۱۹۶۰ کے بعد آنے والے جدید افسانہ کے علم برداروں نےاپنے پیش رو افسانہ نگاروں کی حقیقت پسندی کے روایتی، سطحی، یک پرتی اور اُتھلے مظاہرے کے خلاف جو شدید ردّعمل کا اظہار کیا تھا وہ ایک طرف پلاٹ، کردار، وحدت تاثر اور عصریت سے پلّہ جھاڑنے پر اُنہیں مجبور کررہا تھا تو دوسری طرف نئے اسلوب کی سیاحت، متعین لسانی قواعد سے پیچھا چھڑانے کے لیے اُن کو اُکسا رہی تھی۔
سریندر پرکاش۔۔ تصویر : آئی این این
۱۹۶۰ کے بعد آنے والے جدید افسانہ کے علم برداروں نےاپنے پیش رو افسانہ نگاروں کی حقیقت پسندی کے روایتی، سطحی، یک پرتی اور اُتھلے مظاہرے کے خلاف جو شدید ردّعمل کا اظہار کیا تھا وہ ایک طرف پلاٹ، کردار، وحدت تاثر اور عصریت سے پلّہ جھاڑنے پر اُنہیں مجبور کررہا تھا تو دوسری طرف نئے اسلوب کی سیاحت، متعین لسانی قواعد سے پیچھا چھڑانے کے لیے اُن کو اُکسا رہی تھی۔ جدید افسانہ نگاروں کی اس بھیڑ میں سریندر پرکاش کو یہ امتیازی حیثیت حاصل ہے کہ اُن کا افسانہ فکشن کی قدیم روایت کی اہمیت اور معنویت کو ردّ کرتا ہے نہ ہی زندگی اور زمانے کے حوالوں اور سوالوں کو مُسترد لیکن ترقی پسند برانڈ حقیقت نگاری کے تصور کو توڑنے اور اردو افسانے کی زمین اور آسمان کو بدلنے میں بنیاد گزار کی اپنی بھومیکا پوری طرح برقرار رکھتا ہے۔ تجربات کی مختلف دنیا، مشاہدات کا ایک منفرد جہاں، کرداروں کی انوکھی بستیا، اساطیرکے دُھندلے راستوں اور زبان و بیان کے نت نئے ذائقوں کو اپنے افسانوں میں اپناتے اور آزماتے ہوئے بھی سریندر پرکاش قصہ گوئی کی روایتوں کوفراموش نہیں کرتے، جی ہاں ! کبھی نہیں کرتے۔ بیدی کی یہ بات غالباً اُنہوں نےگرہ میں باندھ لی تھی کہ: ’’ کوئی کتنا ہی ’کہانی‘ سے بچنے کی کوشش کرے، وہ اُس کے بندھے ہوئے اُصولوں سے بہت دور نہیں جا سکتا۔ ‘‘ کہانی سے بندھے اور کہانی میں بیندھے رہنے کے باعث ہی اُن کاافسانہ اپنی آخری شکل میں، افسانہ ہی رہتا ہے، مجذوب کی بڑ، معمہ، مصوری یا موسیقی کی کوئی قسم نہیں بنتا۔ قصّے کی جس بالادستی کو جدیدیت ختم کرنے کے درپے رہی، وہی قصّہ گوئی سریندرپرکاش کے فکشن میں Survival Kitکی طرح موجود تھی۔ ایک ایسے دور میں جب وجودیت اور اجنبیت کے پیچیدہ ایجنڈے کے باعث افسانے کی قرأت کا طلسم ٹوٹ رہا تھا اور فکشن کاقاری کہانی کے بنیادی اوصاف سے دور ہوتاجا رہا تھا اُس وقت بھی سریندر پرکاش کے افسانے اپنی دلکشی، تازگی، کہانی پن اور Readablity کی طاقت سے اس صنف کو زمین فراہم کرنے میں مصروف تھے ۔
اس گفتگو کے بعد غالباً یہ بتانےکی ضرورت نہیں کہ بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں اردو افسانے کے اُفق پر وجودیت پسندی، سرریلیزم یا ایکسپریشن ازم کی جو چونکا دینے والی پرچھائیاں اُبھری تھیں اُن میں سے کچھ نے تو اردو افسانے کو بے شک نئی شکلیں اور صورتیں عطا کیں لیکن بیشتر شہاب ثاقب کی طرح چمک کر بجھ گئیں۔ یہ وہ وقت تھا جب ذات پرستی، بے چہرگی اور لایعنیت جیسے موضوعات کی بھو ل بھلیوں میں بھٹکنے والے علامتی، تمثیلی، تجریدی اور تجرباتی افسانے فن کی معراج ٹھہرائےجا رہے تھے۔ شعوری اورغیر شعوری طریقے سے ادب میں پنپنے والے اس رحجان کو سریندر پرکاش نے بھی پوری شدت اور انہماک سے قبول کیا اور زماں و مکاں کے میکانکی تصور کی نفی کرنے والے ابہام انگیز افسانے لکھے، لیکن چونکہ وہ جانتے تھے کہ افسانہ محض لسانی تجربے کانام نہیں لہٰذاحقیقت نگاری سے حتمی انحراف کے باوجود اپنے افسانے کو اُنہوں نے اسلوبیاتی پھوٹ پھاٹ کا شکار ہونےنہیں دیا۔ سریندر پرکاش کی قصہ گوئی کا یہی کرشمہ ہے کہ ٹھوس اور ٹھس حقیقتیں بھی پگھل کر سیال اورپُر فریب ہو جاتی ہیں ۔ افسانوی بیانیہ میں اجنبی دُنیا کے بعید از فہم واقعات، اقدار کی شکست و ریخت، معلوم نامعلوم احساسات، مانوس اور نامانوس کیفیات، دھند میں لپٹے ہوئے خیالات، پُراسراراساطیری فضا اور ناقابلِ فہم صورت ِحالات کے درمیان اُن کی قصہ گوئی نہ صرف زمین سے لگ کر چلتی ہے بلکہ کہانی کی صورت اپنے پیروں کے نشانات بھی چھوڑتی جاتی ہے۔ کہانی کے یہ نقشِ پا افسانوی کینواس پرکہیں چمکدار شیشے کے ٹکڑوں کی مانند جگمگاتے ہیں تو کہیں متن کی داخلی ساخت میں دل جیسا دھڑکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: برف کا مجسمہ
قصہ گوئی سریندر پرکاش کا ایک ایساوصف ہےجس کے قتیل سبھی رہے۔ پیدائشی طور پر وہ قصہ گو ہیں کہ قصوں نے اُن کو اور اُنہوں نے قصوں کو اپنے اعتبار اور اظہار کیلئے برسوں پہلے ہی منتخب کر لیا تھا۔ قصے اُن کےذہن و دل میں بسے رہتے ہیں اور وہ خود سر تا پا قصوں میں یوں شرابور رہتے ہیں کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا تھا کہ ویتال کی طرح قصوں کے کندھوں پر وہ سوار ہیں یا نت نئے قصّے اُن پر سواری گانٹھتے ہیں۔ اُن کی خوبی یہ نہیں کہ اپنے یا کسی اور کے قصے کو اس طرح بیان کرتےہیں کہ سننے والا اُس سے بندھتاچلا جائے بلکہ اصل کمال یہ ہے کہ اُنہیں ہر بات، ہرواقعہ، ہر منظر، ہر کردار اور ہر صورتحال کو قصے کے فارم میں دیکھنے، پرکھنے اور برتنےکا قرینہ آتا ہے۔ قصے سریندر پرکاش کے فکشن کی ریڑھ کی ہڈی کےمنکے ہیں اورقصہ ہی اُن کے افسانوی بیانیہ کی نسوں میں بہنے والا لہو ہے۔ ’تلقارمس ‘ یوں تو محض اُن کےایک اہم کرداری افسانے کا عنوان بھر ہے، لیکن اُن کے افسانوں میں بیان ہونے والے ہر قصے، وقوعے، منظر نامے اور حکایت کا راوی تلقارمس ہے۔ پہلے مجموعے کے پہلے افسانے سے لے کر آخری مجموعہ کے آخری افسانے تک ہر جگہ کبھی نامدار تو کبھی بے نام کردار / راوی بن کر ہر صفحہ سے جھانکنے والا دورِ جدید کا یہ قصہ گو ’تلقارمس‘ اصل میں ، سریندر پرکا ش کا ہمزادہے۔ انسانی تاریخ اور انسانی تقدیر کے اُس دوراہے پر جسے Point of no return کہتے ہیں ، تلقارمس تنہا اور نہتا کھڑا بے ضمیر قوتوں کےخلاف اپنی جنگ لڑ رہا ہے۔ تلقارمس عصر ہے اور تلقارمس ہی روح عصر ہے۔ اس کا بنیادی وصف عصری بصیرت، ساختیاتی شعوراورجمالیاتی فضا ہے جس کا ماخذ وہ بوڑھا داستان گو ہے جسے سریندرپرکاش نے بچپن میں لائل پور کے گھنٹہ گھرکے پاس اکتارہ لے کر نثری داستانوں کو گاتے سنا تھا۔ آصف فرخی کو دیئے گئے انٹرویو میں اپنےبچپن کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے، وہ کہتے ہیں :
’’دیکھا جائے تو وہ میرا گرو ہے، جس سے میں نے کہانی کہنا سیکھا ہے۔ آج بھی اگر آپ محسوس کریں، میری تحریر کو پڑھیں تو آپ کو لگے گا اُس میں ایک تال ہے، ایک آہنگ ہے، اکتارے کی آواز، پائوں کی تھاپ ہے، ایک لہراتا ہوا شملہ پگڑی کا، جو وہ باندھتا تھا اور اُس کی لنگی اور ناچنے میں اُس کی لنگی کا گھمائو، اُس کے ہاتھ، اُس کے ہونٹ اور اُس کی آنکھیں، وہ ساری چیزیں کہیں نہ کہیں میری کہانیوں میں آپ کو نظر آئیں گی۔ ‘‘
نوعمر سریندرپرکاش کویہ داستان گو یوں عجیب لگا تھا کہ گھنٹہ دو گھنٹہ پورے مجمع کو اپنے قصّے کہانیوں سے باندھ کر بٹھا دیتا تھا۔ شاید یہی وہ لمحات تھے جب اُس داستان گو کی قصہ گوئی کا انداز، اُس کااکتارہ، اُس کی تال اور آہنگ اور اُس کےلہجے کے ڈرامائی اُتار چڑھائو سریندر پرکاش کے باطنی اور فنی وجود کا حصّہ بن رہے تھے اور پھربرسوں بعد جب اُنہوں نے افسانہ نگاری کا ڈول ڈالا تو ہم سب نے دیکھا کہ وہ بوڑھا داستان گو ہاتھ میں اکتارہ لئے اُن کے افسانوں میں بھی چپکے سے چلا آیا ہے۔ جن خطوط پر زندگی نے سریندرپرکاش سے اپنا رشتہ استوار کیا تھا، اُس نےبنے بنائے راستوں پر چلنے کی اجازت اور موقع اُنہیں کبھی نہیں دیا۔ سریندرپرکاش اور زندگی، اصل میں دونوں ہی ایک دوسرے کو سمجھنے اور برتنے کی خاطر نئے نئے اسلوب کے واسطے خود کوبدلتے رہے۔ اعتدال، ضبط اور توازن سریندر پرکاش کی زندگی اور فن دونوں میں نہ تھا، لیکن زندگی سے معمور اکتارہ کا آہنگ اُن کے افسانوی بیانیہ کے جوہرکے پھلنے پھولنے اور پھیلنے کے امکانات کو معدوم ہونے دیتا نہ قرأت کے مزے کو بگڑنے دیتا۔ قصّہ گوئی ایک خاص معنی میں اُن کے ہاں وجدانی تجربہ میں ڈھلتی چلی جاتی ہے اور افسانہ نگار کے منشا اور ارادے یا Intentions کو منہدم کرتے ہوئے اپنا راستہ خود وضع کرتی ہے۔
ہندوستانی کتھا واچن کی روایت سے سریندر پرکاش چونکہ بخوبی واقف تھے لہٰذا قصّوں سے ترتیب پانے والے اُن کے افسانوی بیانیہ میں وقت جو گزر چکا ہے، گزر رہا ہے یا گزرنے والاہے، ایک جیتے جاگتے آج کی طرح سانسیں لیتا ہوا نظر آتا ہے۔ تمام زمانی اور مکانی جہتیں پگھل کر ایک دوسرے میں جذب ہو جاتی ہیں اور ایک اجتماعی کُل کی شکل اس طرح اختیار کر لیتی ہیں کہ اُن کے درمیان کے جوڑ دکھائی نہیں دیتے۔ تخلیقی و تخیلی اظہار میں سُر، تال، لے اور دھڑکنوں کے طے شدہ زیروبم کو ملحوظ رکھنے کے باوجود افسانہ کی زبان کو سریندر پرکاش سماجی ڈسکورس کے طور پر ہی اخذ کرتے ہیں۔ بظاہر اُن کے افسانوں کا منظر نامہ باطنی و ذہنی وقوعات سے ہی کیوں نہ مرتب ہو رہا ہو لیکن اُس کی تہہ میں عصری تقاضوں اور عصری حقایق کی معنویت کی موہوم لکیر رینگتی ہوئی محسوس کی جا سکتی ہے۔ متعدد افسانوں میں علامتوں کی تشکیل اور کرداروں کی تعمیر بار بار اُنہیں اپنے عصر سے رجوع ہونے پر مجبور کرتی ہے۔ ’’جپی ژاں ‘‘ کا یہ حصّہ ملاحظہ کریں : ’’دن ڈھلتے ہی تمام عورتیں گھروں کو لوٹ جاتی ہیں۔ وقت اپنے پائوں میں مو زے پہننے لگتا ہے۔ برساتیں ختم ہوتی ہیں تو گلابی جاڑا شروع ہوجاتا ہے۔ گملے میں اُگا ہوا گیہوں کا پودا لہلہانے لگتا ہے اور اُس کا خوشہ حاملہ بالی کے بوجھ سے جھُک جاتا ہے۔ دھوپ اُونگھتی ہوئی ہمارے شہر کی دیواروں پر پہرہ دینے لگتی ہے...اور ہم...جپی ژاں کے انتظار میں اپنے آنگنوں میں آرام کرسی ڈال کر نیم دراز ہو جاتے ہیں۔ ‘‘ اساطیری، تاریخی اور تہذیبی ہی نہیں ہارڈ کور سیاسی تناظرات بھی سریندرپرکاش کی قصّہ گوئی میں اہم کردار نبھاتے ہیں۔
اساطیری، تاریخی اور تہذیبی ہی نہیں ہارڈ کور سیاسی تناظرات بھی سریندر پرکاش کی قصہ گوئی میں اہم کردار نبھاتے ہیں اوراَن دیکھی حقیقتیں بھی قاری سے ہم کلام ہوتی ہیں لیکن افسانے کی کامیابی قصّے میں نہیں قصّہ گوئی کے تخلیقی و فنی رمز میں پوشیدہ ہے۔ عصری تناظرات کو چلچلاتی دھوپ میں دیکھنے کے بجائے وہ رمزیت اور ایمائیت کے دھندلکوں میں دیکھنا اور دکھانا پسند کرتے ہیں ۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ قصہ گوئی اُسے زیب دیتی ہے جو خواب دیکھنے کا حوصلہ اور ایک پَر کے سو کوے بنانے کا سلیقہ رکھتا ہو۔ قصہ گوئی کا یہ انداز سریندرپرکاش کی ادبی کارکردگی میں ہی نہیں اُن کی گفتگو، برتائو اور جینےکےدھج، ڈھب اور ڈھنگ میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ پامال اور فرسودہ موضوع و مسائل کو وہ اپنے زرخیز تخیل سےاس طرح گرفت میں لیتے اور ترتیب دیتے ہیں کہ افسانہ نئی جستجو کا سرچشمہ بن جاتا ہے۔ افسانوں کے خارجی اورباطنی کینواس کے پھیلائو میں وہ قصہ گوئی کاپیٹرن ضرور بدلتے رہتے ہیں، تاہم قصہ گو ئی کے کرشموں سے کبھی وہ غافل نہیں ہوتے۔ واقعات کے بہائو کو روکنے یا اُن کی رفتار دھیمی یا تیز کرنے کے عمل میں سریندرپرکاش کی خودکار اورخود رو قصہ گوئی تمام تر خودسری کے باوجوداپناسارا زور تجرید سے زیادہ تجسیم پر دیتی ہے اور اس طرح دیتی ہےکہ کہانی افسانے کے سینےمیں دل کی طرح دھڑکنے لگتی ہے۔ یہاں یہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ اساطیر اور تاریخی واقعات سے نمودار ہونے والے قصے بھی اُن کے یہاں اساطیر کے تابع اور تاریخی سچائیوں میں محصور ہو کر نہیں رہ جاتے۔ افسانوں میں وہ محض واقعہ کا بیان نہیں کرتے بلکہ بیانیہ میں واقعہ کی تشکیل اس انداز سے استوار ہوتی ہے کہ اسلوبِ اظہار واقعہ میں ڈھل جاتا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں :
ایک بہت بڑی مسہری کے پاس راجہ اور رانی کی لاش پڑی تھی۔ قریب ہی ایک شطرنج بچھی تھی اور بساط پر ایک پیادے نے بادشاہ کو مات دے رکھی تھی۔ راجہ کے جسم میں رانی کا اور رانی کے جسم میں راجہ کا خنجر پیوست تھا۔ (جپی ژاں )
قاسم بن ہُدانے میان سے تلوار کھینچ لی اور اونچی آواز میں کہا: ’’جس ملک کا شاہی دربار سازشوں کا مسکن ہو، جہاں ایک مغنّی بادشاہ بن جائے اور شراب وحسن کے چوبچے میں غرق ہو جائے، جہاں مٹی کے مجسمے حکومت کے مشیر ہوں، اُس ملک سے انصاف و صداقت کمبل اوڑھ کر راتوں رات چپکے سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ ‘‘(بازگوئی)
قانون صرف انسان کے لئے ہے، جو مہذب ہے، پڑھا لکھا ہے، اپنا اور سماج کا اچھا بُرا سمجھتا ہے، اُس چوکڑیاں بھرتے ہرن کے لئے نہیں جو ایک ملک سے دوسرے ملک میں بغیر ضروری کاغذات کے داخل ہو جاتا ہے۔ (ساحل پر لیٹی ہوئی عورت)
جب میں نے مذہب کی آغوش میں پناہ لی تو میری گردن میں آزادی کا طوق ڈال دیا گیا اور جب جمہوریت کا تاج میرے سر پررکھا گیا تو زمین سے سانپوں کی طرح رینگ کر کئی زنجیریں میرے جسم سے لپٹ گئیں۔ (آئو ہمارے گرجا گھر کی گھنٹیوں کی آواز سُنو)
الگ الگ افسانوں سے منتخب کی گئی عبارتوں سے ہمیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ سریندرپرکاش اسطور اور حقائق کی آمیزش سے اپنے بیانیہ کو کس طرح گھنا، تہہ دار اور ثروت مند بناتے ہیں ۔ میرے خیال میں ان میں بعض فقرے ایسے ہیں جن پر علاحدہ افسانے لکھے جا سکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ حساس اور تربیت یافتہ قاری کوسریندرپرکاش کے ایک افسانے میں کئی افسانےدستیاب ہو جاتے ہیں۔ ادب اور زندگی کے سفر کے مختلف پڑائو میں خود کو ردّ اور بحال کرتے ہوئے سریندر پرکاش نے اگر خود سے سچ بولنا اورسچا ہونا سیکھا تو اُن کےافسانوں نے بھی عصر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مکالمہ قائم کرنے کا خود کوخوگر بنایا ہے۔ افسانہ پلاٹ کی بنیاد پر قائم ہوا ہو یا شعور کی رو کی بنیادپر (تلقارمس)، آزاد تلازمہ خیال پر لکھا گیا ہو (رونے کی آواز) یا اساطیری واقعہ پر(بن باس۔ ۸۱)، کردار کی نفسیات پر ہو (پوسٹر) یا موجودہ صورتحال کی مضحکہ خیزی پر(سرکس)، زماں کے اسٹرکچر کو توڑنے پر مبنی ہو یا مکاں کے (جیل خانی، حاضرحال جاری)، اُن کا بیانیہ گنجا، بے برگ اور بے ستر نہیں ہوتااور سرسبز، شاداب بیانیہ کے نیچے تخلیقی صداقت زیرِ زمین آبی راستے کی طرح سے بہتی رہتی ہے۔ اُن کےہاں اگر جمغورہ الفریم، دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم، سُرنگ، جپی ژاں، تلقارمس او ر سم بڈی، نو بڈی، ڈیڈ باڈی جیسے علامتوں اور استعاروں کے دبیز پردوں کے طلسم میں بندھی تحریریں ہیں توپوسٹر، باز گوئی، بجوکا، بدوشک کی موت، پیاسا سمندر، سرکس، ڈر، بالکونی اور آرٹ گیلری جیسے افسانے بھی ہیں جو شفاف بیانیے کا دلکش نمونہ ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ دونوں قسم کے افسانوں میں زندگی کی پیچ در پیچ حقیقتیں اور انسانی وجود کی تہہ در تہہ سچائیاں منطق کی تابع نہیں رہتیں۔ یہ بات بھی دھیان میں رکھنےکی ہے کہ اپنے آخری مجموعہ ’’حاضر حال جاری‘‘ میں اظہار کے نت نئے راستے اور پیرائے تلاش کرتے ہوئے سریندر پرکاش اُن ہی سوالوں سے جوجھتے نظر آتے ہیں، جس کی جھلک ’’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘‘ کے افسانوں میں ملتی ہے۔ زندگی کی طرح اُن کے افسانوں کا حسیاتی عمل پیچیدہ، تہہ دار اور اسرار سے بھراہوا ہے۔ شاید اسی لئے کہتے ہیں کہ سریندر پرکاش کوپڑھنا نقشے کے بغیر کسی اَن دیکھے اور انجانے جزیرے میں اُترنے جیسا ہے۔
شمس الرحمٰن فارو قی کے مطابق سریندرپرکاش نے اپنےابتدائی افسانوں میں دنیا کی زبوں حالی پر برہمی اور احتجاجی لَے کو بے معنویت کا جو نقاب چڑھا دیا تھا اسی نےاُن کے بعض افسانوں کوشرح کا محتاج بنا دیا ہے مگر بعد کے افسانوں میں اس نقاب پر انہوں نے جگہ جگہ ننھے منے سوراخ بنا دیئے تھے۔ فاروقی صاحب کی بات کواگر جوں کا توں تسلیم کر لیا جائے تو کہہ سکتے ہیں کہ اُن کے افسانوں کی معنوی کلید احتجاج کی لَے پر چڑھے بے معنویت کے نقاب میں ہی نہیں نقاب پر بنے سور اخوں کی ڈئزائین میں بھی مضمر ہے۔ یہ سوراخ ننھے منےہی سہی مگر افسانوی عمل کی بکھری ہوئی کڑیوں کو گم ہونے نہیں دیتے اور وہ ڈور فراہم کرتے ہیں جسے پکڑ کر قاری افسانے کی اصل تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ افسانہ ’’رہائی کے بعد‘‘ کا واحد متکلم راوی ایک جگہ کہتاہے:
’’میں ہمیشہ اُن سوراخوں پر ہونے والی آہٹوں کا منتظر رہا ہوں کیونکہ میرا خیال ہے کہ یہی آہٹیں میرے اندر زندگی کے احساس کو زندہ کئے ہوئے ہیں۔ باہر کی دُنیا سے تعلق انہی سوراخوں کی وجہ سے ہے۔ لوگ ان سوراخوں تک آتے ہیں، میں اُنہیں محسوس کرتا ہوں۔ اُن کے ہاتھ میرے ہاتھ چھو جاتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے ڈاک خانہ کی کھڑکیوں پر۔ میں اُن کے چہرے نہیں دیکھ سکتا۔ وہ میرا چہرہ نہیں دیکھ پاتے۔ پھر بھی ہم ایک دوسرے سے تعلق بنائے ہوئے ہیں۔ ‘‘
افسانہ نگار اور قاری کا یہ اجنبی لیکن پُر معنی لمس ہی افسانےکو ایک ایسی لطیف دھند میں لپیٹ دیتا ہے کہ تجسس اور اسرار کے دروازے وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ تخلیقی جوہر سے مالامال یہ ننھے منے سوراخ افسانہ کی قرأت کو اندھی سُرنگ کا سفر نہیں بننے دیتےجبکہ بعد میں ان سوراخوں سے چھن کر آنے والی روشنی اور آہٹیں افسانہ نگار کے وژن اور رویےکو صاف، شفاف اور واشگاف لہجے میں آشکار کر دیتی ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:ادب شخصیتوں کا ترجمان ہے اور شخصیتیں زندگی کی نمائندگی کرتی ہیں
ملک کابٹوارہ اور بٹوارے کے ہولناک اور مضحکہ خیز نتائج نے سریندر پرکاش کے دل میں سیاست اور سیاست دانوں کے خلاف غصّہ،نفرت اور ایک اُداسی بھر دی تھی۔ اُن کے افسانوں کو نگاہ جما کر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس غصّے،نفرت اور اُداسی نے اُنہیں اکیلا کردیا تھااور اسی اکیلے پن سے بچنے کے لیے وہ مسلسل افسانے لکھ رہے تھے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اکیلا ہونے کے لیے وہ لکھتے رہے۔ شاید اسی لیے تو ہر افسانہ مجھے پہلے سے زیادہ اُداس کر دیتا ہے اور اکیلا بھی...اُن کے افسانوں (گاڑی بھر رسد، بن باس۔ ۸۱ء،بازگوئی اور بجوکا) میں معاشرتی ناہمواریاں،سیاسی بے اعتدالیاں اور اخلاقی زوال کے خلاف افسانہ نگار کی احتجاجی لے علامت اور استعارے میں ڈھل گئی ہے۔ پریم چند کے ’’گئودان‘‘ کا ہوری سریندر پرکاش سے ’’بجوکا‘‘ میں اُس وقت ٹکراتا ہے جب وہ اتنا بوڑھا ہو چکا ہوتا ہے کہ اُس کی پلکوں اور بھوئوں تک کے بال سفید ہو چکے ہوتے ہیں اور کمر میں خم پڑ جاتا ہے۔ افسانے کا راوی بتاتا ہے:
’’اس اثنا میں اُس کے ہاں دو بیٹے ہوئے تھے،جو اَب نہیں رہے۔ ایک گنگا میں نہا رہاتھا کہ ڈوب گیا اور دوسرا پولیس مقابلہ میں مارا گیا۔ پولیس کے ساتھ اُس کا مقابلہ کیوں ہوا،اس میں کچھ ایسی بتانے کی بات نہیں۔ جب بھی کوئی آدمی اپنے وجود سے واقف ہوتا ہے اور اپنے اردگرد پھیلی بے چینی محسوس کرنے لگتا ہے تو اُس کا پولیس سے مقابلہ ہوجانا قدرتی بات ہے۔ ‘‘
استعارے کی چادرمیں جگہ جگہ بنے یا بنائے گئے سوراخ سےہم سماجی استحصال اور سیاسی زوال کا چہرہ صاف طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ سا تھ ہی فطرت اور معاشرتی نظام کےتئیں معنی خیز برہمی کی دبی دبی آواز بھی سن سکتے ہیں۔ گویا افسانہ نگار عصری حقیقتوں سے نہ بے نیاز ہے اور نہ سماجی مسائل سے بے پروا۔ دھیان رہے کہ دُنیا کی زبوں حالی کے خلاف احتجاج اور برہمی کی بات فاروقی صاحب نے ’’بازگوئی‘‘ میں شامل افسانوں سے متعلق کہی تھی لیکن احتجاج کی لے پر Absurdityکا جو نقاب سریندر پرکاش نےڈال رکھا تھا اس میں سوراخ بنانے کا عمل ’’بازگوئی‘‘ کے افسانوں کی اشاعت سے بہت پہلے اور ’’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم ‘‘ کے فوراً بعدہی شروع ہو چکا تھا جو ’’حاضر حال جاری‘‘ تک آتے آتے اس طرح تارتار ہواکہ زبوں حال دنیا اور اُن کی برہمی کا چہرہ اپنےمہیب حُسن اوربھیانک عریانی اور سحر انگیز تازگی کے ساتھ سامنے آگیا۔ جدیدیت کے مطالعہ میں اپنی مخصوص پہچان رکھنے کے باوجود ہر بار سریندر پرکاش تکنیک اور اسلوب اور زاویہ نگاہ کے حوالوں سے اپنے قاری کو آگاہیوں کی بعض ایسی سطحوں سے مستفید کراتے رہے ہیں،جو پرانے افسانوں میں دبی دبی تھیں۔ دراصل اُن کے ہر نئے مجموعہ میں مقررہ روش یا طریق کار میں معمولی ردّوبدل کو فروعی چیز سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتاکہ افسانہ نویسی کے بدلتے چلن میں حیات و کائنات سے مکالمے اور معاملے کی نوعیت اُن کے ہاں مسلسل تغیر پذیر رہی ہے۔ ’’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘‘ (جنوری ۱۹۶۸) ’’برف پر مکالمہ‘‘ (مارچ ۱۹۸۱)،’’بازگوئی‘‘(۱۹۸۸)،’’حاضر حال جاری‘‘ (۲۰۰۲) ہر مجموعہ اپنے ساتھ نئی ادبی و فنی نشانیاں لیے ہوئے ہے،جس سے اُس عہد کی صورتحال سے روبرو ہوتے ہوئے اُن کا تخلیقی عمل بہتے پانی کی طرح ہمیشہ خود کو بدلتا رہتا ہے اوریہی وہ قوت ہے جو اُن کے افسانوں کو سماجی و سیاسی،تہذیبی و ثقافتی ڈسکورس سے بے تعلق ہونے نہیں دیتی۔
سریندر پرکاش کے فکری و فنی ارتقاکو زمانی ترتیب اور تدریجی تسلسل میں رکھ کر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کا افسانوی سفرمیں ترک و قبول کا ایک ایسا جدلیاتی عمل ہے جس نےکسی موڑ پر اُنہیں ٹھہرنے نہیں دیا۔ سریندر پرکاش کے افسانوں کا ہر نیا مجموعہ ایک بڑا جنکشن ہے۔