گزشتہ جمعہ کو شائع ہونے والے مضمون ’’درس و تدریس کا قرآنی رشتہ ‘‘ کی دوسری اور آخری قسط پڑھئے جس میں حجاب، حدیبیہ اور دجال پر بات کی گئی ہے
EPAPER
Updated: July 28, 2023, 11:14 AM IST | Mumbai
گزشتہ جمعہ کو شائع ہونے والے مضمون ’’درس و تدریس کا قرآنی رشتہ ‘‘ کی دوسری اور آخری قسط پڑھئے جس میں حجاب، حدیبیہ اور دجال پر بات کی گئی ہے
عصری تعلیم میں تاریخ کے معلم کی کوشش یہ بتا سکتی ہے کہ تجارت کی غرض سے عربوں کی آمد سے ہندوستان میں اسلام کی ابتداء ہوئی اس میں حضرت عثمان غنی بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کا نام گرامی سر فہرست ملتا ہے۔ (بحوالہ ہندوستانی جغرافیہ مع تاریخ و شہریت ، مصنف محمد الیاس ندوی صفحہ:۱۸)
اسی طرح ریاضی میں بہت سے مسائل ہیں۔ ایک دفعہ حضرت علیؓ نے اونٹوں کے فیصلوں میں تقسیم اس طرح سے کی کہ آج کی ریاضی کے مشکل ترین حل اس میں نظر آتے ہیں۔ اس مسئلے کو حاصل کرکے چیک کر لیں کہ یہ آج کا کون سا ضابطہ ہے۔
سب سے زیادہ ذمہ داری سماجیات (سوشیالوجی) کے استاد پر آتی ہے۔اسلام کے نزدیک تمام انسان برابر کے حقوق رکھتے ہیں خواہ ان کا تعلق کسی نسل سے ہو، وہ کوئی بھی زبان بولتے ہوں اور کسی بھی خطے کے رہنے والے ہوں۔ ان کی اساس یہ ہے کہ سب کا خدا ایک ہے اور وہ سب ایک آدم کی اولاد ہیں۔ کمرۂ جماعت میں یہ بتادیں کہ سماج میں زندگی گزارنے کے ہر ایک پہلو کو قرآن نے اجاگر کیا ہے،سماج کے ہر رشتے کو نبھانے کے لئے دلائل پیش کیا ہے، ماں باپ، بھائی بہن ، شوہر بیوی ، بیٹا بیٹی، دوست احباب پڑوسی، مسلم غیر مسلم ،دوست دشمن ، ان سب کے لئے الگ الگ پہلو بتائے گئے ہیں ۔ ہر سچائی اور ہر غلطی کے جواز کا جواب قرآن میں موجود ہے ۔رہن سہن، اسراف ،کھانا پینا ، اٹھنا بیٹھنا، ملنا جلنا ،ادب قاعدہ اور تہذیب و تمدن کو اس انداز میں بتایا گیا ہے کہ عمل کرلیں تو سماج کی اس سے زیادہ پاکیزگی نہیں ہوگی ،بغیر اجازت کے سوئی کی نوک سے میوے کے رس کو چکھنے سے لے کر ایکڑوں زمین جائیداد کی تقسیم، ناپ تول کی کمی اور غلط میزان کی سزا بتائی گئی ہے۔ یہ سماجی پہلو ہی ہے۔
بندے کو ہر دوسرے بندے کے تئیں ادب کے دائرہ میںرکھا گیا ہے اسی لئے قرآن نے رشتوں میں محرم ، نامحرم ، حرام اور حلال واضح کیا ہے۔ جب پردے کی بات آتی ہے تو لڑکیوں کو یہ بتادیں کہ اس پابندی کے لئے پردہ کا حکم کیا گیا ہے۔ سب سے پہلے یہ واضح کریں کہ قیمتی چیز کو سنبھال کر رکھا جاتا ہے ۔ دنیا کی سب سے خوبصورت اور قیمتی امانت قرآن مجید ہے جسے ہم کپڑے میں لپیٹ کر رکھتے ہیں، احترام کرتے ہیں ، دنیاوی چیزوں میں ہیرے جواہرات ، سونا چاندی اور پیسے کو، تجوری میں سنبھالا جاتا ہے ، اسی طرح عورت کو صنف نازک کہا گیا ہے اور اس صنف کو مکمل طور پر ڈھانک کر ، چھپا کر رکھنا ہے۔ ایسا کب سے ہوا ہے ،کس نے کیا ہے ، یہ تو اللہ نے کیا ہے۔اللہ رب العزت ہم پر کتنا مہربان ہے۔ یہ بات براہ راست آسمان سے اتاری ہوئی ہے ۔
سورہ الاحزاب آیت ۵۹؍ میں فرمایا گیا کہ ’’اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں۔‘‘اس دوران کچھ بیبیاں بازار میں تھیں۔ اطلاع ملنے پر انہوں نے اپنے چہروں کو ہاتھوں سے ڈھانک لیا ، سکڑ کر کھڑی ہو گئیں ، گھر سے چادریں منگوائیں ، کسی کا چند منٹ کا فاصلہ ، کسی کا کچھ دوری پر ، کسی کا زیادہ فاصلے پر ، لیکن اللہ کے حکم کے بعد ایک لمحے کے لئے بھی خلاف ورزی نہیں ہو سکتی تھی۔ اپنے آپ کو چادروں میں ڈھانک کر گھر گئیں(اس بات پر خاص زور دے کر بتائیں)۔ کہتےہیںکہ چراغوں میں سب سے زیادہ تیل اسی رات میں جلا، عورتوں نے رات ہی رات بیٹھ کر اپنے لئے حجاب کا انتظام کیا، ایک لمحے کی تاخیر نہیں کی ، تو ہم کیوں نہ اللہ کے حکم پر پورے اتریں ۔ بعد میں ’’ سورہ نور‘‘ میں بھی کہا گیا ، ’’سورہ رحمٰن‘‘ (آیت۵۶) میں بھی ذکر ہے۔کتنا اہمیت والا مقام مل گیا عورت کو ،اس پردے کی خلاف ورزی کرنے والے گناہ کے مرتکب ہونگے ، احکام خداوندی کے پابند دنیا میں ہی کامیابی پائیں گے۔ ہائی اسکول سے کالج ، کالج سے ٹیوشن ، ٹیوشن سے نیٹ کی تیاری ،اور کو ایجوکیشن ، نامحرم سے دوستی،غیر مذہب والوں بات چیت ہمدردی، تعلقات، یہ ساری باتیں نارمل سی لگنے لگتی ہے، مگر اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ طلباء و طالبات کو حجاب کے موضوع پر بتائیں کہ حیا کیا ہے اور کس طرح اسلام نے مردوں کو بھی حیا کا پابند کیا ہے۔ اپنی بات کو بہتر ڈھنگ سے سمجھانے کے لئے اساتذہ سورہ ممتحنہ کا مطالعہ کریں جس میں صرف ۱۳؍ آیتیں ہیں ۔ اس سے شرعی حدود وضوابط اور اس کی خلاف ورزی پر وعید کی تفصیل بھی معلوم ہوجائے گی۔
شہریت کی کتاب میں گرام پنچایت سے لے کر اقوام متحدہ تک کی معلومات بڑی آسانی سے دی جاتی ہے ، قوانین اور ضوابط کو جوں کا توں پڑھا دیا جاتا ہے ، تمہید اور آئین کے پہلو کو زور دے کر رٹا دیا جاتا ہے مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ اِن چیزوں کا طریقہ شروع کہاں سے ہوا ہے ۔ کبھی غور کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریاست ِ مدینہ کو جس ترتیب سے سنوارا ہے اور نبویؐ ریاست میں عوام الناس کا نظم و ضبط جو برقرار رکھا اسی سلسلہ کی کڑیاں جاری ہیں۔ آسمان میں کتنے گھنے سیارے ہیں جو ایک دوسرے کے ارد گرد گھومتے ہیں لیکن کبھی آپس میں ٹکراتے نہیں، اسی طرح زمین پر انسانوں کو راحت رسانی کے لئے حکومت کی رعایا کے مفاد کو منظم و مستحکم کرنے اور تحفظ کے لئے قانون بنتا ہے ۔ مدینہ شہر کو پہلی دفعہ شہری مملکت قرار دے کر دستور مرتب کیا گیا تھا۔ یہ عوام کے نظم و ضبط کے لئے رکھا گیا تھا۔ اس میثاق کے بنیادی نکات آج بھی وہی ہیں جو ہم عصری تعلیم میں پڑھاتے ہیں ، لیکن آج تک ہم نے کبھی اس بات کی زحمت نہیں کی کہ خود ہم پڑھیں اور اپنے طلبہ کو بھی بتائیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عالمگیر مملکت کی بنیاد ڈالی تھی ، جو مدینہ کی چند گلیوں سے شروع ہوئی اور روزانہ ۹۰۰؍ کلومیٹر کی رفتار سے پھیلتی رہی، الحمدللہ۔صحیح مسلم میں حضرت انس بن مالکؓ کی روایت ہے ’’ کوئی مسلمان ، مسلمان نہیں ہے جب تک وہ اپنے ہمسایہ کیلئے وہی بھلائی نہ چاہے جو وہ اپنے لئے چاہتا ہے۔‘‘ اس ارشاد مقدس میں صفائی، ستھرائی، صحت ، شائستگی ، خوش خلقی ، صلح جوئی ، ہمدردی ، ایثار، اتنی ساری باتیں آتی ہیں کہ شہری زندگی کے تمام ضوابط کی عمدگی سے پابندی ہو سکتی ہے۔ اس ایک پہلو میں زندگی کے بہت سے معنی چھپے ہوئے ہیں۔ اگر ہم طلبہ کو اسی بات کے ذریعے سے بتائیں تو بہتر ہے۔ دستور کی تمہید و آئین کی تفصیلات کے بارے میں ہم بہت پرسکون ہو کر اسٹڈی کراتے ہیں ، کبھی صلح حدیبیہ کی اسٹڈی نہیں کی، صلح حدیبیہ کی تمہید ونکات کو کبھی قابل غور نہیں سمجھا جبکہ اس میں بہت خوب صورتی سے کئی پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے جس سے تقویٰ کی بنیاد مضبوط ہو۔
اللہ تعالیٰ نے جتنی باتیں قرآن کے ذریعے ہمیں بتائی ہیں، ان ہی باتوں پر منحصر عصری تعلیم کے درس وتدریس کی کتب مقرر ہیں، ہم نے کبھی اس انداز سے دیکھا ہی نہیں تو ہمیں کیسے پتہ چلے؟ اللہ ہماری کوتاہیوں کو معاف کریں ، آمین۔رہا سوال آج کےڈیجیٹل دور کی تعلیم کا،تو یہ تو وقت کے تقاضے کی تعلیم ہے ، اور وقت کے تقاضے میں نئی ٹیکنالوجی کی تعلیم اور مصنوعی ذہانت، چیٹ جی پی ٹی … یہ سب کیا ہے ؟ یہ سب قیامت سے قریب ترین ہونے کی نشانیاں ہیں، کانے دجال کے استقبال کی تیاریاں ہیں ، (توبہ) … یہی تو اشارے ہیں کہ دجال روٹیوں کا پہاڑ اور پانی کی نہر ساتھ لے کر چلے گا اور بڑی تیزی سے دنیا میں پھیلے گا ( مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال) ، اشارہ ہے طاقتور مغربی قوموں کے کل دنیا پر اقتصادی اور معاشی اقتدار اور غلبہ کا ذکر ہے، دوسری طرف اس کی ایجاد کردہ سواریوں ، ریل گاڑی ، ہوائی جہاز ، بحری جہاز کی طرف اشارہ ہے جس میں دوران سفر خوراک وغیرہ کے جملہ سامان مہیا ہوتے ہیں ، دجال کے دونوں کانوں میں سے ہر ایک کی لمبائی تیس ہاتھ ہوگی۔ (کنز العمال کتاب القیامہ من قسم الافعال باب الدجال ) یعنی دجال ایسی ایجادات کرے گا جن سے پیغام رسانی کا کام آسان ہو جائے گا ، جیسے ٹیلیفون ، فیکس ، ای میل، وغیرہ اور یہ ایجاد مغربی عوام کی ہی ہیں، مصنوعی ذہانت، چیٹ جی پی ٹی ایک ایسے منصوبہ کی تیاری ہے ، جس سے دجال ذہنوں تک رسائی کرے گا، اور ہمارے ایمان میں ہلچل پیدا کرائے گا ،( اللہ بچائے ہم سب کو)ہماری نئی نسلوں کی حفاظت فرمائے اور ہماری درس وتدریس میں ہمیں ہر پل قرآن کی ذمہ داری نبھانے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم حلال رزق کے صیغے میں رہیں اور قرآن کی برکت سے ہم اور ہمارے طلبہ فیض یاب ہوتے رہیں اور ہم ذمہ داری کے ساتھ ساتھ ثواب جاریہ کے حقدار بنیں۔ آمین
(مضمون نگار مدینتہ العلوم گرلز پرائمری اسکول ،ناندیڑ کی معلمہ ہیں)