Inquilab Logo

معیشت بدحال مگر حقیقت سے حکومت کا انکار

Updated: November 20, 2023, 1:04 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai

حکومت لڑکھڑاتی معاشی کی کتنی ہی پردہ پوشی کرے مگر اس کے منفی اثرات ہر شعبہ پر عیاں ہیں۔ عوام مہنگائی اور بےروزگاری سے جوجھ رہے ہیں اور بچت میں نمایاں کمی آئی ہے۔ حکومت ان مسائل کو چھپارہی ہے۔

People are in a bad situation due to inflation and unemployment. Photo: INN
مہنگائی اور بے روزگاری سے عوام کا برا حال ہے ۔تصویر:آئی این این

معیشت کے ماہرین کے علاوہ بینک کے بھی ماہر معاشیات ہوتے ہیں ۔ بعض ماہرین معاشیات کی باتوں  پر غور کریں  تو احساس ہوگا کہ ہندوستانی معیشت اور اس کے انتظامی امور میں  کوئی کمزوری یا بدانتظامی نہیں  ہے۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہندوستانی معیشت ترقی کی پٹری سے کبھی نہیں  اتر سکتی۔ بعض بینک کے ماہرین معاشیات کے مطابق ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) ہندوستانی معیشت کی بالکل درست رہنمائی کر رہا ہے۔جب تک وہ معیشت کے ڈگمگانے کا اشارہ نہ دے تب تک سب صحیح ہے۔ کاش! یہ ماہرین وفادار ہونے کے ساتھ سچے بھی ہوتے۔
 یکم اکتوبر ۲۰۲۳ء کو ہم مودی حکومت کی آخری ششماہی میں  داخل ہوگئے ہیں  جو اگلے سال ۳۰؍ مئی ۲۰۲۴ء کو اپنے دس برس مکمل کرلے گی۔ آئندہ سال اپریل اور مئی میں  حکومت کم فعال رہے گی اس لئے معیشت کی جانچ کا یہ مناسب موقع ہے ۔
 ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملک میں  دیگر پیمانوں  کے مقابلے میں  جی ڈی پی کی شرح نمومعیشت کی حالت کی اصل ترجمان ہے۔ قومی دفتر برائے شماریات کے مطابق گزشتہ ۹؍ سال میں  جی ڈی پی کی اوسط شرح نمو ۵ء۷؍ فی صد رہی ہے۔ اگر اس میں  رواں  مالی سال کی متوقع شرح نمو کو شامل کردیا جائے تو، دس برسوں  کی اوسط شرح نمو ۵ء۸؍ فیصد ہوگی۔ اس کا موازنہ یو پی اے اول اور یوپی اے دوم کے دور حکومت سے کیجئے۔ یو پی اے اول اور یو پی اے دوم کے دور حکومت میں  اوسط شرح نمو بالترتیب ۸ء۵؍ اور ۷ء۵؍ فیصد تھی۔ متعدد ماہرین معاشیات ۱ء۸؍ فیصد کی تخفیف کو غیر ضروری سمجھ کر نظر انداز کرسکتے ہیں  لیکن ایسا کرنا غلط ہوگا۔ جی ڈی پی کی شرح کی ابتری سے قومی سلامتی، انفراسٹرکچر خرچ، سرمایہ کاری، ملازمت، فلاحی اقدامات، گھریلو خرچ اور بچت، غربت اور شعبہ تعلیم اور صحت میں  بہتری پر منفی اثرات ہوسکتے ہیں ۔ 
 ملک میں  مہنگائی اور بے روزگاری سب سے بڑے عوامی مسائل ہیں ۔ ۲۰۱۴ء کے مالی سال میں  کل ہند اشاریہ برائے صارفین قیمت ۱۱۲؍ تھا جو دسمبر ۲۰۲۲ء میں  ۱۷۴؍پر پہنچ گیا۔ خردہ مہنگائی ۱۰؍ فیصد کے قریب ہے۔ نتیجتاً گھریلو کھپت میں  کمی واقع ہوئی ہے۔ بڑھتی قیمتوں  کی وجہ سے ہر گھرانہ اور خاندان، بگڑتے گھریلو بجٹ کو بیلنس کرنے میں  پریشانی کا سامنا کررہا ہے سوائے چند امیر افراد کے جو کل آبادی کا ۱۰؍ فیصد سے بھی کم ہیں ۔ آمدنی چاہے کم ہو یا زیادہ، لوگ اپنے اخراجات اور بچت میں  کمی کررہے ہیں  جس کی وجہ سے کُل گھریلو سرمایہ ۵ء۱؍ فیصد کی نچلی سطح پر جا پہنچا ہے۔ گھریلو استعمال کی اشیاء بنانے والی کمپنیاں  صارفین نہ کھونے کے ڈر سے انہی قیمتوں  پر نسبتاً کم سائز کی مصنوعات فروخت کررہی ہیں ۔ دو پہیہ گاڑیوں  کی فروخت میں  ہونے والی کمی سے بھی گھریلو خرچ پر بڑھتی قیمتوں  کے اثر کا پتہ چلتا ہے۔ 
 دوسرا بڑا مسئلہ بے روزگاری ہے۔ ہر سال ۲؍ کروڑ ملازمتیں  فراہم کرنے کے دعوے (یا انتخابی جملے) کے برعکس پچھلے دس برسوں  میں  مشکل سے چند لاکھ ملازمتیں  ہی دی گئی ہیں ۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں  کہ گزشتہ ۱۰؍سال میں  سے ۹؍ سال بے روزگاری کی شرح ۷؍ فیصد سے اوپر رہی ہے۔ اسٹیٹ آف ورکنگ انڈیا ۲۰۲۳ء کی رپورٹ کہتی ہے کہ گریجویشن مکمل کر چکے ۴۲؍ فیصد افراد بے روزگار ہیں ۔ ۲۰۲۲ء میں  ۱۵؍ تا ۲۴؍ سال کے نوجوانوں  میں  بیروزگاری کی شرح ۲۳ء۲۲؍ فیصد تھی۔ خیال رہے کہ۵۷؍ فیصد روزگار انٹرپرینیورشپ کے عوض ملا ہے۔ دوسری طرف، باقاعدہ تنخواہیں  پانے والے ملازمین کا تناسب ۲۴؍ فیصد سے گھٹ کر۲۱؍ فیصد ہوگیا ہے۔ سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی کے اعدادوشمار بتاتے ہیں  کہ موجودہ حکومت کے دور(۲۰۱۵ء تا ۲۰۲۳ء) میں  سرکاری ملازمتوں  میں ۲۲؍ فیصد کمی ہوئی ہے۔ وزارت مالیات کی ستمبر ۲۰۲۳ء کی رپورٹ میں  معاشی زبوں  حالی کو بیان کرنے کیلئے اشاروں  کی زبان اور پیچیدہ لفظی تراکیب کا سہارا لیا گیا ہے مثلاً مستقبل قریب میں  عالمی نقطہ نظر سے خطرات، لاگت کا مسلسل دباؤ، افراط زر کی توقعات میں  اضافہ، طویل مدت تک پالیسی کی اعلیٰ شرح، کرنسی کا بہاؤ اور مالی خطرات کا دوبارہ جائزہ، اشیائے اجناس کی سپلائی میں  منفی جھٹکے اور بجلی کی قیمتوں  کی پرواز۔ آسان زبان میں  اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا معاشی نقطہ نظر دھندلا نظر آرہا ہے جس کی وجہ سے معاشی ترقی کی رفتار کم ہو جائے گی، ضروری اشیاء کی قیمتیں  آسمان پر پہنچ جائیں  گی، سود کی شرحوں  میں  اضافہ ہوگا، گھریلو کھپت اور بچت میں  کمی دیکھنے کو ملے گی اور قرض میں  اضافہ ہوگا۔ 
 ایک ریٹنگ ایجنسی کے ماہر معاشیات نے لکھا کہ ’’حالیہ کچھ مہینوں  میں  بینک کریڈٹ میں  اضافہ کی شرح۱۵؍ فیصد کے اوپر مضبوطی کے ساتھ قائم رہی جبکہ خردہ کریڈٹ کی شرح ۱۸؍ فیصد سے زیادہ رہی۔‘‘ یہ بظاہر شاندار اور خوش آئند محسوس ہوتا ہے مگر اعدادوشمار کچھ اور ہی کہتے ہیں ۔ ۲۳؍ فیصد پرسنل لون اور ۲۲؍ فیصد گولڈ لون نے مذکورہ بالا شرحوں  کے اضافہ میں  اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگست ۲۰۲۳ء میں  اول الذکر شرح صرف ۶ء۱؍ فیصد تھی۔ گزشتہ ۴؍ سہ ماہیوں  میں  اوسط ماہانہ آمدنی میں  ۹ء۲؍ فیصد کی کمی ہوئی ہے جس کے باعث اوسط ماہانہ آمدنی ۱۲؍ہزار ۷۰۰؍ سے کم ہوکر ۱۱؍ ہزار ۶۰۰؍  ہوگئی ہے۔ اسی طرح ایک دیہی مزدور کی یومیہ اوسط آمدنی۴۰۹؍ سے کم ہو کر ۳۸۸؍ ہوگئی ہے۔ لہٰذا یہ کہنا درست ہوگا کہ ذاتی لون اور گولڈ لون، گھریلو کھپت کیلئے تھا۔ اسے بنیاد بنا کر پیشین گوئی کرنا غیر مناسب ہوگا۔ علاوہ ازیں ، ماہرین معاشیات نے نشاندہی کی ہے کہ نجی سرمایہ کاری، نجی کھپت اور برآمدات میں  واضح کمی دیکھنے کو ملی ہے جبکہ سرکاری سرمایہ کاری اطمینان بخش ہے۔ 
 مناسب اقدامات اور فیصلوں  کے ذریعے برآمدات اور نجی سرمایہ کاری کو فروغ دیا جاسکتا ہے اور کھپت میں  اضافہ پر توجہ مرکوز کی جاسکتی ہے لیکن اگر حکومت معیشت کی کمزوریوں  اور لاحق خطرات کی یونہی پردہ پوشی کرتی رہی تو وہ معیشت کی بری حالت کو سدھارنے کے مواقع کا فائدہ نہیں  اُٹھا پائے گی۔ 
 یہ موسم خزاں  ہم ہندوستانیوں  اور ہماری معیشت پر سخت رہا ہے، اور موسم سرما مزید سخت ہو سکتا ہے۔ اب ہم صرف امید ہی کرسکتے ہیں  کہ آنے والا موسم بہار اپنے ساتھ خوشیاں  لائے گا۔اچھی امید اچھے نتیجہ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK