریس پارٹی کا انتخابی منشور مسلم لیگ کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے؟

مائیکرو ٹارگیٹنگ 
 افراد کی تفصیلی اورگہری معلومات کی بنیاد پربالکل متعین، تنگ اور باریک اہداف پر مسلسل پیغامات کی ترسیل کے ذریعہ کسی بھی شخص کے ذہن کو ایک خاص طرز پر سوچنے کیلئے تیار کیا جاتا ہے۔ آئی ٹی کمپنیوں کا اصل پروڈکٹ ان کی سروس یا خدمات نہیں ہوتابلکہ خود صارف ہی ان کا پروڈکٹ ہوتا ہے۔ ۲۰۱۴ میں کانگریس پراصل یورش سوشل میڈیا کے ذریعہ کی گئی تھی جبکہ کانگریس اس کے استعمال سے غافل تھی۔ لوگوں کے ذہنوں پر ٹوجی اور دیگر مبینہ گھوٹالوں کی کچھ ایسی تصویر نقش کی گئی کہ بڑی تعداد میں عوام اس سے بدظن ہوگئے۔ اس طرح کی دیگر بہت ساری مثالوں کے ذریعہ شیوم شنکر نے سمجھایا ہے کہ کس طرح فیس بک اور وہاٹس ایپ گروپس کا استعمال ایک غیرمعمولی سطح پر کیا جاتا ہے۔ 
 یہ بات تو سب جانتے جعلی خبریں کتنی عام ہیں، لیکن ان کو الیکشن جیتنے کے اہم اوزار کے طور پر جس بے شرمی سے استعمال کیا جا تا ہے اس پر مصنف گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ لوگوں میں وہاٹس ایپ پیغامات کو بلا تحقیق آگے بڑھانے کی عادت، ایک جِبلّت کا روپ اختیار کر گئی ہے۔ شیوم ایسے وہاٹس ایپ گروپوں کے متعلق بتاتے ہیں جو مسلم مخالف نفرت کو ہر وقت پھیلا رہے ہوتے ہیں تاکہ الیکشن پر اثرانداز ہو سکیں۔ جعلی خبروں میں حقیقی خبروں کی آمیزش سے نیا مواد تیار کرکے بھی صارفین تک پہنچایا جاتا ہے۔ 
 مصنف لکھتا ہے کہ ٹی وی کے مباحثوں میں شرکت کرنے والے افراد اکثر روبرو گفتگو میں اتنے شدت پسند نظر نہیں آتے۔ بی جے پی کی طرفداری کرنے والے پینالسٹ، اکثرذاتی گفتگو میں پارٹی کی غلطی تسلیم بھی کر لیتے ہیں لیکن کیمرہ آن ہوتے ہی اچانک جارحیت کا مظاہرہ کرنے لگ جاتے ہیں۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے ٹی وی پر خبروں کے ذریعہ جو کچھ آج دکھایا جا رہا ہے وہ دراصل اکثر پروپیگنڈہ ہوتا ہے۔ سیاست صرف اس وقت نہیں کی جاتی جب کہ لوگ مخصوص خیالات کا اظہار یا کسی کی طرفداری کرتے ہیں بلکہ سیاست اس وقت بھی کھیلی جاتی ہے جب بحث کیلئے کسی موضوع کا انتخاب کیا جاتا ہے یا کسی اہم موضوع کو صفائی سے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ 
سیاسی مشیروں کا رول 
 ۲۰۱۴ء سے پیشہ ورسیاسی مشیر الیکشن کے عمل میں ایک اہم عنصر بن کر ابھرے ہیں۔ پرشانت کشور نے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کمپیوٹر کے ماہر نوجوانوں کے ساتھ انڈین پولیٹیکل ایکشن کمیٹی تشکیل دی۔ یہ تازہ دم لڑکے لڑکیاں کچھ نیا کرنے کے جنون میں مبتلا تھے۔ وہ ہندوستان کے نوجوان ووٹروں کے ذہن کو بخوبی سمجھتے تھے۔ سیاسی پارٹی اورسیاسی لیڈروں کو ملنے والی اس بیرونی مدد نے مثبت اثر دکھانا شروع کیا۔ ان کا رول صرف مشورہ دینا نہ تھا بلکہ پارٹیوں اورامیدواروں کی برانڈنگ بھی کرنی تھی۔ مہنگی رابطہ عامہ و اشتہاری کمپنیاں تو پہلے ہی سے الیکشن کے میدان میں تھیں۔ نوجوان مشیروں کی اس ٹیم نے زمینی سطح پرعوام میں گھل مل ان کا موڈ پڑھنے کا کام کیا۔ آئی ٹی کی صلاحیتوں سے لیس یہ ٹیم، ڈیٹا کی کان کنی کر کےغضب کا تجزیہ تیار کرتی رہیں۔ سیاسی مہم میں چھوٹے چھوٹے جملوں نے بڑا رول ادا کیا ’’ اچھے دن آنے والے ہیں ‘....’’اب کی بار مودی سرکار‘‘.... ’’آئے گا تو مودی ہی‘‘ جیسے فقروں نے عوام کی نفسیات کو بہت متاثر کیا تھا۔ بعد میں پارٹیوں نے خود اپنے اندر اس طرح کے شعبے قائم کرلئے۔ 
سِسٹم کی سمجھ 
 اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے شیوم نے پارلیمنٹ میں اٹھائے جانے والے سوالات کے انتخاب کا طریقہ بیان کیا ہے جو قارئین کی معلومات میں یقیناً اضافے کا سبب ہوگا۔ بڑی تعداد میں سوالات لکھ کر پیش کئے جاتے ہیں اور ہر ممبر کے سوال کا انتخاب مشکل ہوتا ہے لیکن اس کیلئے الیکٹرانک قرعہ اندازی کا جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے وہ بہت ناقص ہے۔ 
الیکشن لڑنے میں دولت کے رول پر بھی شیوم نے دلچسپ تفصیلات فراہم کی ہیں۔ سیاست دانوں کو پیسے کی اور سرمایہ داروں کو سیاسی سرپرستی کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔ یہ سب کام نہایت صفائی کے ساتھ جاری رہتا ہے۔ 
 شیوم کو بہت کم عمر اور کم وقت میں بڑا قیمتی تجربہ حاصل ہوا۔ بی جے پی سے علاحدگی کے وقت انھوں نے اپنے استعفے میں پارٹی کے کاموں کو اچھے، برے اور گھناؤنے ان تین عنوانات کے تحت بے خوفی کے ساتھ قلمبند کیا اوراس کتاب میں بھی درج کیا۔ بجلی کے کنکشن، سڑکوں کی تعمیر اور اُجولا گیس یوجنا جیسے کاموں کو اچھے کاموں کے زمرے میں جگہ دی۔ اعمالِ بد کی فہرست کافی لمبی ہے جیسے الیکٹورل بونڈ، ای ڈی جیسے اداروں کا استعمال اور نوٹ بندی وغیرہ۔ میڈیا کو خریدا جانا، مخالفین کو وطن دشمن قرار دینا، مذہبی منافرت، ہندوؤں میں ان کے خطرے میں ہونے کا بے بنیاد احساس پیدا کرنا جیسے معاملات شیوم کے مطابق بدصورت اور گھناؤنے کام ہیں۔ 
 الیکشن، سیاست اور چاروں طرف پھیلے دروغ ومکاری کی تکنیک کو جان کر قاری اداس ضرور ہوتا ہے لیکن آخری باب میں مصنف کچھ امید بندھاتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ایک خاص ماحول، سیاست کے مزاج اور رنگ ڈھنگ کا حصہ بن جاتا ہے تو اس کو تبدیل کرنا بے حدمشکل ہوتا ہے۔ آئندہ الیکشن میں بالفرض اقتدار تبدیل بھی ہو جائے تو کیا یہ ماحول تبدیل ہو پائے گا؟ ہمارا خیال ہے کہ کتاب میں اس موضوع سے متعلق کئی اور پہلوؤں کو شیوم شنکر زیر بحث نہیں لا پائے۔ پھر بھی ان کی یہ بےخوف وبیباک کوشش قابل قدر ہے۔ یہ کتاب ۲۰۱۹ء میں شائع ہوئی۔ زبان آسان ہےاوراسلوب قاری کی دلچسپی کو برقرار رکھنے والا ہے۔ صوتی صحیفہ اور ای کتاب کی شکل میں بھی دستیاب ہے۔ سیاسی کارکنوں، سیاسیات کے طلبہ کے علاوہ عام قارئین کو بھی یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK